تحریر: لیاقت بلوچ ، نائب امیر جماعتِ اسلامی پاکستان
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 29 ستمبر 2025ء کو اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے ساتھ امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کے صدارتی محل وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کی، جس میں غزہ جنگ بندی سے متعلق ایک نیا 20 نکاتی ‘امن منصوبہ’ پیش کیا گیا۔ ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے میں فائر بندی، حماس کے زیر قبضہ قیدیوں کے بدلے اسرائیل میں قید فلسطینیوں کی رہائی، غزہ سے مرحلہ وار اسرائیلی فوج کا انخلا، حماس کو غیر مسلح کرنے اور ایک عبوری حکومت کا قیام شامل ہے، جسے ایک بین الاقوامی گروپ چلائے گا۔ اس موقع پر ٹرمپ نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اس منصوبے پر آمادگی ظاہر کی ، اور یہ کہ اگر ہم اس اعتماد پر مل کر کام کریں تو ہم برسوں، دہائیوں بلکہ صدیوں سے جاری موت اور تباہی کا خاتمہ کر سکتے ہیں اور اس خطے کے لیے سلامتی، امن اور خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز کر سکتے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے اپنا یہ روایتی عزم بھی دوہرا یا کہ اُن کا ہدف صرف غزہ نہیں بلکہ پورے مشرق وسطیٰ میں ‘امن’ ہے (اگرچہ امریکہ اور اسرائیل کے ہاں لفظ ‘امن’ ایک خاص پیرائے میں بولا جاتا ہے، جس کا مطلب اُن کی مرضی اور شرائط کیساتھ مسلط کردہ ‘امن’ نہ کہ تمام متعلقہ فریقین کی رضامندی اور مؤقف کے مطابق امن)۔
اس موقع پر ٹرمپ نے مزید بتایا کہ ان کی اور نیتن یاہو کی گفتگو میں ایران، ابراہیمی معاہدوں اور غزہ تنازعے کے خاتمے جیسے موضوعات پر بات ہوئی۔ٹرمپ نے اعلان کیا ’ہم نے خطے میں اپنے دوستوں اور شراکت داروں سے وسیع مشاورت کے بعد باضابطہ طور پر امن کے اصول جاری کیے ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا ’یہ نکات مکمل غور و فکر کے ساتھ اور ان ممالک کے ساتھ مل کر تیار کیے گئے ہیں جن کا ہم ذکر کر رہے ہیں۔ ’میں عرب اور مسلم ممالک کے کئی رہنماؤں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے اس منصوبے کو تیار کرنے میں بھرپور تعاون کیا، اسی طرح ہمارے یورپ کے اتحادیوں کا بھی۔‘ ٹرمپ نے کہا ’وزیر اعظم پاکستان اور پاکستان کے فیلڈ مارشل ابتدا ہی سے ہمارے ساتھ تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے ابھی ایک بیان بھی جاری کیا کہ وہ اس معاہدے پر مکمل یقین رکھتے ہیں۔ وہ اس کی سو فیصد حمایت کرتے ہیں۔‘
دوسری طرف وزیر اعظم شہباز شریف نے ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ”خطے میں سیاسی استحکام اور معاشی ترقی” کے لیے فلسطینی عوام اور اسرائیل کے درمیان پائیدار امن ناگزیر ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر ایک پوسٹ میں وزیراعظم نے کہا کہ وہ صدر ٹرمپ کے منصوبے کا خیرمقدم کرتے ہیں جس کا مقصد غزہ میں جنگ کے خاتمے کو یقینی بنانا ہے۔ انہوں نے اس بات پر بھی پختہ یقین کا اظہار کیا کہ صدر ٹرمپ پوری طرح تیار ہیں کہ اس نہایت اہم اور فوری معاملے کو حقیقت بنانے کے لیے جس حد تک ضروری ہو ہرممکن تعاون فراہم کریں۔
تاہم حماس کی ان مذاکرات میں غیر موجودگی نے اس ‘امن منصوبے’ کی کامیابی کے حوالے سے سوالات کو جنم دیا ہے۔ دوسری طرف امریکی صدر ٹرمپ نے دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ حماس کے لیے وقت آ گیا ہے کہ وہ غزہ کے مستقبل سے متعلق امن منصوبہ قبول کرے۔ ٹرمپ نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ حماس ہمارے پیش کردہ منصوبے کی شرائط قبول کرے۔
نتن یاہو نے وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ٹرمپ کیساتھ ہونے والے مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ اسرائیل امریکی حمایت یافتہ امن منصوبے کے تحت غزہ کی سکیورٹی کی ذمہ داری برقرار رکھے گا اور اگر فلسطینی گروپ حماس نے معاہدے کو مسترد کیا تو وہ اپنا ’کام مکمل کرے گا‘ یعنی حماس کو ختم کر دے گا۔ ’حماس کو غیر مسلح کیا جائے گا، غزہ کو غیر مسلح کیا جائے گا۔ اسرائیل مستقبل قریب کے لیے سکیورٹی ذمہ داری برقرار رکھے گا، جس میں ایک سکیورٹی پیرا میٹر بھی شامل ہو گا۔ نیتن یاہو کے بقول ” غزہ کا ایک پُرامن شہری انتظام ہوگا جو نہ تو حماس کے زیر اہتمام ہو گا اور نہ ہی فلسطینی اتھارٹی کے۔” انہوں نے دھمکی دی کہ اگر حماس نے اس معاہدے کو قبول نہیں کیا تو پھر اسرائیل خود اپنا کام مکمل کرے گا۔ یہ کام آسان طریقے سے بھی ہو سکتا ہے اور مشکل طریقے سے بھی، مگر یہ ہو گا۔
قبل ازیں وائٹ ہاؤس کے مطابق نیتن یاہو نے قطری وزیراعظم سے ایک سہ طرفہ ٹیلی فون کال میں رابط کیا، جس میں صدر ٹرمپ بھی شریک تھے، اور گزشتہ ستمبر میں دوحہ پر ہونے والے اسرائیلی حملے پر قطری خودمختاری کی خلاف ورزی اور ایک قطری سکیورٹی گارڈ (دیگر پانچ فلسطینی نہیں) کی موت پر افسوس کا اظہار کیا اور یقین دہانی کرائی کہ ’اسرائیل آئندہ اس طرح کا حملہ دوبارہ نہیں کرے گا۔‘ ذرائع کے مطابق نیتن یاہو نے وائٹ ہاؤس سے کی جانے والی ٹیلیفون کال میں اپنے قطری ہم منصب سے معافی بھی مانگی۔ اس دوران قطری تکنیکی ٹیم بھی وائٹ ہاؤس میں موجود تھی۔اسرائیل نے 09 ستمبر کو دوحہ میں جنگی طیاروں کی مدد سے حماس کی مذاکراتی ٹیم کو نشانہ بنانے کی کوشش کی ، جس میں حماس کے رہنما تو محفوظ رہے تاہم ایک رہنما کے بیٹے سمیت پانچ فلسطینی اور ایک قطری شہری شہید ہوگئے۔ حملے کے بعد عرب اور اسلامی ملکوں کا دوحہ میں ہنگامی اجلاس منعقد ہوا جس میں اسرائیلی حملے کی ‘شدید الفاظ میں مذمت’ کی گئی۔
ناجائز اسرائیلی ریاست کے وزیراعظم نیتن یاہو، جسے جنگی جرائم کی عالمی فوجداری عدالت (ICC) نے مئی 2024ء میں سابق اسرائیلی وزیردفاع یوآو گیلینٹ سمیت غزہ میں جنگی جرائم کا مجرم قرار دے کر وارنٹ گرفتاری جاری کیے، لیکن تاحال نیتن یاہو امریکہ سمیت دیگر یورپی ممالک میں دھڑلے سے دندناتا پھررہا ہے اور کسی کو جرات نہیں کہ اُسے گرفتار کرے۔ دوسری طرف غزہ میں فلسطینی شہداء کی لاشیں کتوں اور دیگر خونخوار جانوروں کی خوراک بن رہی ہیں، غزہ کے نہتے معصوم فلسطینیوں پر صیہونی نسل پرست اسرائیلی فوج بدترین نسل کُشی اور بھوک، پیاس کو جنگی ہتھیار کے طور پر مسلط کئے ہوئے ہے۔ بمباری، گولہ باری، ڈرون اور سنائپر حملوں کے ذریعے روزانہ بلاناغہ درجنوں معصوم بچوں، خواتین، جوانوں اور عمر رسیدہ فلسطینیوں کو قتل کیا جارہا ہے اور امریکہ سمیت دیگر عالمی قوتیں اِن کھلم کھلا جنگی جرائم کے مرتکب نیتن یاہو اور اُس کی جنگی کابینہ کو ذمہ دار ٹھہراکر گرفتار کرنے کی بجائے اس جارحیت کا مقابلہ کرنے والے حماس اور دیگر مزاحمتی تنظیموں کو ہی ہتھیار ڈالنے کی دھمکیاں دیے جارہے ہیں۔
ایک ایسے ماحول میں جب نیتن یاہو بار بار اپنے شیطانی “گریٹر اسرائیل منصوبے” کو عملی جامہ پہنانے، مغربی کنارے سمیت پورے فلسطین اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کو اسرائیل کا حصہ بنانے کے بیانات دے رہیں، قبل ازیں اِسی امریکہ کی سرپرستی میں حماس کے ساتھ جنوری 2025ء میں ہونے والے جنگ بندی معاہدے کو توڑکر اور ثالثی کرنے والے ممالک مصر، قطر وغیرہ کی ضمانتوں کو پیروں تلے روندتے ہوئے گزشتہ دو سال سے مسلسل روزانہ درجنوں فلسطینیوں کو قتل کیے جارہا ہے اور کسی صورت جنگ بندی کرنے، غزہ میں ضروری انسانی امداد، خوراک، ادویات پہنچانے کی اجازت نہیں دے رہا، تو سوال یہ ہے کہ نیتن یاہو جیسا ظالم، جھوٹا، دھوکے باز، مکار، عیار، وعدہ خلاف اور صدی کا سب سے بڑا قاتل جس نے آج تک اپنے کسی بھی معاہدے کی پاسداری نہیں کی اور ہمیشہ جنگ بندی مذاکرات سے راہِ فرار اختیار کرتا رہا، کیسے اچانک اتنی جلدی اس مجوزہ ٹرمپ امن منصوبے کو قبول کرنے پر آمادہ ہوگیا؟ آئیے اس سوال کا جواب جانتے ہیں، لیکن اس سے قبل وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ مجوزہ ٹرمپ امن منصوبے میں شامل نکات کا جائزہ لیتے ہیں۔
ٹرمپ کے مجوزہ امن منصوبہ میں پیش کردہ 20 نکات کی تفصیل درجِ ذیل ہے:
1۔ غزہ کو دہشت گردی سے پاک اور پرامن خطہ بنایا جائے گا تاکہ وہ اپنے پڑوسیوں کے لیے خطرہ نہ بنے۔
2۔ غزہ کو دوبارہ تعمیر کیا جائے گا تاکہ وہاں کے لوگ جو برسوں سے مصیبتیں جھیل رہے ہیں سکون کا سانس لے سکیں۔
3۔ اگر دونوں فریق راضی ہو جائیں تو جنگ فوری طور پر بند ہوگی، اسرائیلی فوج پیچھے ہٹے گی، اس دوران کوئی فضائی، زمینی یا آرٹرلی حملہ نہیں ہوگا۔
4۔ اسرائیل کی جانب سے اس معاہدے کے اعلان کے 72 گھنٹے بعد تمام یرغمالیوں کو واپس کیا جائے گا۔
5۔ یرغمالیوں کی رہائی کے بعد اسرائیل 250 عمر قید پانے والے قیدیوں اور یکم نومبر 2023 کے بعد گرفتار ہونے والے 1700 فلسطینیوں کو رہا کرے گا، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہوں گے۔ اگر کسی اسرائیلی یرغمالی کی لاش ملتی ہے تو بدلے میں 15 فلسطینیوں کی لاشیں واپس کی جائیں گی۔
6۔ یرغمالیوں کی رہائی کے بعد وہ حماس ارکان جو ہتھیار ڈال کر پرامن رہنے کا وعدہ کریں گے انہیں عام معافی دی جائے گی، اور جو لوگ غزہ چھوڑنا چاہیں گے انہیں محفوظ راستہ دیا جائے گا۔
7۔ اس معاہدے کے فوراً بعد غزہ میں مکمل انسانی امداد پہنچائی جائے گی، جس میں پانی، بجلی، اسپتال، بیکریاں، سڑکوں کی بحالی اور ملبہ ہٹانے کے لیے ضروری سامان شامل ہوگا۔
8۔ امداد کی تقسیم اقوام متحدہ، ریڈ کریسنٹ اور دیگر غیر جانبدار عالمی ادارے کریں گے۔ اس کے لیے رفح بارڈر دونوں طرف کھولا جائے گا۔
9۔ غزہ کی عارضی حکومت ایک غیر سیاسی فلسطینی کمیٹی چلائے گی جس میں مقامی ماہرین اور بین الاقوامی ماہرین شامل ہوں گے۔ اس پر نگرانی ایک ’’بورڈ آف پیس‘‘ کرے گا جس کی سربراہی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کریں گے، جبکہ سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر اور دیگر عالمی رہنما بھی شامل ہوں گے۔ یہ ادارہ غزہ کی تعمیر نو کا فریم ورک بنائے گا اور مالی وسائل مہیا کرے گا۔
10۔ غزہ کی تعمیر نو کے لیے ماہرین کی ٹیم بنے گی جو مشرق وسطیٰ کے جدید شہروں کی طرز پر منصوبے تجویز کرے گی تاکہ روزگار اور سرمایہ کاری کے مواقع پیدا ہوں۔
11۔ غزہ میں ایک خصوصی معاشی زون بنایا جائے گا، جس کے لیے مختلف ملکوں سے تجارتی مراعات پر بات چیت ہوگی۔
12۔ کسی کو زبردستی غزہ سے نکالا نہیں جائے گا، جو لوگ جانا چاہیں گے جا سکیں گے اور واپسی بھی کر سکیں گے۔
13۔ حماس یا کوئی بھی مسلح گروہ غزہ کی حکومت میں شامل نہیں ہوگا۔ تمام سرنگیں، اسلحہ ساز فیکٹریاں اور عسکری ڈھانچے ختم کر دیے جائیں گے۔ اسلحہ جمع کرنے اور تباہ کرنے کا عمل عالمی ماہرین کی نگرانی میں ہوگا اور ایک ’’بائے بیک‘‘ پروگرام کے ذریعے ہتھیار مستقل طور پر ختم کیے جائیں گے۔
14۔ علاقائی شراکت دار یہ گارنٹی دیں گے کہ حماس اور دیگر گروہ اپنے وعدوں پر قائم رہیں۔
15۔ امریکا عرب اور عالمی اتحادیوں کے ساتھ مل کر ایک ’’انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس‘‘ (ISF) بنائے گا جو غزہ میں تعینات ہوگی، فلسطینی پولیس کو تربیت دے گی اور سیکیورٹی برقرار رکھے گی۔
16۔ اسرائیل غزہ پر قبضہ یا الحاق نہیں کرے گا۔ جیسے جیسے آئی ایس ایف کنٹرول سنبھالے گی اور حالات مستحکم ہوں گے، اسرائیلی فوج مرحلہ وار پیچھے ہٹ جائے گی۔
17۔ اگر حماس اس منصوبے کو مسترد کرے یا تاخیر کرے تو امداد اور تعمیر نو صرف اُن علاقوں میں ہوگی جو اسرائیلی فوج آئی ایس ایف کے حوالے کرے گی۔
18۔ ایک ’’بین المذاہب ڈائیلاگ‘‘ شروع کیا جائے گا تاکہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے بیچ ذہن سازی ہو اور پرامن بقائے باہمی کو فروغ ملے۔
19۔ جب تک فلسطینی اتھارٹی اپنے اصلاحاتی پروگرام مکمل نہیں کرتی، غزہ کا انتظام ’’بورڈ آف پیس‘‘ کے تحت رہے گا۔ اس کے بعد ایک مؤثر فلسطینی حکومت کو غزہ کا کنٹرول دیا جائے گا۔
20۔ امریکا اسرائیل اور فلسطینی قیادت کے درمیان براہ راست بات چیت کرائے گا تاکہ ایک سیاسی حل اور فلسطینی ریاست کی راہ ہموار ہو سکے، جو فلسطینی عوام کی دیرینہ خواہش ہے۔
منصوبے کے تحت اسرائیلی حکومت کی طرف سے مجوزہ منصوبے کی قبولیت کے باقاعدہ عوامی اعلان کے بعد 20 گھنٹوں کے اندر حماس تمام زندہ اسرائیلی یرغمالیوں اور 72 گھنٹوں کے اندر بقیہ تمام مردہ یرغمالیوں کی لاشیں اسرائیل کے حوالے کرے گا۔ تمام اسرائیلی یرغمالیوں اور لاشوں کی حوالگی کا عمل مکمل ہونے کے بعد اسرائیلی جیلوں میں عمر قید کی سزا پانے والے 250 قیدیوں، نیز اکتوبر 2023ء کے بعد گرفتار شدہ 1700 قیدیوں کی ایک تعداد کو رہا کیا جائے گا۔ اقوامِ متحدہ، عالمی اداروں کے ذریعے غزہ میں امداد کی مساوی تقسیم ہوگی۔ اسرائیلی فوج مرحلہ وار غزہ سے انخلاء کرے گی۔ اسرائیل کو غزہ پر دوبارہ قبضہ یا الحاق کی اجازت نہیں ہوگی. مغربی کنارے کو ناجائز صیہونی ریاست میں ضم کرنے کی بھی اجازت نہیں ہوگی۔ مجوزہ منصوبے کی تمام شقوں کو غزہ میں نافذ کیا جائے گا، چاہے حماس اور دیگر مزاحمتی قوتیں اس کے حق میں ہوں یا نہ ہوں۔ حماس اور دیگر فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کا اسلحہ ضبط اور اُن کے فوجی ڈھانچے کو تباہ کیا جائے گا اور اس معاہدے کو ٹھکرانے کی صورت میں نیتن یاہو کو مکمل امریکی حمایت کیساتھ وہ سب کچھ کرگزرنے کی اجازت ہوگی جو وہ ضروری سمجھے گا۔ غزہ سے کسی کو زبردستی بےدخل نہیں کیا جائے گا، نہ ہی غزہ میں واپس آنے والوں کو روکا جائے گا۔ غزہ کو غیر عسکری زون قرار دیا جائے گا۔ اس دوران امریکی سرپرستی میں اسرائیل اور فلسطین میں مذاکراتی عمل قائم کیا جائے گا۔ مشرقِ وسطٰی کے حوالے سے بدنامِ زمانہ سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر ممکنہ طور پر غزہ میں قائم ہونے والی مجوزہ عبوری حکومت کے سربراہ ہونگے جو خطے کے ممالک کی مالی مدد کے ذریعے غزہ کی تعمیرِ نو کے اقدامات کا خاکہ تیار کرے گی۔
غزہ میں ناجائز قابض صیہونی فوج کے خلاف برسرِ پیکار حماس کو اس امن معاہدہ سے متعلق کسی بھی مذاکراتی عمل میں شریک نہیں کیا گیا ، تاہم قطری اور مصری ثالثوں کے ذریعے حماس کی قیادت کو اس امن منصوبے کی کاپی پہنچا دی گئی ہے، جس کا جائزہ لینے کے بعد ہی وہ اپنا ردعمل ظاہر کریں گے۔ غزہ میں صیہونی جارحیت کے خلاف برسرِ پیکار دوسری بڑی مزاحمتی تنظیم اسلامی جہاد نے ٹرمپ-نیتن منصوبہ کو غزہ میں نسل کُشی جاری رکھنے کا منصوبہ قرار دیا ، اسلامی جہاد کے سیکرٹری جنرل زیاد النخالہ نے ٹرمپ-نیتن مشترکہ پریس کانفرنس میں پیش کردہ فارمولہ کو امریکی-صیہونی موقف پر مبنی فارمولہ قرار دیتے ہوئے اِسے فلسطینی بچوں، بوڑھوں، جوانوں پر جارحیت مسلط رکھنے کا ایک نسخہ قرار دیا اور کہا کہ اسرائیل امریکہ کے ذریعے وہ مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے جو وہ غزہ پر مسلط دو سالہ طویل اور خون آشام جنگ کے ذریعے حاصل نہیں کرسکا۔ انہوں مذکورہ منصوبے کو فلسطینی حقِ خودارادیت اور مزاحمتی قوتوں کے وجود کو ختم کرنے کی سازش قرار دیتے ہوئے خطے کو مزید عدم استحکام کی طرف دھکیلنے کی سازش قرار دیا۔ انہوں نے مجوزہ منصوبہ کو ایک دستاویز قرار دیا جو اسرائیلی جارح پالیسیوں کو قانونی آڑ فراہم کر کے ظلم و ستم کو جاری رکھنے اور فلسطینی قوم کا حقِ قیام و خودارادیت معدوم کرنے کی کوشش ہے۔ النخالہ نے زور دے کر کہا کہ مزاحمت اپنے اوزار اور حقِ دفاع کو اپنے لوگوں کے وجود اور مستقبل سے مربوط دیکھتی ہے اور کسی بھی ایسی سکیم کو قبول نہیں کرے گی جو ہمارے حقوق کو پامال کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ منصوبے کا مرکزی نکتہ فلسطینی اتھارٹی اور حماس سمیت تمام فلسطینی مزاحمتی قوتوں کو غزہ کے مستقبل کے سیاسی حکومتی ڈھانچے سے بےدخل کرنا اور ناجائز صیہونی ریاست کے ظالمانہ،توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف مزاحمت کے مراکز کو ختم کرنا ہے۔ دوسری طرف غزہ کے لاکھوں فلسطینیوں نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ اُنہیں موت قبول ہے لیکن وہ غزہ میں اپنے گھر چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے۔ قبل ازیں چند روز قبل اقوامِ متحدہ جنرل اسمبلی اجلاس میں کولمبیا کے صدر صدر گوستاوو پیٹرو نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ فلسطین کو آزادی دلانے اور امریکہ و نیٹو کی جانب سے مسلط کردہ آمرانہ و مطلق العنان پالیسیوں کے مقابل کھڑے ہونے کے لیے ایک عالمی فوج تشکیل دیں۔
اب جبکہ قابض اسرائیل غزہ پر ہمہ گیر نسل کشی کی جنگ جاری رکھے ہوئے ہے اور شہداء کی تعداد بڑھ کر 65 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے، ایک لاکھ 68 ہزار سے زائد فلسطینی زخمی ہیں اور ہزاروں لاپتہ ہیں، ایسے میں پسِ پردہ ایک اور خطرناک کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ منصوبہ یہ ہے کہ جنگ کے بعد غزہ پر کس کا قبضہ ہوگا؟۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں میں ملوث سابق برطانوی وزیرِاعظم ٹونی بلیر کا تجویز کردہ منصوبہ ’’غزہ کے لیے بین الاقوامی عبوری اتھارٹی‘‘ (GITA) محض تعمیرِ نو کا خاکہ نہیں بلکہ ایک مکمل سیاسی سازشی حربہ ہے جو عالمی قانونی پردے میں چھپی غیرملکی سازش کے تحت مسلط کیا جارہا ہے۔ دستاویزات اور بجٹ کے خدوخال کھل کر بتا رہے ہیں کہ یہ منصوبہ عالمی اوباشوں کی فلسطینیوں کے حقِ خودارادیت کو کچلنے کی سوچی سمجھی کوشش ہے۔
بلیر کی تجویز کے مطابق غزہ کو پانچ برس کے لیے اقوامِ متحدہ کی سرپرستی میں ایک بین الاقوامی کونسل چلائے گی، جس میں سات سے دس اراکین ہوں گے اور فلسطینی نمائندگی محض علامتی ہوگی۔ اس کونسل کو غزہ کے لیے ’’اعلیٰ سیاسی و قانونی اختیار‘‘ حاصل ہوگا، جو قوانین وضع کرے گی اور تمام حکومتی اداروں پر نگران ہوگی۔ انتظامی سطح پر وزارتوں کو ٹیکنوکریٹس کے سپرد کیا جائے گا، جنہیں یہی عالمی اتھارٹی نامزد اور کنٹرول کرے گی۔ اس طرح یہ تمام وزرا اس نام نہاد اتھارٹی کے لیے کٹھ پتلی ہوں گے۔ سکیورٹی کے نام پر غزہ میں کثیر القومی افواج تعینات کی جائیں گی جو سرحدوں اور گذرگاہوں کی نگرانی کریں گی، جبکہ مقامی پولیس کو ’’غیر مسلح‘‘ کر دیا جائے گا۔ معاشی طور پر ’’جیپیڈا‘‘ (GIPEDA) کے نام سے ایک سرمایہ کاری و ترقیاتی ادارہ بنایا جائے گا، جو غیرملکی سرمایہ کاروں کو متوجہ کر کے تعمیرِ نو کو منافع بخش کاروبار میں بدل دے گا۔ مختص کردہ بجٹ سے واضح ہے کہ تعمیرِ نو ثانوی ہے اور اصل ترجیح نام نہاد سکیورٹی ہے۔ پولیس اور نگرانی کے اداروں کے لیے بھاری رقوم مختص کی گئی ہیں، جبکہ تعمیرِ نو کے بڑے منصوبے بیرونی عطیات کے وعدوں پر ڈال دیے گئے ہیں۔ قاہرہ، العریش یا عمان میں دفاتر قائم کرنے کی شق اس امر کا اعلان ہے کہ غزہ کی حکمرانی عملاً باہر سے ہوگی۔
یہ منصوبہ دراصل ایک نیا نوآبادیاتی جال ہے جو فلسطینیوں کو اپنے ہی وطن میں بے اختیار کر دے گا۔ غیرمسلح مقامی پولیس اور غیرملکی افواج فلسطینی عوام اور ان کی مزاحمت کو کمزور کرنے کا ذریعہ بنیں گی، جبکہ غیرملکی سرمایہ کاری کی شکل میں غزہ کو عالمی کمپنیوں کی جاگیر بنا دیا جائے گا۔ سب سے خطرناک پہلو ’’جائیداد کے تحفظ‘‘ کے نام پر املاک کا اندراج ہے، جس کے ذریعے لاکھوں فلسطینیوں کی واپسی تقریباً ناممکن بنائی جاسکتی ہے اور غزہ کی آبادیاتی ساخت (demographic structure) بدلنے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ برطانوی صحافی ڈیوڈ ہرسٹ نے بلیر کی اس سازش کو فلسطین کے خلاف نیا وار قرار دیا اور کہا کہ بلیر ان درندوں کی صف میں شامل ہو گیا ہے جو فلسطینی نسل کشی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ برطانوی صحافی ایش سارکار نے طنزیہ کہا کہ ’’جب شیطان نہ ملا تو بلیر کو بلالیا گیا‘‘۔ امریکی حلقوں میں یہ منصوبہ جیرڈ کشنر اور ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے، جبکہ قابض اسرائیل اسے اپنے مفادات کے تحفظ کا ذریعہ سمجھ رہا ہے۔ وزیر خزانہ بزلئیل سموٹریچ نے غزہ کو ’’رئیل اسٹیٹ خزانہ‘‘ کہا ہے۔ بنجمن نیتن یاہو مسلسل بلیر سے رابطے میں ہے مگر سرِعام منصوبے پر لب کشائی سے گریز کر رہا ہے۔
فلسطینی وزارتِ خارجہ کے نائب وزیر عمر عوض اللہ نے کہا کہ غزہ فلسطین کا ناقابلِ تقسیم حصہ ہے، اسے کسی تجارتی منصوبے کے طور پر عالمی کمپنیوں کے ہاتھوں فروخت نہیں کیا جا سکتا۔ حماس نے بلیر کو نااہل اور ناقابلِ قبول قرار دیا اور کہا کہ وہ جنگی جرائم پر عالمی عدالت میں پیش کیے جانے کے قابل ہیں۔ ترکیہ کے وزیرِخارجہ حاقان فیدان نے بھی بلیر پلان کی موجودگی کی تردید کی اور واضح کیا کہ غزہ صرف فلسطینی عوام کے ہاتھ میں رہے گا۔
اگر یہ منصوبہ مسلط ہوا تو غزہ کو ایک بیرونی کنٹرول شدہ علاقے میں بدل دیا جائے گا، جہاں فلسطینی صرف محدود سطح پر خدماتی انتظام تک محدود رہیں گے اور تعمیرِ نو کو سیاسی بلیک میلنگ کا ہتھیار بنایا جائے گا۔ اس کے برعکس اصل راستہ واضح ہے: فوری طور پر جارحیت ختم کی جائے، محاصرہ توڑا جائے اور قابض اسرائیل غزہ، غرب اردن اور القدس سے مکمل انخلا کرے۔ پھر ایک حقیقی فلسطینی انتظامیہ قائم ہو جو داخلی اتفاق رائے اور عوامی شمولیت سے ابھرے اور تعمیرِ نو فلسطینی اداروں کی قیادت میں غیر مشروط عالمی حمایت کے ذریعے ہو۔ سوال یہ ہے کہ ٹونی بلیر کو کس نے حق دیا کہ وہ غزہ پر حکمرانی کا خواب دیکھے؟ کیا یہ فلسطینی عوام کی مزید توہین نہیں کہ ان کے حقِ خودارادیت کو ایک بار پھر نظرانداز کرکے غاصب اسرائیل کی درندگی کو تحفظ فراہم کیا جائے؟ یہ منصوبہ دراصل قابض اسرائیل کے جنگی جرائم کو چھپانے اور فلسطینی نسل کشی کو قانونی جواز دینے کی کوشش ہے۔ لیکن فلسطینی عوام کا عزم اور ان کی مزاحمت ہی وہ قوت ہے جو ایسے تمام سازشی منصوبوں کو ناکام بنائے گی۔
فلسطینی ریاست کے قیام اور غزہ پر اسرائیلی جارحیت، ظلم و ستم کے خاتمہ کے لیے اقوامِ متحدہ میں پیش کردہ پے در پے قراردادوں کو امریکہ کی طرف سے ہر بار ویٹو کردینے سے اقوامِ متحدہ کی حیثیت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ فلسطین طویل عرصے سے حل طلب دیرینہ عالمی مسائل کے حل میں مسلسل ناکامی اور بالخصوص اسرائیل اور نیتن یاہو کو جنگی مجرم قرار دے کر وارنٹ گرفتاری سے متعلق عالمی فوجداری عدالت (ICC) کے فیصلے پر عملدرآمد میں ناکامی نے بین الاقوامی تنازعات کے حل کے حوالے سے اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کے کردار کو داغدار اور اُن کی حیثیت کو بےوُقعت کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قانونی ماہرین اور اساتذہ نے زور دیا ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے طریقہ کار کو فعال کیا جائے تاکہ سلامتی کونسل کی مفلوج حیثیت پر قابو پایا جا سکے اور فوری طور پر عالمی فوجداری عدالت میں یہ تحقیق کھولی جائے کہ کس طرح قابض اسرائیل نے غزہ کے نہتے عوام کے خلاف بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ماہرین نے اقوام متحدہ کے اندر ویٹو کے تسلط کو محدود کرنے اور قانون کے طلبہ کو شہریوں کے تحفظ سے متعلق آگاہی دینے اور عالمی سطح پر دباؤ بڑھانے پر بھی زور دیا تاکہ انسانی امداد کو پائیدار اور محفوظ انداز میں غزہ پہنچایا جا سکے۔
غزہ کی پٹی پر جاری فلسطینی نسل کشی کی جنگ کے آغاز سے اب تک 251 صحافیوں ، اقوامِ متحدہ کے سیکڑوں رضاکاروں، غزہ وزارتِ صحت سے تعلق رکھنے والوں ڈاکٹروں، پیرامیڈکس سٹاف کی شہادتیں قابض اسرائیل کی ایک اور خوفناک اور کھلی درندگی ہے، جسے قابض حکومت پوری دنیا کے سامنے انجام دے رہی ہے اور یہ عالمی قوانین، انسانی معاہدوں اور بین الاقوامی اقدار کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ حماس، اسلامی جہاد اور دیگر فلسطینی مزاحمتی تنظیمیں 07 اکتوبر سنہ2023ء سے اب تک غزہ میں اپنے عوام اور مقدسات کے دفاع کا معرکہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور قابض اسرائیل کے فوجی جارحانہ حملوں اور اجتماعی نسل کشی کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہی ہیں اور حالیہ دِنوں میں مزاحمت کی طرف سے اِن مربوط کارروائیوں کے نتیجے میں درجنوں قابض صیہونی فوجی جہنم واصل اور زخمی ہوئے ہیں اور مجاہدین نے کامیاب کارروائیوں کے ذریعے اسرائیلی مرکاوا ٹینکس، بکتر بند گاڑیوں، بلڈوزروں اور دیگر جنگی مشینری کو کامیابی کیساتھ نشانہ بناکر تباہ کیا ہے۔
29 ستمبر 2025ء کو وائٹ ہاؤس کے اوول ہاؤس میں ٹرمپ اور نیتن یاہو ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں اعلان کردہ غزہ جنگ بندی نام نہاد ‘امن منصوبہ’ اس لیے بھی ناقابلِ قبول ہے کہ اس میں مسئلے کے بنیادی فریق – فلسطینی عوام اور حماس – کو شریک ہی نہیں کیا گیا، تاہم اب یہ منصوبہ مصری اور قطری ثالثوں کے ذریعے حماس کی قیادت کے سامنے رکھ دیا گیا ہے، ٹرمپ نے حماس کو معاہدہ ماننے یا نہ ماننے ہر دوصورتوں میں 72 گھنٹے کے اندر تمام یرغمالیوں کو رہا کرنے کی دھمکی دی ہے اور اپنے پیش کردہ امن منصوبے میں مستقبل کے غزہ میں حماس کے کسی قسم کے کردار کو مسترد کردیا ہے۔ معاہدہ قبول نہ کرنے کی صورت میں نیتن یاہو کو جو چاہے کر گزرنے کی اجازت دے دی ہے۔ اب دیکھنا یہ کہ حماس اور فلسطینی مزاحمت میں شامل دیگر تنظیمیں اس حوالے سے کیا ردعمل دیتی ہیں۔ تاہم یہ بات طے ہے کہ فلسطینی عوام اور مزاحمتی قیادت کی رضامندی اور شمولیت کے بغیر بیرونی طور پر مسلط کردہ کوئی بھی فارمولہ فلسطین اور مشرقِ وسطیٰ میں مستقل، پائیدار امن کی ضمانت نہیں دے سکتا۔ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے اور ناجائز ریاست رہے گا.
“فلسطین فلسطینیوں کا ہے” غاصب اسرائیل، فلسطین میں اپنی غاصبانہ فوجی کارروائیوں اور ظلم و ستم کے ذریعہ قبضہ نہیں جما سکتا، کم از کم گزشتہ 77 سالہ مزاحمت کا تو یہی سبق ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے اسرائیل کو ناجائز ریاست قرار دے کر کہا کہ پاکستان کبھی بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا۔ اگرچہ علامہ اقبال کا انتقال 1938ء میں ہوا اور اسرائیل 1948ء میں بنا لیکن اقبال مشرق وسطیٰ میں ہونے والی پیش رفت کو قریب سے دیکھ رہے تھے۔ مغربی ممالک فلسطین میں یہودیوں کو زمینیں دینے پر تلے ہوئے تھے اور ان تمام وعدوں کو پامال کررہے تھے جو انہوں نے مذاکرات کے دوران کیے تھے۔ 30 دسمبر 1919ء کو لاہور کے مشہور موچی دروازے کے باہر ایک جلسہ عام کا انعقاد کیا گیا۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے اقبال نے ایک قرارداد پیش کی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ برطانوی حکومت نے مشرق وسطیٰ میں مسلمانوں کی سرزمین کے حوالے سے جو وعدے کیے تھے انہیں پورا کیا جائے۔ اقبال نے زور دیا کہ کسی بھی مسلم سرزمین کا کوئی حصہ کسی دوسرے کے حوالے نہیں کیا جانا چاہیے۔ علامہ اقبال کے مجموعہ کلام ’ضرب کلیم‘ میں ایک نظم ’شام و فلسطین‘ کے عنوان سے شامل ہے۔ اس نظم کا شعر ہے:
ہے خاکِ فلسطیں پر یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا؟
ہمارے حکمران اگر امریکی جال میں آکر ابراہم کارڈ کے تحت اسرائیل کو تسلیم کرنے پر آمادگی ظاہر کرتے ہیں تو یہ بانیانِ پاکستان کے وژن اور پالیسی سے کھلم کھلا بغات ہوگی جسے پاکستانی قوم کبھی بھی قبول نہیں کرے گی۔ غیرتِ ایمانی اور قومی حمیت کا تقاضا ہے کہ چاہے ساری دنیا بھی ناجائز اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرلے، پاکستان کو بانیانِ پاکستان کے اُصولی مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے اور کبھی بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرنا چاہیے