عراقی دو معروف سیاسی تجزیہ کار محسن العقالی اور حیدر الموسوی نے العالم نیوز چینل سے شائع ہونے والے ایک پروگرام میں حالیہ پارلیمانی الیکشن کے بعد ملک کے سیاسی مستقبل سے متعلق ممکنہ منظرناموں کا جائزہ لیا ہے۔
عراقی مصنف اور سیاسی ماہر حیدر الموسوی نے الیکشن اختتام پذیر ہو جانے کے بعد نئی کابینہ تشکیل دینے کی غرض سے سیاسی مذاکرات شروع ہو جانے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت مذاکرات کے نتائج کے بارے میں بات کرنا جلدی ہو گا، لیکن مختلف سیاسی جماعتوں اور اتحادوں کو پارلیمنٹ میں ملنے والی سیٹوں کی تعداد کا ابتدائی اور حقیقت پسندانہ جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ “کوآرڈینیشن فریم ورک” نامی اتحاد جو عراقی معاشرے کی اکثریت کی نمائندگی کرتا ہے پارلیمنٹ میں سب سے زیادہ تعداد میں سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ ایک اندازے کے مطابق اسے 185 سیٹیں مل جائیں گی۔ اگلے مرحلے میں جس سب سے بڑی مشکل کا سامنا ہو گا وہ وزیراعظم کا انتخاب اور نئی کابینہ کی تشکیل ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آخری مرحلے میں کچھ وجوہات کی بنا پر بعض اختلافات رونما ہوئے ہیں، لیکن آخرکار کوآرڈینیشن فریم ورک سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کر ہی لے گا جس کے نتیجے میں حکومت کی تشکیل کے لیے انجام پانے والے مذاکرات زیادہ طول نہیں پکڑیں گے۔
دوسری طرف عراق کے ایک اور سیاسی تجزیہ کار محسن العقالی نے کہا کہ پارلیمانی الیکشن کے نتائج کا اعلان ہو جانے کے بعد اگلے مرحلے کے لیے چند منظرنامے ممکن ہیں۔ مطلوبہ منظرنامہ تو یہی ہے کہ نئی حکومت جلد از جلد تشکیل پا جائے اور ایسی صورت میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ کوآرڈینیشن فریم ورک جو ملک کا سب سے بڑی سیاسی اتحاد ہے، نے دو دن قبل اعلان کیا تھا کہ تمام اتحادی جماعتوں کے درمیان کافی حد تک باہمی مفاہمت پائی جاتی ہے اور مقررہ قانونی مدت کے اندر اندر نئی حکومت تشکیل پا جائے گی۔ اگر تو ایسا ہو جاتا ہے تو یہ بہت اچھی بات ہو گی۔ خاص طور پر یہ کہ کوآرڈینیشن فریم ورک میں باہمی اتحاد اور مفاہمت کی صورت میں دیگر سیاسی جماعتیں بھی ان سے ہم آہنگی کرنے پر مجبور ہو جائیں گی اور وہ بھی ان کا ساتھ دیں گی۔
محسن العقالی نے مزید کہا کہ لیکن ایک اور ممکنہ سیاسی منظرنامہ بھی پایا جاتا ہے اگرچہ اس کا امکان کم ہے اور وہ یہ کہ کوآرڈینیشن فریم ورک وزیراعظم کے نام پر اختلافات کا شکار ہو جائے۔ ایسی صورت میں سیاسی تناؤ اور کشمکش بڑھ جائے گی اور نئی حکومت بھی تاخیر سے تشکیل پائے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ کوآرڈینیشن فریم ورک میں اختلافات پیدا ہو جانے کی صورت میں دیگر سیاسی جماعتوں، جو اہلسنت یا کرد ہیں، کو اپنی شرائط منوانے کا مناسب موقع ہاتھ آ جائے گا اور انہیں ساتھ ملانا بھی مشکل ہو جائے گا۔ اس منظرنامے کا اگرچہ امکان کم ہے، لیکن پھر بھی ایسا ہونا ممکن ہے۔
محسن العقالی نے اس بات پر زور دیا کہ کوآرڈینیشن فریم ورک اور دیگر سیاسی جماعتوں نے نئی حکومت جلد تشکیل پانے کے لیے اپنے ماضی کے تجربات بھی بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کوآرڈینیشن فریم ورک جو شیعہ اتحاد ہے کے ساتھ ساتھ سنی اور کرد جماعتیں بھی اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ بین الاقوامی اور علاقائی حالات بہت نازک ہیں اور وہ مزید کسی بحران کے متحمل نہیں ہو سکتے، لہٰذا نئی حکومت کا جلد از جلد تشکیل پانا بہت ضروری ہے۔












