5

محسن ملت علامہ سید صفدر حسین نجفی ؒ کا قم میں طلاب سے آخری خطاب (قسط 2)

  • News cod : 26045
  • 03 دسامبر 2021 - 9:46
محسن ملت علامہ سید صفدر حسین نجفی ؒ کا قم میں طلاب سے آخری خطاب (قسط 2)
میری یہ خواہش تھی کہ امام جب پیرس میں پہنچ گئے تھے ایک وفد پاکستانی علماء کی طرف سے ان کی طرف بھیجیں اور ان کو جاکر کہیں کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں ایک آدمی بھی تیار نہیں ہوا

محسن ملت علامہ سید صفدر حسین نجفی ؒ کا قم میں طلاب سے آخری خطاب (گزشتہ سے پیوستہ)

تو بہر حال پہلی منزل خود سازی ہے اور دوسری منزل ہے افراد سازی اور دوسری منزل افراد سازی میں آپ دیکھیں گے کہ پیغمبر اسلام نے اپنے کردار کا اعلی نمونہ پیش کیا کہ آپ کے گھر میں تین افراد تھے جب آپ نے اعلان رسالت کیا تو سب سے پہلے جن لوگوں نے آپ کی تصدیق کی وہ وہی تین افراد تھے جو آپ کے گھر سے ایک جناب خدیجہ الکبری تھیں ایک امیر المومنین ؑ تھے اور حضرت زید تو گویا یہ منزل ہے یا دوسرے لفظوں میں یوںسمجھ لیجئے کہ گھر سازی کی ۔پھر یہ کہ گھر سےآگے قدم بڑھایا جائے پھر ایک حلقہ اثر ہوتا ہے تو ان کو اپنے ساتھ ہموار کریں،لیکن وہ پہلی منزلیں ہم طے کرچکے ہوں گے تو پھر دوسروں لوگوں پر بھی اس کا اثر ہوگا اگر آپ خود سازی کی منزل ہی طے نہ ہوئی اور گھر کے افراد ہی ہم سے متاثر نہیں ہوسکے تو باہر کے افراد کیا خاک متاثر ہوں گے۔ایک شخص جو واقعا انقلاب اسلامی چاہتا ہو اس کو اس زاویہ نگاہ سے دیکھنا پڑے گا ۔چنانچہ امام نے خود سازی کے بعد جب افراد سازی کی منزل میں اور گھر سازی کی منزل میں آئے تو یہ کہا جاتا ہے بہت سے لوگ ٹھیک ہوئے اور ایسا ہوتا بھی ہے بہت سے لوگ پیغمبروں کے ساتھ رہنے والے بھی ٹھیک نہیں ہوئے تو اس کا یہ معنی نہیں کہ اس میں کمی ہے بات میں جان ہونی چاہیے اگر مقابل شخص کا ظرف اس کا اہل نہیں ہے تو پھر ظاہر ہے کہ اس سے وہ متاثر نہیں ہوگا۔مدت دراز تک اچھے ماحول میں رہنے والا انسان بھی اگر دین و دیانت نہیں رکھتا اور ویسے کا ویسا اور کورے کا کورے رہتا ہے تو حیف ہے۔ ہم اس علم کے گہوارے میں چار پانچ سال سے رہتے ہوئے بھی وہ آداب و اطوار و اخلاق جو کچھ وہاں سے لے کر آئے تھے وہی لے کر واپس چلے جائیں گے تو جہاں پر خدا نے توفیقات ایسی دی ہوں کہ انسان خود سازی کرسکتا ہے اور پھر نہ کرے وہی عادتیں وہ سب کچھ ہوجو پہلے تھا ۔تیسری منزل کیا ہے کہ افراد سازی خود سازی گھر سازی اور پھر چوتھی منزل ہے معاشرہ سازی۔ظاہر ہے کہ ایک شخص ہر جگہ تو نہیں جا سکتا لہٰذا وہ ایک جماعت تیار کرے جو اس کے علمی و عملی پیغام کو دوسروں تک پہنچائے تو جب یہ معاشرہ سازی کی منزل تک ایک معتد بہ جماعت اس کا ساتھ دے تو پھر آخری منزل ہے ملک سازی ۔اور میں سمجھتا ہوں کہ اس انقلاب نے یہ تمام مراحل طے کر لئے ہیں۔
ایک شخص اٹھتا ہے یہ بھی ہمارے لئے ایک عبرت ہے کہ اس سے نہیں ڈرانا چاہیے کہ میں اکیلا ہوں (کَانَ إِبْرَاہِیْمُ أُمَّۃً وَّاحِدَۃً) وہ تو ابراہیم خلیل اللہ تھے بڑی عظیم ہستی تھے اگر آپ حضرت ابراہیم کے حالات زندگی کا بغور مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ آپ معمولی معمولی چیزوں اور ہر ہر بات میں اللہ پر بھروسہ اور تقوی رکھتے تھے۔ساری دنیا مخالف ہے اور یہ اکیلا اپنی دھن میں لگا ہوا ہے ۔
چنانچہ اس دنیا نے آپ کو جلانا چاہا تو یہاں بھی ایک پورا شہر بلکہ پورا معاشرہ ایک شخص کے خلاف ہوجاتا ہے ،لیکن اس کو پرواہ نہیں ہے اور وہ یہ کہتا ہے کہ اللہ میرے ساتھ ہے ۔لہٰذا جو اصلاح معاشرہ چاہتا ہے اور انقلاب لانا چاہتا ہے اس کے لئے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ اللہ پر اتنا توکل رکھتا ہو کہ ساری دنیا بھی اس کی مخالف ہوجائے تو اس کو پرواہ نہ ہو ۔
اسی لئے صادق آل محمد ؑ فرماتے ہیں کہ دنیا میں رہنے والے سارے لوگ کہیں کہ تو برا ہے لیکن خدا کے اور تیرے درمیان معاملہ ٹھیک ہے تو کوئی فرق نہیں پڑتا ان کے کہنے سے کوئی برا نہیں بن جاتا اور اگر ساری دنیا قبلہ و کعبہ کہنے لگے تو کیا کسی کے اچھا کہنے سے آدمی اچھا ہوجاتا ہے ۔پس معلوم ہوا کہ کسی کے اچھا کہنے سے آدمی اچھا نہیں ہوجاتا اور کسی کے برا کہنے سے برا نہیں ہوجاتا ۔کیونکہ اگر ایسی بات ہوتی تو آپ جانتے ہیں کہ پروپیگنڈا بہت بڑی چیز ہے،اس وقت دنیا میں سب سے بڑی طاقت پروپگینڈا سمجھا جاتا ہے بنی امیہ کے بہتر(72) ہزار منبروں پر امیر المومنین ؑ کو برا بھلا کہا جاتا تھا ۔جمعوں کے خطبوں میں صرف امیر المومنین ؑ کی ذات تھی کہ جن کو برا بھلا کہا جاتا تھا۔ کروڑوں روپے خرچ کئے جاتے تھے کہ کوئی مشہور راوی ان آیات کو جو امیر المومنین ؑ کی شان میں ہیں انہیں ان کے مخالفین کے حق میں کردے نہ فقط مخالفین بلکہ لاکھوں کی رقم خرچ کی گئی ایک محدث پر کہ وہ آیت:
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْرِيْ نَفْسَہُ ابْـتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللہِ ﴿البقرة: ٢٠٧﴾
کو ابن ملجم کے حق میں ایک روایت کے ذریعہ کردے چنانچہ ایسا ہوا اور آپ دیکھیں کہ وہ حدیث کتابوں میں موجود ہے ۔
اہل بیت کی دشمنی جتنی دنیائےانسانیت میں کی گئی میرا خیال ہے کہ کسی اور خاندان کی نہیں کی گئی ۔میرا خیال ہے کہ اگر اتنی مخالفت کسی اور خاندان کی کیجاتی تو اس کا نام ونشان تک نہ رہتا یعنی کوشش یہ ہوتی تھی کہ جو چیزیں ان کے ساتھ منسوب ہیں حتی قبروں کے نشان بھی ختم کرنے کی کوشش کی جاتی تھی آج بھی آپ مکہ یا مدینہ جائیں دوسرے لوگوں کی قبریں ٹھیک ہیں ان کی قبریں بنی ہوئی ہیں پکی نہ سہی کچی ٹھیک سے بنی ہوئی ہوں لیکن اہلبیت ؑ کی قبروں کو مٹانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جارہا ہے لیکن باوجود اس کے کچھ نہیں ہوا میں یہ کہا کرتا ہوںکہ بنی امیہ و بنی عباس نے یہ کوشش کی کہ قبروں کے نشان بھی مٹادیئے جائیں اب ہوا اس کے برعکس ہے کہ جہاں کہیں بھی احتمال ہوا ہے کہ شاید اہل بیت کی کوئی فرد یہاں دفن ہے وہاں بھی قبر موجود ہے اور جو متعصب تھے جن کے پاس تخت و تاج تھا حکومتیں تھیں دولت تھی سب کچھ تھا ۔بڑوں سے لے کر چھوٹوں تک کسی ایک کی بھی قبر کا نشان نہیں ہے۔
پس جو شخص خدا کا ہوتا ہے خدا اس کا ہوجاتا ہے پھر اس کو ساری دنیا اگر مٹانا چاہے تو نہیں مٹا سکتی اور اس گئے گذرے زمانے میں میں سمجھتا ہوں ایک زندہ معجزہ ایک زندہ نمونہ یہ انقلاب اسلامی ایران ہے۔آپ نہیں جانتے کہ اس کو مٹانے کے لئے اور ختم کرنے کے لئے دنیا کتنی کوشش کررہی ہے۔پہلے تو یہ دنیا چاہتی ہی نہیں تھی کہ یہ انقلاب آئے کچھ یہ سمجھتے تھے کہ یہ چار مولوی ہیں ان سے کیا ہوسکتا ہے یہ بھی ایک زندہ معجزہ ہے۔

جیسے علامہ سید علی نقی نقن صاحب قبلہ مرحوم کا ایک جملہ ہے کہ دنیائے عیسائیت یہ کہتی ہے کہ سرکار رسالت نے معاذ اللہ دین کو تلوار کے زور سے پھیلایا ہے آپ کہنے لگے کہ چنانچہ جو عکس بنایا گیا ہے حضرت کا ،اس تصویر میں بھی یہ ہے کہ ایک ہاتھ میں تلوار ہے اور ایک ہاتھ میں قرآن کہنے لگے کہ اس کا عکس بنایا ہے جس نے کبھی ہاتھ میں تلوار لی ہی نہیں تھی کسی میدان میں رسول اسلام ﷺ نہیں لڑے۔
دیکھئے جو شخص خدا کے لئے کام کرتا ہے وہ اتنا مطمئن ہوتا ہے کہ دنیا ادھرکی ادھر ہوجائے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا زبانی طور پر کہنا بڑا آسان ہے لیکن اس کا عملی مظاہرہ کرنا بے حد مشکل ہے ۔چنانچہ اتفاق سے جب انقلاب کے دوران امام مد ظلہ پیرس سے آرہے تھے میں بھی انہیں ممالک میں اس وقت تھا میں نے ٹیلی ویژن پر وہ مظاہرہ دیکھا ۔سب سے پہلے امام نے تقریر کی تو بعینہ وہی نقشہ تھا کہ جو شب عاشور حضرت سید الشہداء نے اپنے ساتھیوں سے کہا تھا کہ اب ایسے ملک میں جارہے ہیں کہ جس میں پورے ملک کی مشینری ان کے مخالف ہے دشمن ہے لہٰذا ایک بوڑھا آدمی جس کے ہاتھ میں کوئی ہتھیار نہیں ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے ادھر جہاز ہی اڑا دیا جائے۔اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تہران پہنچتے ہی ختم کردیئے جائیں لیکن امام نہیں رکتے۔انہوں نے فرمایا کہ میں کسی کا ذمہ نہیں لیتا لہٰذا میرے ساتھ کوئی نہ آئے میں جاؤں گا تو وہ وہاں سے چلے۔کہتے ہیں کہ جتنے آدمی اس جہاز میں تھے صحافی وغیرہ سب بیدار تھے گویا سب مشوش تھے کہ کیا ہوگا لیکن وہ کہ جس کو جان کا خطرہ ہونا چاہیے تھا وہ وہیں پر سویا کہتے ہیں کہ ایک صحافی نے جاکر قریب سے دیکھا کہ دیکھوں کہ واقعا سوئے ہوئے ہیں یا نہیں۔اور یہ باقاعدہ مغربی ممالک کے اخبارات میں چھپا ہے ۔وہ کہتا ہے کہ واقعا خراٹے لے رہے تھے۔یہ ہے جب انسان کاتعلق خدا کے ساتھ ہوتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ میں یہ کام خدا کے لئے کر رہا ہوں اب اس میں کامیابی ہوتی ہے یا نہیں یہ اس خدا کا کام ہے میرا نہیں ہے۔اس کا کام یہ ہے کہ اس کام کے لئے اپنے آپ کو آمادہ کرے وہ اس نے کردیا چنانچہ ساری دنیا کی نگاہیں لگی ہوئی تھیں کہ تہران میں جب پہنچیں گے تو پتہ نہیں ان کے ساتھ کیا ہوگا تہران پہنچ گئے اور لوگوں نے بھی شایان شان استقبال کیا شاید یہ استقبال دنیا میں بے نظیر ہے۔ایسا استقبال کسی کا نہیں کیا گیا ہمیں پتہ ہے کہ دنیا کے کچھ لیڈر دیکھتے رہتے ہیں اور داڑھیاں سفید ہوجاتی ہیں شکلیں تبدیل ہوتی ہیں دکھایا کسی اور گاڑی میں جاتا ہے اور بٹھایا کسی اور گاڑی میں جاتا ہے۔لہٰذا اب ایک ایسے شخص کو کہ موجودہ حکومت جن کی مخالف ہے اصولی طور پر کسی ایسی جگہ لے جائیں جو محفوظ ہو لیکن امام کہتے ہیں کہ میں بہشت زہرا جاؤں گا چنانچہ سید احمد خمینی کا میں نے ایک انٹرویو پڑھا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ کوئی آدمی بھی راضی نہ تھا کہ آپ وہاں جاتے لیکن امام نے کہا کہ میں جاؤں گا۔سید احمد خمینی کہتے ہیں کہ جب وہاں گئے تو ہماری یہ کوشش ہوتی تھی کہ آدمی ان سے دور دور رہیں خدانخواستہ کوئی شخص حملہ کردے لیکن امام پبلک کی طرف نزدیک نزدیک جاتے تھے ۔چنانچہ مجھ سے رہا نہ گیا تو میں نے کہا کہ آغا……تو انہوں نے جواب دیا کہ (تو کہ ترسو ہستی) یعنی تو ڈرپوک ہے۔خیر وہاں پہنچے تقریر کی جناب احمد خمینی کہتے ہیں کہ اس کے بعد یہ ہوا کہ امام اچانک پبلک کی کثرت کی وجہ سے غائب ہوگئے اور تقریبا دو گھنٹے تک گم رہے ۔اور ساری دنیا پریشان تھی کہ کیا ہوا کہاں گئے۔اغوا کر لئے گئے ہیں ،ماردیئے گئے ہیں ،کیا ہوا ہے،ادھر بھاگ ادھر بھاگ۔وہ کہتے ہیں کہ آخر ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہم نے دیکھا کہ ایک ایمبولیس میں بیٹھے ہوئے ہیں۔
تو اب جو لوگ چاہتے ہیں کہ دوسرے ملکوں میں انقلاب کی اور اس قسم کے انقلاب کی کوشش کریں۔ضروری ہے کہ ان میں امام خمینی جتنا علم ہونا چاہیے ۔اتنا تقوی ہونا چاہیے ،اتنا اللہ پر توکل ہونا چاہیے ،اتنی زحمت و مشقت اٹھانی چاہیے ۔اتنے شاگرد پیدا کرنے چاہئیں۔اتنی معاشرہ سازی کرنی چاہیے ۔پھر توقع کی جاسکتی ہے کہ شاید وہاں انقلاب آجائے۔ محال نہیں ہے نا ممکن نہیں ہے اور امام خمینی کوئی معصوم نہیں ہیں ۔یہ دو لفظیں تند و تیز لوگوں کو بہت چبھتی ہیں ۔لیکن میرا خدا جانتا ہے کہ جتنی مجھے عقیدت ہے ان سے پتہ نہیں کسی اورکو ہو ۔اس لئے کہ ہم نے اس وقت ساتھ دیا جب کوئی ساتھ دینے والا نہ تھا ۔ایک صاحب گئے نجف اشرف ہمارے دوستوں میں سے ہیں اب ایران میں رہتے ہیں غیر اہل علم ہیں توجب طلبہ سے مل کر آئے تو مجھ سے کہنے لگے کہ شاہ جی کس مصیبت میں آپ نے ڈال دیا ہم کو میں نے کہا کہ کیا ہوا ؟کہنے لگے مولوی صاحبان کہتے ہیں کہ وہ تو مجتھد نہیں ہیں کہ جس کی آپ نے تقلید کروادی ہے ۔آپ نے ہمیں ساری قوم کو پھنسا دیا آج وہ امام کہتے کہتے نہیں تھکتے تو بہرحال اقتدار کو تو سلام کرنا بہت آسان ہوتا ہے لیکن مشقت و مصیبت کے وقت ساتھ دینا بہت مشکل ہوتا ہے ۔
میری یہ خواہش تھی کہ امام جب پیرس میں پہنچ گئے تھے ایک وفد پاکستانی علماء کی طرف سے ان کی طرف بھیجیں اور ان کو جاکر کہیں کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں ایک آدمی بھی تیار نہیں ہوا جانے کے لئے یقین جانئے اس بات کا شاید اظہار اچھا نہ ہو میں اپنا مکان پیچ کر وہاں گیا تھا اپنے خرچ پر گیا تھا پھر یہ ہے کہ سلام کرنا تو آسان ہے میرے دل میں یہ احساس بھی تھا کہ یہ مشکلات میں پھنسے ہوئے ہیں لہٰذا ہمیں جتنا ہوسکے کچھ کرنا چاہیے جس دن امام پیرس سے واپس آئے ہیں اس دن کی رسید میرے پاس موجود ہے ۔تو کوئی بھی جانے کے لئے تیار نہ تھا صرف ایک سیٹھ صاحب تھے ان کے خاندان کو باقاعدہ بڑی مشکل سے راضی کیا گیا ۔کیونکہ وہ تازہ تازہ حج سے ہو کر آئے تھے کاروبار کا معاملہ تھا جب انہوں نے انکار کردیا ۔اور کہنے لگے کہ میرے بھائی سے پوچھیں اور جب ان کے بھائیوں سے پوچھا تو وہ کہنے لگے کہ ابھی تو دو مہینہ باہر کاٹ کر آئے ہیں بات بھی ان کی معقول تھی میں بہت مایوس ہوا ۔اب میں آپ کو ایک گر کی بات بتاؤں کہ میں جب کہیں معاملات میں پھنس جاؤں جو کام نہ نکلتا ہو تو پھر کسی خاص معصوم کے ساتھ توسل کرتا ہوں ۔مجھے یاد نہیں غالبا کسی معصوم کی ولادت تھی غالبا امام موسیٰ کاظم ؑ کی تھی میں نے کہا کہ مولا کہ اب ان سے نہیں کہوں گا کہ میرے ساتھ جائیں ۔میرا جتنا کام تھا کیا کوئی ساتھ نہیں دیتا تو میں کیا کروں ۔چنانچہ پھر سیٹھ صاحب کا ٹیلی فون آیا ۔کہنے لگے کہ کیا بنا آپ کی تیاری کا میں نے کہا کہ میں کیا بتاؤں مجھے تو زبان ہی نہیں آتی وہ ملک میں نے دیکھا ہی نہیں ہے ۔ تو اکیلا میں کیسے جاسکتا ہوں تو آپ تو جاتے ہی نہیں ہیں ۔کہنے لگے کہ اچھا پھر آپ اپنا پاسپورٹ بھیجیں چنانچہ پھر ہم دو آدمی یہاں سے گئے ۔
اس زمانے میں ہندوستان کی حکومت نے امام کو دعوت دی کہ آپ ہندوستان آجائیں لیکن مسلمانوں کے پاس ہندو جو بت پرست ہیں ان جتنی بھی عقل نہیں ہے اتفاق سے میں ان دنوں میں اسلام آباد میں تھا کچھ اور علماء بھی گلگت کے طلباء آئے ہوئے تھے ۔انصاری صاحب اس زمانے مذہبی امور کے وزیر تھے ۔ہم نے ٹیلی فون کیا کہ ہم آپ کو ملنا چاہتے ہیں تو خیر ہم پانچ سات مولوی صاحبان سب کے سب میرے سوا عبا قبا میں تھے ۔تو اس نے سمجھا کہ کوئی مطالبات لے کر آئے ہیں ۔تو میں نے کہا کہ ہم آپ کے شکرگزار ہیں کہ آپ نے اتنی جلدی وقت دے دیا ہے کہنے لگے کہ نہیں نہیں میرے نزدیک سب شیعہ سنی ایک ہیں ۔البتہ میں کسی کی رو رعایت نہیں کرتا ۔میں نے کہا نہیں ہم آپ سے کچھ مانگنے نہیں آئے ہیں ۔آپ کو کچھ دینے آئے ہیں خیر وہ ٹھنڈا ہوگیا کہنے لگا کہ کیا ۔میں نے کہاکہ وہ بات یہ ہے کہ یہ طے ہے کہ شاہ اب رہ نہیں سکتا ۔اور حالات اس جگہ پر پہنچ چکے ہیں کہ اب اس کا رہنا مشکل ہے ۔لہٰذا ہندوستان کی حکومت نے امام خمینی کو دعوت دی ہے نہ وہ ہندوستان جائیں گے اور نہ پاکستان آئیں گے یہ طے ہے۔لیکن اگر آپ اس وقت ان کو دعوت دے دیں تو ایران کی قوم تمہاری شکرگزار ہوگی۔کہنے لگا کہ آپ جانتے ہیں کہ یہ موقعے بڑے نازک ہوتے ہیں ۔کہنے لگا کہ وہ امام خمینی جو ہیں ان کو سب شیعہ تو نہیں مانتے ہیں۔اب اس نے نکتہ لگایا ۔اتفاق سے بعض آدمی ہوتے ہیں وہاں اس کا جو سیکریٹری تھا وہ شیعہ تھا تو اس کی طرف دیکھا کہ کیا خیال ہے ۔کہنے لگا کہ نہیں جی سارے مانتے ہیں ۔پورے شیعہ ان کے ساتھ ہیں ۔خیر اس نے کہا کہ ضیاء صاحب اس وقت نہیں ہیں سکھر گئے ہوئے ہیں وہ آئیں گے تو میں ضرور ان سے بات کروں گا تو بہرحال میرے عزیزویہ انقلاب کی ابتدائی باتیں ہیں ۔
الحمد للہ کہ انقلاب کامیاب ہوا جن مشکلات سے یہ انقلاب گذرا ہے حقیقتاًیہ خدا کی تائید نہ ہوتی تو کب کا ختم ہوگیا ہوتا ۔اور دشمنان اسلام نےپورا اپنا ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا ۔جتنا ان سے ہوسکتا تھا یہ تو میں سمجھتا ہوں کہ معجزہ کے طور پر یہ انقلاب بچا ہوا ہے دس سال نکال جانا ،ان حالات میں جبکہ اندر بھی دشمنان انقلاب تو وہ پارٹی وغیرہ انقلاب کو ختم کرنے میں لگی ہوئی تھی اور باہر سے استعمار نہیں چاہتا تھا کہ یہ انقلاب کامیابی کی منازل طے کرے۔
آپ کا کافی وقت خرچ کیا ہماری دعا ہے کہ یہ انقلاب اسلامی ایران اپنے حقیقی اہداف تک پہنچے۔اور خداوند ذوالجلال اس کے عظیم رہبر امام خمینی اور دیگر مسئولین کشور کو شر دشمنان و شیاطین سے محفوظ رکھے۔ والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=26045

ٹیگز