1928میں جب آپکی عمر 14سال تھی اعلی تعلیم کے حصول کے لئے مرکز علم و ادب حوزہ علمیہ لکھنؤ داخل کروا دیا گیا۔اپ نے لکھنوء سے فاضل ادب اور فاضل حدیث کی اسناد بھی حاصل کیں خدا داد صلاحیت اور اعلی زہانت کی بدولت آپ نے 16سال کا نصاب صرف 8سال میں امتیازی حیثیت سے پاس کیا
اس وقت ایران نے اسرائیل کو اسی نفسیاتی جنگ میں الجھا دیا ہے ۔ لہٰذا ہم دیکھ رہے ہیں کہ جب سے ایران نے انتقام لینے بات کی ہے تب سے اسرائیل تو اسرائیل امریکہ بہادر تک کے ہاتھ پاؤں کانپ رہے ہیں
آپ نے درس وتدریس کے ذریعے اپنی بابر کت عمر میں بہت کم مدت میں جوان،پرہیزگار ،مجاہد اور بابصیرت شاگردوں کی تربیت کی جن میں سے ہر ایک اسلامی ثقافت،علم،جہاد کے میدان کے علمبردار بنے
آپ حیرت انگیز طور پر صرف 20سال کی عمر میں درجہ اجتہاد پر فائز ہو چکے تھے،انہی سالوں کے دوران شہید باقر الصدر کے افکارات پر مشتمل معروف کتابیں ہمارا فلسفہ ،اسلامی اقتصادیات المعروف اقتصادنا،شائع ہوئیں جو آج بھی اسلامی اور خارجی حلقوں میں ایک سند کی حامل ہیں
عراقی ایجنسیز کی طرف سے کہا گیا کہ آپ صرف چند جملےامام خمینی اور انقلاب اسلامی کے خلاف لکھ لیں، آپ کو قید سے چھوڑ دیا جائے گا۔ لیکن اس جری سید نے کچھ بھی لکھنے سے انکار کرتے ہوئے کہا: میں شہادت کے لیے آمادہ ہوں۔ انسانیت اور دین کے خلاف میں ایک بھی قدم نہیں اٹھا سکتا۔
مرحوم کے بارے میں ایک فارسی تحریر تھی جسے غالباً حجۃ الاسلام سید محمد طٰہٰ الموسوی علیہ الرحمہ نے 1382ہجری میں قلمبند کیا ہے۔ جس کا ترجمہ سن 2000 میں تنظیم طلبہ تسر نے شائع کیا تھا۔
کیا اس قسم کے ظہورپر ایمان انسان کو خواب و خیال کی دنیا میں لے جاتا ہے کہ جس سے وہ اپنی موجودہ حیثیت سے غافل ہوجاتا ہے اور ہر قسم کے حالات کے سامنے ہتھیار ڈال دیتا ہے یا یہ کہ واقعا یہ عقیدہ ایک قسم کے قیام اور فرد اور معاشرے کی تربیت کی دعوت ہے؟
غزہ کا المیہ روزبروز شدت اختیار کرتا جا رہا ہے جہاں صیہونی مظالم میں اضافہ اور شدت پیدا ہو رہی ہے وہاں عالم دنیا اسے روٹین میں لے کر غافل ہوتی جا رہی ہے۔
اقوام متحدہ کے، انسانی حقوق کے خصوصی رپورٹر نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ غاصب صیہونی حکومت نے غزہ میں فلسطینی عوام کا قتل عام اور نسل کشی کی ہے۔
قارئین! آئیے دیکھتے ہیں کہ ’’عبادت ‘‘کے معنی کیا ہیں؟ تو کتبِ لغت کی طرف رجوع کرنے سے جو معنی ملتے ہیں وہ ہیں ’’اللہ کو ایک جاننا، خدمت کرنا، خضوع و خشوع کرنا اور ذلیل ہونا‘‘جبکہ ’’عبودیت اور عبدیت‘‘ کے معنی ہیں ’’آباء و اجداد سے اطاعت اور غلامی میں چلے آنا‘‘