اسرائیل پر ایران کا جوابی حملہ
تحریر: دانش بلتستانی
یکم اپریل 2024 کو شام میں موجود ایرانی سفارت خانے پر اسرائیل نے چھے میزائل داغے ۔ اس حملے کے نتیجے میں القدس فورس کے سینئر کمانڈر محمد رضا زاہدی سمیت کئی فوجی و سفارتی افراد موقع پر ہی شہید ہوئے ۔
اس دن سے لے کر تا حال پوری دنیا کی نظر ایران کے میزائلوں کی طرف ہے۔ کہ کب اور کیسے اسرائیل کو سبق سکھائے۔ چونکہ دنیا جانتی ہے کہ ایران اسرائیل کو ضرور جواب آن غزل دے گا۔ اور ایران کی اعلیٰ قیادت سمیت کئی عہدہ داروں نے بھی کئی مواقع پر اسرائیل کو ” پشیمان کنندہ” جواب دینے کا اعلان کیا ہے ۔ لہذا دنیا شدت سے اس انتقام کا انتظار کررہی ہے ۔ اس طرف ایران فوری فوجی کارروائی کے بجائے تاخیری حربے استعمال کر رہا ہے ۔ اس وجہ سے کچھ عجلت پسند افراد اس مخمصے میں پڑ گئے ہیں کہ ایران آخر حملہ کرے گا بھی یا نہیں ؟ ہمارے خیال میں ایران اسرائیل پر فوری فوجی حملے کی بجائے اس پر تدریجی کارروائی کرنا چاہتا ہے ۔
اور یقیناً یہ انتقامی کارروائی شروع ہو چکی ہے۔ یعنی حملے کا آغاز ہو چکا ہے۔ ہر زمانے میں جنگی تکنیک بدلتی رہتی ہے ۔ اتنا تو سب جانتے ہیں کہ کسی زمانے میں تیر اور تلوار سے جنگ کی جاتی تھی اور پھر میزائل اور ڈرون کا زمانہ اگیا ۔ اس کے علاوہ بھی قوموں اور ملکوں کو فتح کرنے کے لیے کئی اقسام کی جنگیں ہیں ۔ جیسے تہذیبی جنگ، ثقافتی جنگ، اقتصادی جنگ، نفسیاتی جنگ وغیرہ وغیرہ ۔
اس زمانے کی رائج جنگوں میں سے ایک جنگ نفسیاتی جنگ ہے ۔ نفسیاتی جنگوں میں ہارنے والی قوموں پر جیتنے والی قومیں بغیر کسی خون خرابے کے قبضہ جما لیتی ہیں ۔ مفتوح اقوام فاتحین کے گن گانے لگتی ہیں ۔ یہاں تک مفتوح قوم کے عوام تو عوام خواص یعنی اعلیٰ قیادت تک سب فاتح کے اشاروں پر ناچنے لگتے ہیں اور اسی طرز عمل کو اپنا افتخار سمجھنے لگتے ہیں ۔ یہ نفسیاتی جنگ کئی حوالے سے عسکری جنگ سے زیادہ موثر ، خطرناک اور ہمہ گیر جنگ ہے۔
اس وقت ایران نے اسرائیل کو اسی نفسیاتی جنگ میں الجھا دیا ہے ۔ لہٰذا ہم دیکھ رہے ہیں کہ جب سے ایران نے انتقام لینے بات کی ہے تب سے اسرائیل تو اسرائیل امریکہ بہادر تک کے ہاتھ پاؤں کانپ رہے ہیں ۔ امریکہ نے باقاعدہ سفارتی ذریعے سے ایران سے درخواست کی ہے وہ اس انتقامی کارروائی میں امریکہ کے مفادات کو نقصان نہ پہنچائے ۔ وضاحتیں دینے لگے ہیں کہ ایرانی سفارت پر حملے میں امریکہ کا کوئی ہاتھ نہیں ہے ۔ لہٰذا پہلے کی طرح ہمیں انتقام کا نشانہ نہ بنایا جائے ۔
اسرائیل میں ہر طرف خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے۔ اقتصاد تباہی ہو گیا ہے۔ کرنسی تیزی سے گر رہی ہے ۔ خان یونس سے اسرائیل فوج نے پسپائی کی ہے ۔ بازاروں میں اشیائے خورد و نوش ناپید ہیں ۔
یہ نفسیاتی جنگ دیگر جنگوں کی نسبت کس قدر خوفناک ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ آج پورے کا پورا اسرائیل خوف و ہراس میں مبتلا ہے۔ آسمان پروازوں سے خالی اور انٹرنیٹ سے جی پی ایس غائب ہے۔ کئی سارے ممالک سے اپنے سفارت خانے خود اسرائیل بن کر چکا ہے۔
کوئی قوم جب نفسیاتی طور پر مغلوب ہو جائے تو اسے ہرانے کے لیے زیادہ اسلحوں کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ اس کی بہت سی مثالیں ہمیں اسی مشرقی دنیا بالخصوص مشرق وسطیٰ میں ملتی ہیں ۔ کون نہیں جانتا کہ عرب دنیا بالخصوص سعودی عرب میں مال و دولت کے علاوہ اسلحے اور فوجی طاقت کی کوئی کمی نہیں ہے ورنہ وہ سالوں سال یمن پر لشکر کشی نہیں کرتا لیکن یہی سعودی عرب اسرائیل کی طرف میلی آنکھ سے بھی نہیں دیکھ سکتا کیونکہ نفسیاتی طور پر خود کو اسرائیل سے کمزور سمجھتا ہے۔ جبکہ بھوک اور پیاس کی شدت میں طاقت پکڑ نے والے یمنی حوثی اللہ کی مدد سے نفسیاتی طور مضبوط ہونے کی وجہ سے اسرائیل ، امریکہ برطانیہ وغیرہ کے درجنوں بحری بیڑے سمندر میں ڈبو چکا ہے یا اپنے قبضے میں لے چکا ہے۔ یہ چند ایک مثالیں ہیں ۔ غور کریں اور سوچیں تو اپنے اردگرد انفرادی سطح سے لے کر اجتماعی سطح تک دنیا ایسی مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔
آخری بات عرض کروں۔ نفسیاتی طور پر مضبوط کرنے والے عوامل میں سے ایک اہم عامل ایمان باللہ ہے۔ لہذا موجودہ حالات اپنے اپنے ایمان علی اللہ کو جانچنے کا ایک بہترین موقع فراہم کرتے ہیں ۔ سو سوچیں جو نفسیاتی طاقت ایران، عراق، یمن، لبنان اور اہل فلسطین کو حاصل ہے باقی مسلم ممالک و عرب دنیا اس سے کیوں محروم ہیں ؟