14

علامہ شیخ محسن نجفیؒ نے بلا تفریق رنگ و نسل انسانیت کی خدمت کی، آیت اللہ حافظ ریاض حسین نجفی

  • News cod : 53011
  • 15 ژانویه 2024 - 14:16
علامہ شیخ محسن نجفیؒ نے بلا تفریق رنگ و نسل انسانیت کی خدمت کی، آیت اللہ حافظ ریاض حسین نجفی
مجلس ترحیم سے خطاب کرتے ہوئے وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے سربراہ بزرگ عالم دین حضرت آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی نے کہا کہ علامہ شیخ محسن نجفیؒ نے بلا تفریق رنگ و نسل انسانیت کی خدمت کی ہے۔

وفاق ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، جامعۃ الکوثر اسلام آباد میں علامہ شیخ محسن علی نجفی کے ایصال ثواب کی مناسبت سے مجلس ترحیم منعقد ہوئی۔

مجلس ترحیم سے خطاب کرتے ہوئے وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے سربراہ بزرگ عالم دین حضرت آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی نے کہا کہ موت ایک اٹل، واقعی حکم ہے جو بھی اس دنیا میں آیا ہے اس نے موت کا ذائقہ چھکنا ہے اور اس نے اس دنیا سے جانا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے سورہ ملک میں موت کا ذکر پہلے کیا ہےاور حیات کا ذکر بعد میں کیا ہے۔ الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ اللہ نے موت کو بھی خلق کیا اور حیات کو بھی اور انسانوں سے امتحان لیا تاکہ جان لے کہ تم میں سے بہتر عمل کرنے والا کون ہے۔

انہوں نے اس آیت إِنَّكَ مَيِّتٌ وَ إِنَّهُمْ مَيِّتُونَ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس آیت میں کہا گیا ہے کہ اے میرے حبیب آپ نے بھی اس دنیا سے جانا ہے اور سب لوگوں نے دنیا سے جانا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس موت کو پہلے ذکر کیا۔ موت کے بعد اصلی زندگی ہے، اور جو کچھ آپ بھیج رہے ہیں اس کو ہم لکھ رہے ہیں صرف یہ نہیں آپ کے آثار بھی لکھ رہے ہیں۔ ایک چھوٹے سے کام کے جتنے بھی آثار ہے ان کو بھی ہم باقاعدہ لکھ رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ موت نے تو ہر صورت میں آنا ہے اسی لئے اس پوری زندگی میں ، میں دیکھ رہا ہوں جو شخص علماء کی زینت ہوتا تھا، علماء کے میزبانی کیلئے ہوتا تھا ، ہر بڑے معاملہ میں وہ حرکت کرتے تھے، ہر بڑے معاملہ میں وہی ٹیلی فون کرتے تھے آپ نے یہ کام کیا ہے؟ آپ نے قائد صاحب سے رابطہ کیا ہے؟ ہر معاملہ میں انہی کی ابتدا ہوتی تھی آج میں پہلی دفعہ دیکھ رہا ہوں کہ وہ ہمارے سامنے موجود نہیں ہے اور ہم اس کی کمی ایسے محسوس کر رہے ہیں کہ روایت میں ہے کہ جب ایک عالم چلا جاتا ہے تو ایک ایسا رخنہ پیدا ہوجاتا ہے دنیا میں جو کبھی پورا نہیں ہوسکتا۔ یہ صرف عالم ہی نہیں تھے بلکہ بہت زیادہ ان کا کام تھا ۔ ہمارے پاکستان میں سب سے زیادہ کام کرنے والے یہی شخصیت تھی، جب ہم دیکھ رہے ہے کہ وہ ہم میں نہیں ہے تو کون رہے گا؟

انہوں نے کہا کہ کوئی اس دنیا سے چلے جائے تو ہم اس کے لئے فاتحہ پڑھ سکتے ہیں، تذکرہ کر سکتے ہیں، اس کے علاوہ ہم کیا کرسکتے ہیں؟

انہون نے مزید کہا کہ علامہ شیخ محسن علی نجفی نے اتنے صاف و شفاف زندگی بسر کی ہے کہ میں نے نہیں سنا کہ ایک آدمی بچپنے میں ایک ہی سال میں ابتدائی تعلیم کے بعد عربی میں گفتگو کرتا ہے۔ شیخ مرحوم اپنے والد محترم کے حکم سے نجف اشرف سے آئے ہوئے عالم دین سید احمد موسوی سے ایک سال پڑھا اور عربی میں گفتگو کرتے تھے۔ اس سے پتہ چلا کہ اس بچے نے کتنی ترقی کرنی ہے، کس قدر اس بچے کا عروج ہوگا، کہاں یہ بچہ پہنچے گا۔ پھر مدرسہ مشعر العلوم میں بزرگ عالم الدین مولانا سید قمر حسن صاحب کی خدمت میں گئے وہاں بہترین تعلیم حاصل کی اور وہاں سے دارالعلوم کربلا خوشاب چلے گئے، اور وہاں بھی ہر وقت عربی میں اشعار پڑھا کرتے تھے۔

سربراہ وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے سربراہ نے مزید کہا کہ علامہ شیخ محسن نجفی مرحوم جامعۃ المنتظر لاہور تشریف لائے ، انہوں نے وہاں بہت بڑے عالم دین حسین بخش جاڑا سے منطق، فلسفہ ، علم حیات پڑھے، اسی وجہ سے آپ ان کے ترجمہ قرآن یا تفسیر قرآن دیکھ لیں تو قرآن مجید سے علم جدید کا تذکرہ جتنا حضرت مولانا نے کیا ہے اور کسی نے اس طرح نہیں کیا ہے۔ پس ان کا ترجمہ علوم جدیدہ اور علوم قدیم دونوں کا مجموعہ البلاغ ہے اور اس سے ہم استفادہ کر سکتے ہیں۔ میں نے ان کی زیارت آج سے 57 سال پہلے نجف اشرف میں کی۔ جب وہ تشریف لائے ، ملاقات ہوئی پتہ چلا کہ وہ جامعۃ المنتظر سے تشریف لارہے ہیں اور اس کے تین مہینے کے اندر انہوں نے وہ کتاب لکھی جن کا ترجمہ شیخ شفاء صاحب کر رہے تھے۔ عربی میں یہ کتاب تین مہینے کے اندر لکھی۔ تو ظاہر زندگی انکی صاف و شفاف تھی، البتہ پچاس سال پہلے ہماری ان سے ملاقات ہوئی جب نیا نیا اپنا مدرسہ شروع کیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ علامہ مرحوم سے ہماری ملاقات سن 1985 میں لندن میں ہوئی جہاں مسلسل ہم 10۔12 دن ساتھ رہے۔ تو بہرحال انہوں نے ایک بہترین زندگی گزاری۔
قبلہ علامہ سید صفدر حسین نجفی صاحب فرمایا کرتے تھے۔ بعض اوقات مدرسہ، مسجد، امام بارگاہ، انجمن، تنظیم ھدف بن جاتے ہیں۔ آدمی اس کے علاوہ نہیں سوچتا ، آدمی فقط اسی ادارہ پر پروان چڑھانے کا سوچتا ہے، لیکن مولانا صفدر حسین پہلے شخص تھے کہ جب جامعۃ المنتظر تعمیر ہورہا تھا اور انکی آخری زندگی تک تکمیل نہیں ہوسکا اور انہوں نے ستائیس مدرسہ بنائے اور حضرت مولانا: انہوں نے مدارس بھی بنائے جس طرح انہوں نے جامعہ المنتظر بنایا، انہوں نے تنظیمیں بنائی تھی حضرات مولانا : جب تنظیموں میں اختلاف ہوجاتا تو اسکو بٹھانے والے محسن نجفی صاحب ہوا کرتے تھے۔ لیکن شیخ صاحب اس سے اور بہت آگے بڑھ گئے سینکڑوں کی تعداد میں سکول بنائے، دس بارہ کالج بنائے اور ہمارے پاکستان میں شیعیت کی پہلی پہلی یونیورسٹی کے بانی بھی وہی ہے آج جس یونیورسٹی میں آپ تشریف فرما ہیں۔ تو یہ ایک قابل فخر شخصیت تھی جنہوں نے اپنی جامعہ اہلبیت کو ھدف نہیں بنایا بلکہ اس کے ہوتے ہوئے مدارس بھی بنائے سینکڑوں مساجد بنائی، سینکڑوں حسینیہ بنائے، ہزاروں طلبہ و طالبات کی شادی کا بندوبست کیا شعبان میں اور اس کے علاوہ زلزلہ آتا تھا ، سیلاب آتا تھا تو سینکڑوں مکانات بناکے اہلسنت کو غیر مسلموں کو بھی یہی دیتے تھے جہاں شیعیت کا نام نہیں تھا وہاں بھی دیتے تھے اسی لئے کہا جاسکتا ہے کہ مولانا صفدر حسین قبلہ سے یہ بہت آگے بڑھ گئے۔ واقعا انہوں نے کام کیا ہے جس طرح کام کرنے کا حق ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہر انسان جب قبر میں جاتا ہے تو اس وقت پتہ چلتا ہے کہ تنہائی میں پتہ چلتا ہے کہ میں دنیا میں کیا کچھ کرتا رہا۔ اسی لئے قبر کی کو آباد کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک قابل تعریف صحابی کے قبر میں عذاب شروع ہوگیا جبکہ جنازہ رسول اللہ نے پڑھایا تھا ، قبر میں رسول اللہ خود اترے، پوچھا کیوں ایسا ہوا ہے؟ تو پتہ نہیں تھا لوگوں کو پوچھا کہ اس کی ماں زندہ ہے؟ جب ماں کو کو بھلایا تو وہ کہتی ہے کہ یہ بہت اچھا آدمی تھا، بہت نیک آدمی تھا لیکن مجھے ٹائم نہیں دیتا تھا ، جب بھی میں بات کرتی وہ کہتا تھا کہ میں جارہا ہوں، مجھے کام ہے۔ تو حضرت نے ارشاد فرمایا تو اس کو معاف کردے۔ ماں کہتی ہے کہ آپ حکم دیتے ہیں تو معاف کرتی ہے وگرنہ نہیں۔رسول اللہ نے فرمایا:میں خواہش کرتا ہوں کہ تو اسے معاف کردے۔ تو ماں نے معاف کیا۔ قبر کا معاملہ بہت سخت ہوتا ہے۔ لیکن جس بندے نے دنیا میں ابتدا سے آخری زندگی کام کیا اس کے لئے قبر گلزار ہوتی ہے۔

ایک صحابی نے رسول اکرم ؐ سے پوچھا ، بوڑھا آدمی ہوں، تازہ مسلمان ہوا ہوں تو میرے عمل تو تھوڑے سے ہونگے۔
تو رسول اکرم ؐ نے ارشاد فرمایا: تین کام کرکے جاؤ تیرے عمل کا سلسلہ ٹھیک رہے گا۔ فرمایا:

پہلا پہلا کام ہے اپنی اولاد کی صحیح تربیت کر تاکہ وہ تیرے بعد اسلام پر صحیح طور پر عمل پیرا ہو۔

دوسرا کام رفاہ عامہ کے کام کرو
اور تیسرا کام لکھ کر جائیں کچھ

حضرت مولانا نے اپنی اولاد کی بہترین تربیت کی ہے، دو بزرگ عالم دین ہیں۔ مولانا شیخ اسحاق نجفی صاحب، مولانا شیخ انور نجفی صاحب
بیٹیوں کی بہترین تربیت کی ہے وہ مبلغہ اسلام ہیں۔ اور رفاہ عامہ کے کام میں تو یہ کہ سکتا ہوں جس طرح کام شیخ محسن علی نجفی نے کیا ہے اور کسی نے نہیں کیا۔
سکول بنائے، کالج بنائے، مدارس، مساجد بنائے، قدیم تعلیم کا بندوبست کیا، جدید تعلیم کا بندوبست کیا، لوگوں کے علاج کیلئے بندوبست کیا، غریبوں کے لئے مکان بنائے۔۔
یہ سارے کام کرکے گئے ہیں ظاہر ہے ان کے اثرات ہونگے۔ اور جہاں تک لکھنے کی بات ہے پہلی پہلی کتاب بھی عربی میں لکھے ہے، قرآن کی ترجمہ و تفسیر لکھے
گویا جس جس چیز کی ضرورت ہے انسان کی زندگی کے بعد حضرت مولانا نے وہ سب کے بس پوری کرکے گئے اور دامن صاف و شفاف جیسے ابتدا میں تھا صاف و شفاف دامن لے کے گئے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ جانا ہر کسی نے ہے لیکن جگہ خالی ہوجاتی ہے تو وہ پر نہیں ہوتی۔ ہمیں ہمیشہ محسوس ہوتا رہے گا کہ شیخ صاحب کہاں گئے؟ معاملات کو آگے بڑھانے والے کہاں گئے؟ میٹنگیں بلانے والے کہاں گئے؟ تحریک کرنے والے کہاں گئے؟ ہم سے کہنے والے کہا گئے کہ آپ نے فلاں سے ملاقات کی ہے یا نہیں؟ یہ کمی ایسی ہے کہ کبھی پوری نہیں ہوگی۔ آپ شب زندہ دار تھے، نماز تہجد باقاعدہ پڑھا کرتے تھے یہ ساری خوبیاں ان میں پائی جاتی تھی۔ کیوں نہ ہو آخر جن شخصیتوں کی عظمت کے ہم قائل ہیں ان کی عظمت بھی عبادتوں کی وجہ سے تھی، حضرت ابراہیم خلیل اللہ کتنی بڑی شخصیات ہیں؟ جب تک ان کا امتحان نہیں ہوا انہوں نے بتوں کو نہیں توڑا۔ جب تک ان کا امتحان نہیں ہوا ان کو کچھ نہیں ملا جب امتحان ہوا تو اللہ نے فرمایا اب ہم نے اس کو اسحاق بھی دیا ہے یعقوب بھی دیا اسماعیل بھی دیا ہے۔ تو گویا اللہ تعالیٰ کام کے بعد کوئی چیز دیتا ہے۔ سب سے عظیم ترین شخصیت رسول اکرم ؐ ساری رات اللہ کی عبادت کیا کرتے تھے، (قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا) تو ظاہر ہے عبادت کی ضرورت تھی تبھی تو کرتے تھے۔ تو ہمیں بھی چاہئے کہ کم از کم نماز مستحب نہ ہوئے تو نماز واجب تو وقت پر ادا کریں۔ تو مولا علی ؑ کا کیا کہنا کبھی ان کا بستر نہیں بچھا انہوں نے اپنی شہادت کے رات یہ کہا تھا کہ ستارو گواہ رہنا میں نے تمہیں طلوع و غروب ہوتے ہوئے دیکھا ہے تم نے علی ؑ کو سوئے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔ یہ انکی حالت تھی۔
امام حسن ؑ کا کیا کہنا کہ جب وضو کرتے تو ایک رنگ آتا ایک رنگ جاتا۔ کسی نے کہا آپ امام ہے ، آپ فرزند رسول ہیں، آپ معصوم ہیں، آپ کا ماں معصومہ، آپ کا باپ معصوم ، آپ کا نانا معصوم، آپ کا بھائی معصوم ۔ کہا پتہ نہیں ہے کہ میں کس قہار بادشاہ کے دربار میں کھڑا ہوا ہوں؟ میری حالت اس طرح کیوں نہ ہو۔

انہوں نے ذکر مصائب کرتے ہوئے کہا کہ امام حسین ؑ کا تو کیا کہنا کہ امام حسین ؑ نے تو انتہا کردی، آہ جتنی مصیبتیں انہوں نے برداشت کی اتنی مصیبتیں تمام انبیاء، اولیاء پر بھی نہیں آئی حتی کہ ان کو کہنا پڑا

تَرَكْتُ الخَلْقَ طُرَّاً فِي هَوَاكَا
وَ أيْتَمْتُ العيالَ لكَىْ أرَاكَا
میں نے پوری مخلوق کو چھوڑدیا ہے کہ صرف اسلئے کہ تیری ذات راضی ہو اور میں اپنی بچوں کو یتیم کیا ہے تاکہ تیرا دیدار کر سکوں

کون امام حسین ؑ؟ جس نے کہا کہ إن کانَ دین مُحَمَّداً لَمْ یَستَقِم الَّا بِقَتلی فَیاسُیُوف خُذینی کہ اگر دین محمد میری شہادت کے بغیر باقی نہیں رہ سکتا تو او تلوارو آو میرے ٹکڑے ٹکڑے کردو تاکہ دین محمد برقرار رہے۔ اور امام نے اس سے پہلے مصبتیں بھی دیکھی۔ سب سے پہلے جب عباس گھوڑے سے گرے تو امام اس وقت کرسی سے گر گئے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب میرا چارہ کار کم ہوگیا ، میری کمر ٹوٹ گئی اور میری طاقت کم ہوگئی۔ اور جیسے اکبر گھوڑے سے گرے ہیں تو اس وقت فرمائے علی الدنيا بعدک العفا ، دنیا اب میرے لئے اندھیری ہوگئی اور جب اصغر کو تیر سہ شعبہ لگا تو امام نے اس وقت خون کو لیا کہ زمین پر پھینکے اس وقت زمین دے ندا آئی پھر کبھی زمین سے کوئی چیز نہیں اگے گی۔

چاہا آسمان کی طرف پھینکے ندا آئی پھر کبھی آسمان سے باران رحمت نہیں ہوگی۔

پھر آپ نے اپنے ریش مبارک کو اصغر کی خون سے تر کرلیا اور کہا کہ میں رسول اللہ کی خدمت میں اسی طرح جاوں گا۔

اتنی مصیبتوں کے بعد ، جنگ ہوئی ہے ، ابو سمامہ نے کہا کہ دل چاہ رہا ہے کہ آخری نماز آپ کی اقتدا میں ادا کروں۔

اس وقت مسلمانوں نے نماز کی اجازت نہیں دی بلکہ دو آدمی امام کے آگے کھڑے ہوگئے نماز خوف پڑھی، ایک تازہ آنے والے زہیر ابن قین تھے جو میمنہ کے سردار تھے اور دوسرا سعید بن عبداللہ کھڑے ہوگئے ، سعید بن عبداللہ کو جب تیرہواں تیر لگا اور وہ گرنے لگے تو کہتا ہے کہ مولا کیا میں نے آپ کی مدد کا حق ادا کردیا ہے؟

اس وقت امام نے فرمایا میرے بابا علی ؑ حوض کوثر پر تیرے منتظر ہیں۔

حسینؑ کی عظمت کا کیا کہنا!

امام حسین ؑ جب وداع کرکے نکلنے لگے آخری وداع اپنی اس بہن سے کیا ہے جو بہن بھائی کے بغیر وقت نہیں گزار سکتی تھی۔

حتی کہ امیر المومنین ؑ نے بھی جناب زینب کو گلے لگائے اور اتنا روئے کہ تھے کہ ریش مبارک تر ہوگئی اور کہا زینب ؑ اپنے بھائی کو اکیلئے نہ جانے دینا ، بھائی جہاں جائے ساتھ چلے جانا چونکہ آپ کے بھائی جو کام کریں گے اسکی تکمیل آپ نے جاکے کرنی ہے۔

اس بہن کو آخری وقت دو وصیتیں کی ہے
ایک میری بہن زینب میرے یتیموں کا خیال رکھنا۔ اور دوسری وصیت یہ کی تھی کہ بہن زینب نماز تہجد میں مجھے فراموش نہ کرنا۔

عزادارو! زندان شام ہے جناب زینب نماز شب پڑھ رہی ہے ، بیٹھ کر پڑھ رہی ہے ، امام زین العابدین کہتا ہے پھوپھی آپ عالمہ غیر معلمہ ہے ، کھڑا ہوکر پڑھا جائے تو اسکا ثواب زیادہ ہوتا ہے۔

تو جناب زینب نے کہا بیٹا کھانا کم ملتا ہے میں بچوں کو ان کا حصہ دے دیتی ہوں لیکن وہ سیر نہیں ہوتے وہ میری طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں لذا میں اپنا حصہ بھی دے دیتی ہوں اب میرے اندر طاقت نہیں رہی کہ میں کھڑے ہوکر نماز شب پڑھ سکوں۔

عزادارو!

شیخ صاحب چلے گئے ، ہمیں بڑا دکھ ہیں، ہم ان کی یاد کرتے رہیں گے لیکن جب کربلا سامنے آتی ہے اس وقت انسان کو تسلی ہوتی ہے اکبر بھی چلے گئے، عباس بھی چلے گئے، قاسم بھی چلے گئے ، حبیب بھی چلے گئے، مسلم بھی چلے گئے اس سے انسان کو حوصلہ ہوتا ہے۔

عزادارو!

آپ محرم میں بھی گریہ کرتے ہیں، شام غریباں میں گریہ کرتے ہیں لیکن آپ کا گریہ وقتی ہوتا ہے۔ آپ کے امام زمانہ کہتے ہیں:

اے میرے شیعو!

آپ کا شکریہ کہ آپ میرے جد امجد پر گریہ کرتے ہیں لیکن میرا دل خون کا آنسو روتا ہے ، پوچھا گیا کیوں؟

عباس کی شہادت کی وجہ سے، اکبر کی شہادت کی وجہ سے؟ اصغر کی شہادت کی وجہ سے؟ امام حسین ؑ کی شہادت کی وجہ سے ؟

تو اس وقت حضرت ارشاد فرماتے ہیں کہ یہ سب چیزیں بہت بڑی مصیبت ہیں۔

لیکن جب میں دیکھتا ہوں میری جدہ ہاتھ پس پشت بندھے ہوئے ، سر پر چادر نہیں ہے، اپنے باپ علی کی لہجہ میں خطبہ پڑھ رہی ہے اس وقت میرا دل خون کے آنسو روتا ہے۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=53011