13

جتنے ترجمہ قرآن کے اردو زبان میں ہوئے ہیں کسی اور زبان میں نہیں ہوئے، شعبہ علوم فنون قرآت قم کے سربراہ کی وفاق ٹائمز سے گفتگو

  • News cod : 48308
  • 26 ژوئن 2023 - 13:33
جتنے ترجمہ قرآن کے اردو زبان میں ہوئے ہیں کسی اور زبان میں نہیں ہوئے، شعبہ علوم فنون قرآت قم کے سربراہ کی وفاق ٹائمز سے گفتگو
مدرسہ امام خمینیؒ قم کے شعبہ علوم فنون قرآت کے سربراہ اور نامور قرآنی استاد حجۃ الاسلام والمسلمین سید مجتبیٰ اصیل رضوی نے وفاق ٹائمز سے گفتگو میں کہا کہ جتنے ترجمہ قرآن کے اردو زبان میں ہوئے ہیں کسی اور زبان میں نہیں ہوئے لیکن جو تحقیقات اور علمی کام گذشتہ علماء نے کیا ہے اس کو آج کل کے زمانے کے مطابق اپڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔

مدرسہ امام خمینیؒ قم کے شعبہ علوم فنون قرآت کے سربراہ اور نامور قرآنی استاد حجۃ الاسلام والمسلمین سید مجتبیٰ اصیل رضوی نے وفاق ٹائمز سے گفتگو میں کہا کہ قرآن کے حوالے سے بہت سے شعبہ جات موجود ہیں قرآت قرآن، حفظ قرآن، ترتیل و۔۔۔ وغیرہ یہ ایک الگ موضوع ہے اس پر ایک الگ جہت سے کام کرنے کی ضرورت ہے کچھ قرآن کی علمی جہات ہیں معلوماتی اعتبار سے قرآنی ریسرچ سنٹرز ہونا چاہئے تحقیقاتی ادارے ہونے چاہئیں اردو زبان میں ہوں یا کسی اور رائج زبان میں چونکہ برصغیر میں ایک بہت بڑا حصہ مسلمان آبادی کا ہے اور اردو زبان نے بہت زیادہ قرآن کی خدمت کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جتنے ترجمہ قرآن کے اردو زبان میں ہوئے ہیں کسی اور زبان میں نہیں ہوئے لیکن جو تحقیقات اور علمی کام گذشتہ علماء نے کیا ہے اس کو آج کل کے زمانے کے مطابق اپڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے اور پھر سے کام کرنے کی ضرورت ہے اور کافی ہمارے علماء کے کام مفقود ہوچکے ہیں ان کے احیاء کی ضرورت ہے تاکہ نئی نسل تک یہ پیغام پہنچ جائے اور جہاں تک تحقیق ہوچکی ہے اس سے آگے بڑھنے کیلئے کام آسان ہو جائے۔ چونکہ کسی بھی میدان میں یہ سوچ کہ حد آخر تک ہم پہنچ چکے ہیں باعث بنتی ہے کہ ہم آگے نہ بڑھ پائیں لہذا ہمیں یہ فکر رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے اس سے بھی آگے بڑھنا ہے قرآنی میدان میں ہو یا کسی اور میدان میں اگرچہ اس حوالے سے کافی ادارے اور شخصیات مصروف عمل ہیں لیکن ہمیں اس سے کافی آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔

قرآنی معروف استاد نے کہا کہ خدا کا وعدہ ہے کہ “وَ الَّذِیۡنَ جَاہَدُوۡا فِیۡنَا لَنَہۡدِیَنَّہُمۡ سُبُلَنَا ” جو بھی ہماری راہوں میں کوشش کرتا ہے ہم اسے اپنی راہوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔

انہوں نے اس سوال کے جواب میں کہ حفاظ قرآن پہلے زمانے میں زیادہ ہوتے تھے ابھی یہ ذوق و شوق کم ہوتا جارہا ہے اس کی کیا وجہ ہے؟ کہا کہ کلی طور پر یہ کہنا صحیح نہ نہیں ہے کیونکہ ممکن ہے بعض جگہوں پر ایسا ہو لیکن بعض جگہوں پر اب بھی قرآن سے متعلق ذوق و شوق زیادہ ہے اب جہاں شوق کم ہورہا ہے تو وہاں غور و فکر کی ضرورت ہے حقیقت یہ ہے کہ انقلاب اسلامی ایران کے بعد قرآن کی طرف رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے خواہ حفظ کا میدان ہو یا قرآنی دیگر میدان ہوں۔ اب ممکن ہے گذشتہ چند برس میں اس میں مانع واقع ہوا ہو خصوصا یہ جو کرونا کے ایام ہے اس میں بہت سے مسائل کے ساتھ ساتھ قرآنی سنٹرز بھی متاثر ہوئے ہیں۔ لیکن اب حالات بہتر ہوگئے ہیں ابھی از سر نو دوبارہ سے کام کرنے کی ضرورت ہے اور ہمیں عظمت قرآن کو سمجھنے کی ضرورت ہے اس سے ہمارے اندر قرآن کو حفظ کرنے اس کی تعلیم حاصل کرنے اور اس پر تحقیق کرنے کے حوالے سے خود بخود شوق پیدا ہوگا۔

حجۃ الاسلام والمسلمین اصیل نے اس سوال کے جواب میں ایک شبہ یہ ہے کہ شیعوں میں حُفاظ قرآن نہیں ہیں؟ مزید کہا کہ ایک زمانہ تھا کہ جب یہ شبہ پایا جاتا تھا لیکن آج کے زمانے میں کوئی اس طرح کے شبہ کو پیش کرنے کی جرات نہیں کرسکتا البتہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ہر دور میں شیعوں میں حُافظ قرآن موجود تھے اور کبھی بھی ایسا دور نہیں گذرا کہ شیعوں میں حُفاظ قرآن موجود نہ ہوں ہاں تعداد کے اعتبار کمی بیشی رہی ہے۔ اس وقت ایران میں بہت سے حفاظ قرآن موجود ہے جو واقعا عالمی اعتبار سے بہترین حفاظ میں شمار ہوتے ہیں حتی مصر جو قرآن کا مرکز و محور کہا جاتا ہے ان کو بھی یہ اعتراف کرنا پڑا ہے کہ جو قراء ایران میں موجود ہیں وہ ہمارے ہاں بھی نہیں ہیں بعض قراء واقعا یہاں اس طرح سے ہے اور یہاں حُفاظ قرآن کی تعداد بھی روز بروز بڑھ رہی ہے لیکن پھر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے جس طرح رہبر معظم نے فرمایا تھا کہ ایران میں دس میلیون حُفاظ قرآن ہونے چاہئیں تو وہ ایران کی بات کررہے تھے اگر ہم برصغیر کے اعتبار سے دیکھیں تو ہمیں یہ کہنا پڑے گا کہ ہمیں دسیوں میلیون حُفاظ قرآن کی ضرورت ہے لیکن اس کے لئے تمام اداروں، مراکز اور مدارس کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے حفاظ کی تعداد زیادہ سے زیادہ ہو جائے۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=48308