*غریب مزدور نوجوان اور گوہرشاد خاتون*
“گوہرشاد” ایک نہایت باحجاب، نیک سیرت اور پرہیزگار خاتون تھیں، جو ہمیشہ چہرہ نقاب سے ڈھانپے رکھتی تھیں۔
ان کا ارادہ تھا کہ حضرت امام رضا علیہ السلام کے حرم کے قریب ایک خوبصورت مسجد تعمیر کرائیں۔
انہوں نے مزدوروں اور معماروں سے فرمایا:
“میں تمہاری مزدوری دوگنی دوں گی، مگر شرط یہ ہے کہ:
ہمیشہ باوضو رہ کر کام کرو، آپس میں لڑائی جھگڑا یا بدکلامی نہ کرو،
ایک دوسرے سے عزت و احترام سے پیش آؤ، اسلامی اخلاق کو ملحوظ رکھو اور ہر وقت خدا کو یاد کرو۔”
انہوں نے ان لوگوں سے بھی کہا جو جانوروں کے ذریعے تعمیراتی سامان لاتے تھے:
“راستے میں جانوروں کے لیے پانی اور چارہ رکھو، ان بے زبانوں کو نہ مارو،
انہیں زیادہ بوجھ نہ لادو، جہاں پیاسے یا بھوکے ہوں، وہیں رکنے دو تاکہ پانی پی سکیں اور گھاس کھا سکیں۔
میں تمہاری مزدوری بھی دوگنی دوں گی۔”
گوہرشاد خاتون ہر روز تعمیر کی نگرانی کے لیے مسجد آتی تھیں۔
ایک دن جب وہ حسبِ معمول معائنہ کرنے آئیں تو ہوا کے جھونکے سے ان کا نقاب ذرا سا ہٹا اور ایک نوجوان مزدور نے ان کا چہرہ دیکھ لیا۔
وہ نوجوان گوہرشاد کے حسن و وقار کا اسیر ہوگیا، دل ہاتھ سے دے بیٹھا اور عشقِ گوہرشاد میں بیمار ہو کر بسترِ مرگ پر پہنچ گیا۔
کچھ دنوں سے وہ کام پر نہیں آ رہا تھا۔ جب گوہرشاد کو معلوم ہوا تو انہوں نے حال پوچھا۔
پتا چلا کہ نوجوان بیمار ہے۔ وہ خود اس کی عیادت کے لیے گئیں۔
جب نوجوان کی حالت دن بدن بگڑنے لگی تو اس کی ماں نے فیصلہ کیا کہ گوہرشاد کو حقیقت بتا دے۔
وہ گوہرشاد کے حضور حاضر ہوئی اور سارا ماجرا سنایا۔
گوہرشاد مسکرائیں اور نرم لہجے میں بولیں:
“یہ تو کوئی بڑی بات نہیں، تم نے پہلے کیوں نہ بتایا تاکہ ہم ایک بندے کی تکلیف دور کر سکیں؟
جاؤ، اپنے بیٹے سے کہو کہ میں اس سے نکاح کے لیے تیار ہوں۔
لیکن دو شرطیں ہیں:
پہلی یہ کہ میرا مہر (حقِ مہر) یہ ہے کہ وہ چالیس دن مسجد میں اعتکاف کرے، صرف نماز، ذکر اور عبادتِ خدا میں مصروف رہے۔
دوسری یہ کہ اس کے بعد میں اپنے شوہر سے طلاق لوں گی۔
اگر وہ راضی ہے، تو عبادت شروع کر دے۔”
نوجوان نے جب یہ پیغام سنا تو خوشی سے صحت یاب ہوگیا اور کہا:
“چالیس دن کیا، اگر چالیس سال بھی کہیں تو حاضر ہوں!”
وہ مسجد میں چالیس دن تک عبادت میں مصروف ہوگیا۔
شروع میں وہ گوہرشاد کے عشق میں عبادت کرتا رہا، لیکن وقت کے ساتھ نماز کی لذت اور خدا کی محبت نے اس کے دل کو بدل دیا۔
چالیسویں دن گوہرشاد نے قاصد بھیجا کہ جا کر دیکھو، اگر وہ تیار ہے تو میں بھی اپنا وعدہ پورا کرنے کو تیار ہوں۔
قاصد گیا اور نوجوان سے کہا: “گوہرشاد بی بی منتظر ہیں، تمہاری چالیس دن کی عبادت مکمل ہوگئی۔”
نوجوان نے مسکرا کر کہا:
“گوہرشاد خاتون کا شکریہ ادا کرو اور کہنا کہ اب مجھے ان سے شادی کی ضرورت نہیں۔”
قاصد حیران ہوا:
“کیا؟ تم تو ان کے عشق میں بیمار تھے!”
نوجوان نے کہا:
“ہاں، اس وقت میں محبتِ دنیاوی میں مبتلا تھا،
لیکن اب میں نے محبتِ حقیقی یعنی خدا کی محبت کا ذائقہ چکھ لیا ہے۔
اب دل صرف اسی کے لیے دھڑکتا ہے، اسی میں سکون پایا ہے۔
میں گوہرشاد کا شکر گزار ہوں کہ انہی کے وسیلے سے میں نے اپنے پروردگار کو پہچانا۔”
یہی نوجوان بعد میں مسجدِ گوہرشاد کا پہلا امام بنا،
پھر علم و فقہ میں اتنا آگے بڑھا کہ ایک بلند پایہ عالم دین بنا،
اور وہ بزرگ تھے:
آیت اللہ شیخ محمد صادق ہمدانی (رحمتہ اللہ علیہ)
گوہرشاد خاتون، شاهرخ میرزا کی زوجہ اور امیر تیمور گورکانی کی بہو تھیں۔
ان کے حکم سے ہی مشہدِ مقدس میں مشہور “مسجدِ گوہرشاد” تعمیر ہوئی، جو آج بھی عبادت و تاریخ کا حسین نمونہ ہے۔