اربعین و اربعین مارچ کے حوالے سے حوزہ علمیہ قم کے برجستہ استاد، محقق وفاق المدارس الشیعہ پاکستان شعبہ قم کے مسئول حجت الاسلام علی اصغر سیفی کے ساتھ مختلف سوالات کے ساتھ نشست کا اہتمام کیا ہے۔
اربعین میں جمع ہونے والے شیعہ اور مولا امام زمان ؑ کے ناصرین میں کونسی چیز مشترک ہے؟
اربعین مولا کےناصروں کی تربیت گاہ ہے، اربعین حوادث میں شمار نہیں ہوتی، ہم حوادث کہتے ہیں تو اس کا مطلب علامات ہے، وہ علامات جو واضح بیان ہوئی ہیں جیسےخروج سفیانی، آسمانی آواز ۔۔۔ وغیرہ۔ آواز سے مراد خود حضرت جبریل کی آواز ہے وہ حضرت امام مہدی ؑ کے تعارف کروائیں گے اور انکی نصرت کی دعوت دیں گے حتی کہ یہ بھی کہا جائے گا کہ حق شیعیان علی کے ساتھ ہے۔
دیکھئے نا یہاں آواز ہے جسے سب سمجھیں گے کوئی آسمانی بجلی نہیں۔ یا نفس زکیہ کا قتل یہ ساری چیزیں حوادث میں شامل ہوتی ہے۔
اربعین تربیت گاہ ہے۔جیسے ہم مجالس امام حسین ع کو کہتے ہیں کہ یہ تربیت گاہ ہے، یہ درسگاہ ہے ، اسی طرح اربعین تربیت گاہ ہے ، اربعین مولا کے ناصروں کو تیار کر رہی ہے
اس کے کئی پہلو ہیں کہ اربعین ناصروں کی تربیت میں کس طرح نقش ادا کر رہی ہے، ہمیں کیا سکھا رہی ہے مولا کے ظہور کیلئے
ایک چیز جو ہم دیکھ رہی ہے وہ یہ کہ اربعین میں سارے مولا امام حسین ؑ کے نام سے اکٹھے ہو رہا ہے۔ یہ اربعین کے ایک مشترک پہلو ہے۔ چاہئے وہ جس فرقہ، مذہب سے تعلق رکھتا ہو وہ سید الشہداءؑ کے نام پہ آرہا ہے۔ یہ پہلا پہلو ہے جو مشترک ہے ناصر بھی سارے امام حسین ؑ کے نام پر جمع ہوں گے چونکہ امام زمان ؑ کا نعرہ یہی ہے یا لَثاراتِ الحسین کہ انتقام خون حسین مانگا جائیگا اور سارے ناصر اسی نعرہ کے ساتھ جمع ہونگے۔ یعنی اربعین اصلی عنصر ہے مولا حسین اور امام زمان ؑ کے ناصروں کا۔
یہاں ایک یہ ہے کہ سب لوگ سید الشہداء ؑ کو پکار رہے ہیں ظہور کے اندر بھی سید الشہداء ؑ کو امام زمان عج اور انکے ناصرین پکاریں گے۔ اس کا ایک اثر یہ ہے کہ سب سے پہلے جو ھستی قبر سے اٹھے گی تو وہ سید الشہداءؑ ہیں۔ اول من یرجع الحسین حسین ابن علی
امام حسین ؑ زمان ظہور میں محور قرار پائیں گے یعنی امام زمان ؑ کے بعد اگر کوئی شخصیت دنیا میں محوریت قرار پائے گی وہ سید الشہداء ہے۔ جیسے کہ ہم اربعین میں بھی دیکھتے ہیں کہ لوگ دو اماموں کو یاد کر رہے ہیں ایک امام مہدی ؑ کو چونکہ لوگ انہی کی امت ہیں اور دوسرے امام حسین ؑ کو۔ لہذا ناصرین کے قافلہ میں یہی دو شخصیت محور قرار پائینگے۔
اربعین کا نظام کون چلا رہا ہے؟ اربعین زمینہ ساز ہے ظہور امام زمان ؑ کیلئے کس پہلو سے؟ سیاسی، اقتصادی۔معاشرتی ، اخلاقی وغیرہ
دیکھیں جب ہم سیاست کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو ہم اپنے ملکوں میں جو سیاست چل رہی ہے ہماری ذہن اس کی طرف جاتا ہے ہم اسی کو سیاست سمجھتے ہیں سیاست ایک مقدس لفظ ہے ، جس طرح ہماری دین بھی یہی کہتا ہے اور ہمارے آئمہ ؑ نے بھی فرمایا ہے کہ سیاست عین دیانت ہے، سیاست یعنی ہمارا پورا دین، سیاست یعنی ولی کا نظام کو چلانا، نظام ولایت عین سیاست ہے، سیاست کے اندر یہ ساری پہلو ہونے چاہئیں
یہ جو اربعین کی تحریک ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک سیاسی تحریک ہے ، سیاسی مطلب یعنی ایک دینی تحریک جس میں تشیع کی سارے پہلو ہے اب جب ایک سیاسی حرکت شروع ہوتی ہے اس میں اقتصادی پہلو بھی مدنظر ہوتا ہے ، اس میں سماجیات بھی ہوتی ہے، اخلاقیات بھی اور دشمنوں سے نمٹنے کا طریقہ یہ سارے پہلو موجود ہوتے ہیں۔
اربعین کی تحریک کاملا ایک سیاسی تحریک ہے، تشیع کی سیاست کیسے ہونی چاہئے وہ دیکھا رہی ہے۔
اب دیکھیں !
یہاں کچھ نہ کچھ حکومت بھی مدد کر رہی ہےلیکن بہت سارا کام لوگوں نے خود سنبھالا ہوا ہے ، لوگ ایک دوسرے کو کھلا رہے ہیں، لوگ ایک دوسرے کو پناہ دے رہے ہیں، لوگ ایک دوسرے کا خیال رکھ رہے ہیں، لوگوں نےاپنا ایک نظام بنایا ہے جس نظام کے اندر ہر آدمی کو اس کے ضرورت سے بڑھ کر مل رہا ہے۔ اس کو امن بھی مل رہا ہے، اسکو عبادت بھی سکھائی جا رہی ہے ، زیارت بھی سکھائی جارہی ہے ، اسے اصول و فروع کی بھی تعلیم دی جا رہی ہے۔
امام زمان ؑ کس جگہ ظہور فرمائینگے؟ اور اربعین کے زائرین میں ناصرین کی کونسی صفات ہیں؟
مولا امام زمان ؑ جب ظہور فرمائینگے تو وہ رکن و مقام کے درمیان کھڑے ہونگے۔چھت پہ نہیں بلکہ رکن و مقام کے درمیان پہلے نماز پڑھیں گے اللہ کے بارگاہ میں دعا کرینگے اور خانہ کعبہ کے ساتھ کھڑے ہوکر دنیا کو خطاب کرینگےاور انکی آواز دنیا والے سنیں گے۔
اربعین کے زائرین اگرچہ دنیا کے مختلف جگہوں سے تعلق رکھتی ہے، مختلف قوم و فرقوں سے ہے لیکن ہمیں ان میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ ایک دوسرے کے خدمت کرنے میں، ایک دوسرے سے ملنے، رہنے، سہنے وغیرہ۔۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ سارے ایک ہی ملت ہیں۔
امام زمان ؑ کے ناصرین کی بھی یہی حالت ہوگی، احادیث و روایات میں موجود ہے کہ اگرچہ وہ مختلف اقوام و ملت سے ہے لیکن دنیا والوں کو وہ ایک ماں باپ کی اولاد نظر آئینگے۔ یہ متن روایات ہے۔ کہ لوگوں کو یہ لگے گا کہ یہ سب ایک ماں باپ کی اولاد ہے، ان کے ہمدلی، باہمی محبت، اخوت اتنی واضح ہوگی، انتی گہری ہوگی کہ دنیا والے ان کو ایک ماں باپ کی اولاد سمجھیں گے۔
اس کا ایک نمونہ ہم ہر سال اربعین کے موقع پر دیکھتے ہیں۔ جس طرح سگے بہن بھائی ایک دوسرے سے بے پناہ محبت کرتے ہے اور ایک دوسرے کے ساتھ ایثار، فداکاری، محبت کرتے ہیں اسی طرح اربعین کے موقع پر ایک دوسرے محبت کرتے ہیں ، وہاں کوئی بڑا چھوٹا نہیں ، کوئی امیر غریب نہیں، وہاں کسی کو اپنا دنیاوی مقام نظر نہیں آرہا وہاں صرف اور صرف سید الشہدا کے عاشق اور غمخوار نظر آتے ہیں اور فقط چاہتے کہ ایک دوسرے کی خدمت کریں۔
یہی چیز زمانہ ظہور میں کثرت سے نظر آئے گی۔ جیسے کہ امام صادق ؑ سے نقل ہوا ہے کہ خدا کینہ کو مومنین کے دلوں سے ختم کرئے گا، آپس میں دشمنی، نفرت ختم ہوجائے گی۔ آپس میں صرف پیار و محبت کے مظاہرے ہونگے۔
حتی اس کی ایک مثال جو روایت میں ذکر ہوئی ہے اگر کسی کو ضرورت ہو تو دوسرے کے جیب سے اپنی ضرورت کے مطابق پیسے نکال کر خرچ کرینگے۔
اب اربعین پہ دیکھیں تو اسے پہلے کہ کوئی مانگے لوگ انکی ضرورتوں کو پورا کر رہا ہے۔ خود آگے بڑھ کر التماس کر رہا ہے کہ ہیں خدمت کا موقع دیا جائے زمانہ ظہور میں بھی ایسا ہوگا۔
اربعین ہمیں زمانہ ظہور کی عکاسی کر رہا ہے۔ ہم اسے دیکھ رہے ہیں اور اہم ترین صفات جس کا امام زمانہ ؑ کو بھی ہم سے انتظار ہے وہ ہمدلی ہے۔
میں یہاں مومنین سے بھی گزارش کروں گا کہ کاش ہمارا یہ رویہ اربعین کی حد تک محدود نہ رہتے، یہ رویہ پورا سال رہے وہ مومن جو ہم اربعین کے موقع پر دیکھ رہا ہے اصل میں یہی مومن ہے۔ ہم اسے پورے سال کیوں نہیں دیکھتے؟ کیوں ہم پورا سال ایک دوسرے پر رحم نہیں کرتے؟ کیوں خونی رشتہ دار ایک دوسرے کے حق میں کوتاہیاں کرتے ہیں؟ ایک ہی جگہ پر رہنے والے مومنین چھوٹی چھوٹی باتوں پر دشمنی، کیا کچھ نہیں ہوتا، حق الناس پائمال ہوتا ہے لیکن اربعین میں ہم دیکھتے ہیں کہ دشمن دشمن کو معاف کر دیتا ہے، ایسا سننے میں آیا ہے کہ باپ نے بیٹے کے قاتل کی مہمان نوازی کی ، اسکے بھی خدمت کی چونکہ وہ اربعین کا ایک زائر ہے۔
اربعین کے موقع پر ہم انسانی صفات کی تجلی دیکھتے ہیں جو اصل میں ناصرین کی صفات ہے کاش یہ تجلیاں ہماری پوری زندگی میں ہوتیں ، پورا سال ایسا رویہ ہوتا تو شاید امام زمان ؑ کے ظہور میں تاخیر نہ ہوتی۔
کیونکہ امام زمان ؑ کا ایک شکوہ جو شیخ مفید ؒ کی طرف نقل ہوا اس میں امام نے یہی شکوہ فرمایا
فرماتے ہیں کہ اگر ہمارے شیعہ ہم سے کیا ہوا وعدہ پورا کرتے اور آپس میں ہم دل ہوجاتے تو ہماری ظہور میں تاخیر نہ ہوتے۔
اب یہاں ہمدل ہونے سے مراد یہی ہے کہ آپس میں محبت ، اخوت ، ایثار، تعاون کو برقرار کیا جائے۔ اگر یہ فضا ہمارے اندر پیدا ہوتی تو مولا کے ظہور میں تاخیر نہ ہوتی کیونکہ وہ جماعت جو مقدس جماعت، گروہ ہے وہ جلد سامنے آجاتا۔
لیکن ہم جلد دوبارہ وہی روٹین کی زندگی پر آجاتے ہیں ممکن ہے بعض لوگوں پر کچھ عرصہ، یا کچھ لوگوں کیلئے زندگی بھر کیلئے یہ اثرات مرتب ہوں لیکن عملی زندگی میں یہ ایثارو محبت جو گلی کوچوں میں ہونی چاہئے تھی وہ نہیں رہتے۔
اصل میں یہ ہے کہ ہم کربلا جاتے ہیں وہاں سے یہ درس لیتے ہیں اور چند دن پریکٹس بھی ہوتی ہے اور اس کے بعد ہم جب واپس لوٹ کر آئے تو ہم اپنے گلی محلے میں یہ درس آگے بڑھاتے اگرچہ کافی حد تک اثرات ہوتے ہیں لیکن ہمیں اس چیز کو مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
یقینا جتنا ہمارے درمیان ہم دلی، محبت، ایثار، تعاون۔۔۔۔ بڑھے گا اتنا ہی ظہور میں تعجیل ہوگی۔