3

عراق، 2025 کے انتخابات: جمہوریت کی آزمائش یا جیوپولیٹیکل تصادم

  • News cod : 62994
  • 11 نوامبر 2025 - 11:46
عراق، 2025 کے انتخابات: جمہوریت کی آزمائش یا جیوپولیٹیکل تصادم
عراقی انتخابات داخلی بحرانوں کے ساتھ ساتھ علاقائی طاقتوں کی رقابتوں کا مرکز بن چکے ہیں، جہاں مزاحمتی گروہوں کا کردار مشرق وسطی کے توازن پر اثرانداز ہوسکتا ہے

عراق میں آج 11 نومبر کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات نہ صرف 329 نشستوں کے لیے عوامی نمائندوں کے چناؤ کا مرحلہ ہیں بلکہ یہ خطے کی بڑی طاقتوں کے درمیان سیاسی اثر و رسوخ کی جنگ میں ایک اہم موڑ ثابت ہوسکتے ہیں۔ ایران کے قریب حکومت امریکہ کے انخلاء کو تیز کرسکتی ہے جبکہ واشنگٹن نواز قیادت مزاحمتی قوتوں کے اثر کو محدود کرنے کی کوشش کرے گی۔ عراق، جو 2003 میں بعثی حکومت کے زوال کے بعد سے مسلسل سیاسی بے یقینی کا شکار رہا ہے، آج داخلی مسائل جیسے نوجوان نسل کی کم شرکت، بدعنوانی اور غیر مؤثر سیاسی رقابتوں کے ساتھ ساتھ علاقائی اور بین الاقوامی دباؤ کا بھی سامنا کر رہا ہے۔ غزہ جنگ، شام میں اسد حکومت کی صورتحال اور لبنان میں مزاحمتی تحریکوں کے تناظر میں عراق، مزاحمتی محور کا مرکزی کردار بن چکا ہے۔
2025 کے انتخابات: ایران-امریکہ کی کشمکش میں عراق کا فیصلہ کن موڑ
عراق 2021 کے انتخابات کے بعد شدید عوامی احتجاج اور سیاسی بحران سے دوچار رہا، اب 2025 کے انتخابات ملک کے 18 صوبوں پر مشتمل انتخابی حلقوں میں تناسبی نمائندگی کے نظام کے تحت منعقد ہوں گے۔ اس بار 7768 امیدوار 31 انتخابی اتحاد اور 38 سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کرتے ہوئے میدان میں ہیں۔ تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ عوامی شرکت کی شرح 2021 کی 40 فیصد سے بھی کم ہوسکتی ہے اور ممکنہ طور پر 20 فیصد تک جاپہنچے گی۔
موجودہ وزیراعظم محمد شیاع السودانی، جو “تعمیر و ترقی” کے اتحاد سے انتخاب لڑ رہے ہیں، کو شیعہ ہم آہنگی فریم ورک کی حمایت حاصل ہے، جس میں ایران کے قریب سمجھے جانے والے گروہ شامل ہیں۔ ان کے مقابلے میں نوری المالکی اور ہادی العامری اہم حریف کے طور پر سامنے آ رہے ہیں۔ مقتدی صدر نے حسبِ سابق انتخابات کا بائیکاٹ کیا ہے اور اپنے حامیوں کو ووٹ نہ دینے کی تلقین کی ہے، جس کا فائدہ براہ راست تنسیقیہ گروپ کو پہنچنے کا امکان ہے۔
یہ انتخابات ایک نازک معاشی پس منظر میں ہو رہے ہیں، جہاں عراق کو تیل پر انحصار، پانی کے بحران اور داعش کی جانب سے سیکیورٹی خطرات جیسے چیلنجز درپیش ہیں۔ تاہم، اصل فیصلہ کن عنصر بیرونی طاقتوں کی مداخلت ہے، جس نے عراق کو خطے کی طاقتوں کے درمیان ایک میدانِ جنگ میں تبدیل کردیا ہے۔ ایران اور امریکہ کے درمیان جاری کشمکش اس انتخابی عمل پر سب سے زیادہ اثر انداز ہو رہی ہے۔ امریکہ، جو عراق میں تقریبا 2500 فوجی رکھتا ہے، 2026 تک مرحلہ وار انخلا کا منصوبہ رکھتا ہے، لیکن ساتھ ہی حشد الشعبی (عراقی رضاکار فورس) کو غیر مسلح کرنے کے لیے دباؤ بڑھا رہا ہے۔ امریکی نمائندہ خصوصی مارک ساوایا نے ایران کے اثرات سے پاک آزاد عراق کے اصول پر زور دیا ہے۔ واشنگٹن السودانی کی حمایت اس شرط پر کر رہا ہے کہ وہ مزاحمتی گروہوں کے بغیر اتحاد تشکیل دیں، جبکہ ایران کے ساتھ بینکاری تعلقات محدود کرنے اور حشد الشعبی پر نئی پابندیاں بھی عائد کی جارہی ہیں۔
دوسری جانب ایران عراق کو اپنا اسٹریٹجک ہمسایہ سمجھتا ہے اور اسے تنہا چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ ایران خیرخواہ بھائی کے کردار میں شیعہ جماعتوں کے درمیان اختلافات کم کرنے اور انہیں انتخابی اتحاد کی جانب راغب کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ تہران شیعہ جماعتوں کی علیحدہ انتخابی فہرستوں کی حمایت کرتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کی جاسکیں ساتھ ہی انتخابات کے بعد ان جماعتوں کے اتحاد کی بھی حمایت کرتا ہے۔
موجودہ حالات میں مزاحمتی قوتوں کی اہمیت نے عراق کو ایران کے لیے ترجیحی حیثیت دے دی ہے، لیکن تنسیقیہ کے اندرونی اختلافات اور السودانی-مالکی مقابلہ ممکن ہے کہ ایران کے مخالفین خاص طور پر امریکہ کے لیے نئے مواقع پیدا کر دے۔
اخوانی–سنی قدامت پسند بلاک: مزاحمت کے سامنے نئی صف بندی
عراقی انتخابات نہایت فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر ایران نواز حکومت برسراقتدار آتی ہے تو امریکی افواج کے انخلا کی رفتار تیز ہوسکتی ہے، جبکہ واشنگٹن کی حامی حکومت مزاحمتی قوتوں کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کی کوشش کرے گی۔
اسی دوران سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ایران کے اثر کو متوازن کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر اقتصادی سرمایہ کاری میں مصروف ہیں۔ ریاض ایک طرف السودانی کی ایران کے ساتھ ثالثی کی کوششوں کی حمایت کرتا ہے، مگر دوسری جانب انتخابات میں ایران مخالف سنی اور کرد اتحادوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ امارات بھی محمد الحلبوسی کی حمایت اور کردستان میں سرمایہ کاری کے ذریعے ایران کے ساتھ اقتصادی مسابقت کو آگے بڑھا رہا ہے۔ خلیج فارس کے ممالک عراق کو موجودہ شام کے ساتھ رابطے کے ایک پل کے طور پر دیکھتے ہیں اور انتخابات کو محورِ مزاحمت کو کمزور کرنے کا موقع سمجھتے ہیں۔ السودانی نے تہران اور ریاض کے درمیان توازن قائم کر کے مقبولیت حاصل کی ہے، لیکن امریکہ کی مالی پابندیاں اور دباؤ اسے مغرب کی طرف جھکنے پر مجبور کررہے ہیں۔
ترکی بھی عراقی کردستان میں “پی کے کے” کے خلاف فوجی کارروائیوں اور دریائے دجلہ و فرات پر ڈیم بنانے کے ذریعے اپنا اثر بڑھا رہا ہے۔ انقرہ، کردستان ڈیموکریٹک پارٹی کی حمایت کر رہا ہے اور قومی انتخابات میں پانی اور توانائی جیسے حساس مسائل پر ایک “خطرناک جوا” کھیل رہا ہے۔ ایران کی جانب سے کردستان کی اتحادی جماعت کی حمایت نے اس مقابلے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ کردستان ڈیموکریٹک پارٹی ممکن ہے بغداد کے ساتھ تیل کے معاملے پر سودے بازی کرے، لیکن ترکی نے مزید مداخلت کی دھمکی دے رکھی ہے۔ یہ کشمکش کردوں کو خودمختاری اور انحصار کے درمیان لاکھڑا کرتی ہے اور انتخابات کے بعد بننے والے اتحادوں پر گہرے اثرات مرتب کرسکتی ہے۔
عراق اور صہیونی حکومت کے بڑھتے ہوئے خطرات
امریکہ اور عراق کے وزرائے دفاع کے درمیان ٹیلیفونک رابطے اور امریکی وزیر جنگ کی جانب سے عراق کی خودمختاری کو گروہوں کی غیر فعالیت سے مشروط کرنے کے بعد اسرائیل کی جارحیت کا دائرہ عراق تک پھیلنے کا امکان بڑھ گیا ہے جو کہ مزاحمتی محور کا ایک اہم مرکز ہے۔ اسرائیل عراق سے بڑھتے ہوئے خطرات جیسے کتائب حزب اللہ کے میزائل اور ڈرون حملوں کو سنجیدگی سے دیکھ رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں عراق میں مزاحمتی گروہوں پر محدود اور پیشگی حملوں کی دھمکی ملک میں انتخابات پر اثر ڈال سکتی ہے۔ اگر امریکہ اور اسرائیل کی دھمکیاں عملی شکل اختیار کرتی ہیں تو عراقی مزاحمتی گروہوں کی جانب سے اسرائیل پر میزائل اور ڈرون حملوں میں شدت آسکتی ہے۔ اگر عراق میں کمزور حکومت قائم ہوتی ہے تو اسرائیل ممکنہ طور پر اپنی کارروائیوں کا دائرہ عراق تک بڑھا سکتا ہے جو ملک کے استحکام کو خطرے میں ڈالے گا۔
حرف آخر
گزشتہ دو ہفتوں میں اسرائیلی سیکیورٹی ذرائع نے دعوی کیا ہے کہ ایرانی قدس فورس کی اعلی قیادت عراق میں مزاحمتی گروہوں کو اسلحہ فراہم کرکے اسرائیل کے خلاف ممکنہ جنگ میں ایک نیا آتش فشاں محاذ قائم کرنا چاہتی ہے۔ یہی پالیسی لبنان اور یمن کے محاذوں پر بھی جاری ہے۔ اگرچہ شام کا کردار مزاحمتی محور میں کمزور ہو چکا ہے مگر تہران کی کوشش ہے کہ اس محور کے بنیادی ارکان کو دوبارہ فعال کرکے اسرائیل پر بیک وقت حملہ کیا جائے، جسے مقاومتی تنظیموں کے اتحاد کی حکمت عملی کہا جارہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر ٹرمپ اور نتن یاہو مشرق وسطی کے جغرافیائی منظرنامے کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو ایران اور اس کے اتحادیوں کے پاس دشمن کے خلاف آخری جنگ کی تیاری کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ اس جنگ میں عراق کے مزاحمتی گروہوں کا کردار اور ان کی کارکردگی، فتح یا شکست کے تعین میں فیصلہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=62994

ٹیگز