حکومتیں تماشا دیکھ رہیں ہیں جن اقوام میں خود کو لیکر بڑا غرہ رہا ہے ان کے یہاں حاکم و محکوم ایک صف میں کھڑے ایک دوسرے کا منہ تک رہے ہیں یہ مدد کریں تو ہم بھی کریں وہ فلسطین کے حق میں بیان دیں تو ہم بھی بیان دینے کی سوچیں؛ یہ اقوام کوئی اور نہیں مسلم امت ہے ہاں میں درست کہہ رہا بالکل درست کہہ رہا ہوں۔
تحریر: مولانا سید مشاہد عالم رضوی
حکومتیں تماشا دیکھ رہیں ہیں جن اقوام میں خود کو لیکر بڑا غرہ رہا ہے ان کے یہاں حاکم و محکوم ایک صف میں کھڑے ایک دوسرے کا منہ تک رہے ہیں یہ مدد کریں تو ہم بھی کریں وہ فلسطین کے حق میں بیان دیں تو ہم بھی بیان دینے کی سوچیں؛ یہ اقوام کوئی اور نہیں مسلم امت ہے ہاں میں درست کہہ رہا بالکل درست کہہ رہا ہوں۔
جس کے عالم ، قاضی ، امام جماعت اور قائدین قرآن کو چھوڑ اولی الامر کے ناصواب سیاسیات کی نذر ہوتے دیکھائی دیتے ہیں۔
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
فلسطین کی مدد کرنے کے بجائے کبھی یہ جھوٹے آنسو بہاتے ہیں تو کبھی نماز جمعہ کے خطبہ میں حرمین شریفین کے امام صاحب فلسطینی عوام کے لئے ریاکارانہ دعا کرکے نمازیوں کے سامنے رو رو دیتے ہیں ۔۔۔ ہے ہے کیا سادگی ہے تلوار چلاتے مجاہد فی سبیل اللہ کو دعا کرتے تو سنا ہے مگر دعا سے تلوار کا کام لینے والے نرالے مجاھد اعراب میں ہی خال خال نظر آئیں گے!؟تقوی کی آخر یہ کون سی قسم ہے خدا ہی جانے۔۔۔
ہائے رہے اسباب و وسائل مذہبی کی بے تکی جابجائی جہاں حکمت و تدبیر کی ضرورت ہےعمل کے میدان میں اترنے کامطالبہ ہے ۔۔۔ وہاں دعا سے کام چلایا جاتا ہے ؟؟
کہتے ہیں ایک سادہ لوح مسلمان پاخانہ میں بیٹھا دست دعا اٹھائے اللہ میاں سے روٹی مانگ رہا تھا ۔۔۔ ہاں مگر یہ دعا کا سوراخ گم کرنے والے عیار و مکار دین سے دنیا کمانے والے ہیں۔۔۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔۔۔بزدلی کی حد ہے انہوں نے تو نفاق کی مثال قائم کرنے میں اپنے آقا آمریکہ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔۔۔
صمود کی آمد ظلم کی شکست
مگر اسی مایوسی کی فضا میں مسلم امت کے بزدلانہ کردار کے باوجود کچھ ہمتی انسانوں نے غزہ کے مظلوموں کی آواز استغاثہ سن لی اور سر سے کفن باندھ کر چھوٹی چھوٹی ناؤؤں یعنی شپس (ships) میں سوار ہوکر غزہ کے ستم دیدہ بھوکوں پیاسوں بیماروں اور بے سر پناہوں کے لئے کھانا پانی دوائیں اور دیگر اشیاء ضروری لیکر سمندر میں اتر گیے ہیں ۔
صمود جی ہاں یہ صمود کا زندہ دل کارواں ہے۔۔۔
جو مسلسل فلسطین کی طرف پیش قدمی کر رہا ہے جن کی حمایت میں سمندر کے ساحلوں پر بے لوث عوام اپنی قصی القلب حکومتوں سے بے خوف و خطر فلسطینی جھنڈے ہاتھوں میں اٹھائے ان کا استقبال کر رہی ہے دوسری جانب مزدوروں کی قطاریں اسرائیل کو سپلائی ہونے والے انسان کش اسلحے کے حمل و نقل پر عملی پابندی لگا رہی ہیں صمود کی پیش قدمی حیرت انگیز ہی نہیں بلکہ جرائت مردانہ کا مصداق ہے۔۔۔
جن کے عزم و استقلال اور ہمت پر پوری دنیا کے آزاد ضمیر انسان سلام کررہے ہیں اور غزہ ان کے پہنچنے کا بے صبری سے انتظار کر رہا ہے ۔
جبکہ اسرائیل انہیں دھمکیاں دے رہاہے انہیں بدنام کر رہاہے اور ان پر بموں کے وار کرکے مسلسل ڈرا رہا ہے مگر ان کی آواز دنیا سن چکی ۔۔۔
ہم مرنے سے نہیں گھبراتے فلسطین کے لوگ بھی انسان ہیں انہیں بھی جینے دو آزادی ان کا بھی بنیادی حق ہے ۔۔۔
یہ ہے صمود کے دوٹوک بیان۔
یقینا صمود میں مختلف ممالک علاقہ جات و جغرافیہ کے بسنے والے اور مختلف رنگ و نسل کی مجموعی شمولیت نے سب کے کان کھڑے کردئیے اور خاص طور پر بے غیرت وبے حمیت مسلم حکمرانوں کے کردار پر سوال کھڑا کردیا ہے اور مسجدوں میں رمضان المبارک کی تراویح میں سیدھے سیدھے کھڑے پیش اماموں کے علم و عمل کے مابین فاصلے پر گہرا گہن ڈالدیا ہے اور ان سب سے پوچھ رہا ہے کہ بتاؤ تو سہی تمہارے ضمیر زندہ بھی ہیں ؟ تم انسانی آبادی کے باشندے بھی ہو ؟ یا اسرائیلی حیوانوں کے دست و بازو ہو؟ کیا فرق ہے ؟!
فلسطینی بچوں پر اسلحہ چلانے والے ایک اسرائیلی فوجی میں اور آواز اٹھانے کی طاقت رکھنے والے اس فرد میں جو چپ تماشا دیکھنے میں لگ گیا ہے ۔۔۔ ؟!جبکہ اسکے اندر مظلوم کی مدد کرنے کی طاقت بھی ہے؟؟ صمود نے ایسے چاپلوسوں سے سارے بہانے چھین لئے اور بتادیا یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم۔۔۔
جھوٹی تقریروں سے عوام کو بیوقوف بنانے والے آیات قرآن سے محفلوں کو گرمانے والے بے عملی کے میدان کی پھر کی بنتے جا رہے ہیں۔
خدا نکردہ یہ صورتحال اگر باقی رہ گئی تو مسلم امت ذلت و خواری کے دلدل میں اور دھنستی جائے گی اور اگر اسی طرح اپنے عیاش حکمرانوں کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے تو بچی کچی توحید سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے اور پھر ابناے کفر و شرک کے دروازوں پر کبھی امن و چین کی تو کبھی اسرائیل کے دست ظلم و تشدد سے نجات حاصل کرنے کی بھیک مانگتے پھریں گے کہ جس کے آثار مدتوں سے ہر باضمیر مسلمان کو دیکھائی دے رہے ہیں ۔ حالانکہ فرمان خداوند عالم ہے کہ: اے ایمان والو صاحبان ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا سرپرست اور دوست نہ بناؤ۔۔۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۚ(سورہ نساء آیت نمبر ١٤٤)
دوسری جگہ صراحت سے اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَىٰ أَوْلِيَاءَ ۘ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ( سورہ مائدہ/٥١ )ایمان والو یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا سرپرست اور دوست نہ بناؤ کہ یہ خود آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے کوئی انہیں سرپرست اور دوست بنائے گا تو انہیں میں شمار ہوجائے گا بیشک اللہ ظالم قوم کی ہدایت نہیں کرتا ۔
حیرت ہوگی آپ کو یہ بات سنکر کہ مسجد الحرام مکہ میں اور مسجد نبوی مدینہ منورہ میں ائمہ جماعت نمازوں میں یہ آیتیں بھولے سے بھی نہیں پڑھتے ۔۔۔
دور حاضر میں ملت فلسطین انہیں کی کرم نوازیوں کی بدولت ظلم و تشدد کا شکار ہے اور یہ مسلم حکمراں کی یھود نوازی کے مؤید ہیں اور ماضی میں ایسے ہی درباری ملاؤں اور قاضیوں نے قتل امام حسین علیہ السلام کا فتویٰ دیا تھا۔۔۔
تو دیکھو، عزم و ارادہ کے مالک بنو کہ اس طرح بڑی بڑی حکومتوں کو جھکایا جاسکتا ہے ! آج صمود سب کیلئے مثال ہے اگرچہ یہ تو نہیں کہا جاسکتا ہے کہ ہمت کے یہ متوالے غزہ صحیح وسالم پہنچ سکیں گے بھی !! یا نہیں۔۔۔؟!
لیکن ہر چیز سے قطع نظریہ لوگ ظالموں کی صف سے جدا ضرور ہوگئے ہیں حکومتوں کی چاہت کے برخلاف ملیونوں انسانوں کے دلوں میں جگہ ضرور پیدا کرلی ہے طاقت و اقتدار کے نشیڑیوں اور بین الاقوامی غنڈوں کو انکی اوقات ضرور بتادی ہے اور ظلم و تشدد کے بڑھتے ہوئے دائرہ کو محدود کرنے میں اپنا کردار ضرور نبھایا ہے ۔۔۔
پھر وہی آواز پھر وہی نعرہ ۔۔۔ یعنی عدم تشدد کا راستہ نہر فرات پر اترنے والے مظلوم مسافر حسین ابن علی کے راستہ کی صدائے بازگشت کانوں میں پھر آرہی ہے ۔۔۔
صمود مظلوم فلسطینیوں کے جھنڈے ہاتھوں میں لیکر ھم آہنگ و ہمنوا لاشعوری طور پر کربلا والوں کے راستہ پر نکل پڑے ہیں اور اپنے عزم وارادہ سے پوری دنیا کو بتادیا کہ انسانیت زندہ ہے انسانیت زندہ ہے صمود کی شکل میں۔۔۔
لہٰذا ان کی حمایت میں جس قدر لکھا جائے اور بولا جائے کم ہے ان سے اظہار ہمدردی ظالموں کی شکست اور مظلوموں کی کامیابی ہے۔
ہم اپنے قلم وبیان سےصمود کی کامیابی کی تمنا کرتے ہیں اور ان کے عزم و ہمت کو سلامی دیتے ہیں ساتھ ہی ساتھ جولوگ جہاں کہیں بھی ظلم وتشدد اور نسل کشی کی حمایت و مدد میں ضمیر فروشی کررہے ہیں ہم اپنے کو اپنے بچوں کو ان سے جدا کرتے ہوے ان سے اپنی دلی نفرت کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں
لعن اللہ من ظلمتک و لعن اللہ من سمعت بذالک و رضیت بہ۔۔۔ اور اپنی صف کو ان سے جدا کرتے ہیں
غزہ تم تنہا نہیں فلسطین تمہاری آواز صدا بصحرا نہیں قدرت تمہارے ساتھ ہے خدا تمہارا محافظ ہے اور دنیا کے تمام حریت پسند انسان نڈر ہو کر تمہارے ساتھ کھڑے ہیں۔
صمود خوش آمدید
راہ حسین ابن علی آج بشکل عمود دگر زندہ وپائندہ ہے۔