2

غزہ میں جنگ بندی؛ صہیونیوں کا سب سے بڑا اسٹریٹجک نقصان

  • News cod : 62501
  • 09 اکتبر 2025 - 19:16
غزہ میں جنگ بندی؛ صہیونیوں کا سب سے بڑا اسٹریٹجک نقصان
غزہ میں دو سالہ جنگ اور بے گناہ عوام کے قتل عام کے باوجود صہیونی حکومت اپنے طے شدہ مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہی، جو اس کی سب سے بڑی اور اسٹریٹجک شکست قرار دی جا رہی ہے

 

غزہ میں جنگ بندی؛ صہیونیوں کا سب سے بڑا اسٹریٹجک نقصان

غزہ میں دو سالہ جنگ اور بے گناہ عوام کے قتل عام کے باوجود صہیونی حکومت اپنے طے شدہ مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہی، جو اس کی سب سے بڑی اور اسٹریٹجک شکست قرار دی جا رہی ہے۔

غزہ میں عوامی قتل و غارت اور جنگ کے ناکام نتائج اور اسرائیلی رژیم کی پہلے سے طے شدہ اہداف میں ناکامی، اس کے لئے سب سے بڑا اسٹریٹجک نقصان ہے۔

صہیونیوں کی دو سالہ ناکامی کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج عالمی رائے عامہ اسرائیل کے خلاف شدید نفرت کا اظہار کر رہی ہے۔ اسرائیل حماس اور دیگر مزاحمتی تحریکوں کو شکست دینے میں مکمل طور پر ناکام رہا اور اس کی دفاعی صلاحیت کو بھی شدید دھچکا پہنچا۔ غزہ کی جنگ میں فوجی ناکامی کے بعد حماس کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے پر اسرائیلی حکومت اور فوج کی خوشی دراصل اس گہری شکست اور ناکامی کی عکاس ہے۔

غزہ میں جنگ کے اختتام کے بعد، خطے میں ایک نیا سکیورٹی نقطہ نظر پیدا ہوگا جس میں مزاحمت کو ایک آزاد اور دو سالہ جنگ کا فاتح عنصر سمجھا جائے گا۔

بلا شبہ فلسطینی عوام کی شجاعانہ مزاحمت اور غزہ کی سرزمین پر ان کی پائداری، صہیونیوں کی تاریخ میں سب سے بڑی شکست ثابت ہوگی۔ اس کا نتیجہ عالمی برادری کی طرف سے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے ذہنی آمادگی، فلسطینی مزاحمت کی پذیرائی، اسرائیلی فوج کی اسٹریٹجک ناکامی اور ایک مجموعی طور پر خطے میں اسرائیلی رژیم کی اسٹریٹجک شکست میں ظاہر ہوگا۔

جنگ بندی کے معاہدے، جو دراصل امریکہ اور حماس کے درمیان ہوا، یہ ظاہر کرتا ہے کہ حماس غزہ میں تبدیلیوں کی فیصلہ ساز صلاحیت رکھتی ہے۔

حماس کے مذاکرات کار عزت الرشق نے کہا کہ یہ معاہدہ ہماری تاریخی ذمہ داری، ہمارے جائز حقوق کی پاسداری اور ۷ اکتوبر (طوفان الاقصی) میں مزاحمت کے حاصل کردہ نتائج کا ثمر ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جنگ بندی کا یہ معاہدہ مکمل قومی کامیابی ہے جو ہماری قوم کی وحدت اور صہیونی قبضے کے مقابلے میں مزاحمت کے عزم کی علامت ہے۔

الرشق نے کہا کہ وہ سب کچھ جو قابضین دو سال تک تباہی اور قحط کے ذریعے حاصل نہیں کر سکے، مذاکرات کی میز پر بھی حاصل نہیں ہوا۔

اسی حوالے سے، اسرائیلی چینل کان کے ایک صحافی نے اعتراف کیا کہ اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے دو سالہ جنگ کے بعد شکست نہیں کھائی اور نہ ہی تسلیم ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ آج جنگ ایک معاہدے کے ذریعے ختم ہوئی۔ سب لوگ حماس کے تسلیم اور شکست کے منتظر تھے، لیکن جو تصویر آج دیکھنے کو ملی وہ اس سے مختلف معلوم ہوتی ہے۔

دوسری طرف، لبنان کے ساتھ اسرائیلی جنگ بندی کے عمل سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ معاہدے کے بعد ممکن ہے کہ رژیم دوبارہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کرے اور نسل کشی کا سلسلہ جاری رکھے۔ اس لیے نتانیہو کو اپنے ناکام مقاصد کو یکطرفہ طور پر آگے بڑھانے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=62501