14

خیبر پختونخوا کے نصاب میں حضرت ابو طالبؑ کی تکفیر پر مشتمل گستاخانہ مواد

  • News cod : 38086
  • 26 سپتامبر 2022 - 15:27
خیبر پختونخوا کے نصاب میں حضرت ابو طالبؑ کی تکفیر پر مشتمل گستاخانہ مواد
یہ مسئلہ محض اگلے ایڈیشن میں تبدیلی کی یقین دہانی سے حل نہیں ہوتا، اس ایڈیشن کی لاکھوں کتابیں اب تک ہزاروں اسکولوں میں تقسیم ہوچکی ہیں، فی الفور ان کتب کی واپسی بھی ممکن نہیں، لہذا صوبائی حکومت کو اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے نہ صرف تمام تر اسکولوں میں اس کتاب پر پہلے فوری پابندی عائد کرنی ہوگی.

رپورٹ: سید عدیل زیدی

پاکستان میں نصاب تعلیم کا معاملہ کئی مواقع پر موضوع بحث رہا ہے، کبھی مسلکی اختلاف، کبھی تاریخی اور کبھی سیاسی اختلاف کی وجہ سے نصاب کے معاملات پر متنازعہ رہے ہیں۔ اس مسئلہ کو ہر دور حکومت میں اس سنجیدگی سے نہیں لیا گیا، جس کا وہ متقاضی تھا، متعلقہ ادارے اور فورمز ہونے کے باوجود کوئی مستقل حل تلاش نہیں کیا گیا، ہر ٹیکسٹ بک بورڈ اپنی مرضی و منشاء کے مطابق درسی کتب چھاپ دیتا ہے اور یہ کتب بغیر کسی مستند سسٹم سے گزرے بچوں کے ہاتھوں میں آتی رہی ہیں۔ ایسے میں حکومتوں کو تب ہوش آتی ہے کہ جب بات احتجاجات اور زندہ باد، مردہ باد تک پہنچتی ہے۔ ایسی ہی ایک فاش حرکت حالیہ دنوں میں خیبر پختونخوا ٹیکسٹ بک بورڈ کی طرف سے کی گئی ہے۔ خیبر پختونخوا میں جماعت چہارم کی اسلامیات کی کتاب میں چچا، نکاح خواں اور مدافع رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دین اسلام کی عظیم ہستی حضرت ابو طالب علیہ السلام کی شان اقدس میں گستاخی کرتے ہوئے ان کی تکفیر کی گئی ہے۔

اس قسم کے متنازعہ اقدامات ماضی میں بھی غلطی، تعصب، کم علمی یا پھر سازش کی صورت میں سامنے آتے رہے ہیں۔ یاد رہے کہ حکومت کی جانب سے یکساں نصاب تعلیم کے حوالے سے شیعہ علمائے کرام اور قائدین کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا تھا۔ خیبر پختونخوا ٹیکسٹ بک بورڈ کے اس حالیہ قبیح اقدام کی نشاندہی ہونے کے بعد سے محب اہلبیتؑ مسلمانان پاکستان بالخصوص ملت تشیع میں شدید غم و غصہ اور تشویش پائی جاتی ہے۔ علمائے کرام کے مطابق جناب ابو طالب علیہ السلام کا مقام اتنا بلند ہے کہ آپؑ کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے، وہ ہستی کہ جس کا فعل خداوند کریم کو اتنا پسند آئے کہ وہ اس فعل کو اپنا فعل قرار دے تو یہ اس پاک ہستی کی قدر و منزلت کا اندازہ لگانے کیلئے کافی ہے۔ جماعت چہارم کی اسلامیات کتاب میں صفحہ نمبر 36 ایڈیشن 2020ء میں حضرت ابو طالب علیہ السلام کو اسلام سے خارج قرار دینے جیسی ناپاک جسارت نہ صرف ہمارے نصاب تعلیم بلکہ ایک مسلم ملک کے نظام تعلیم پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔

اس سنگین اور مزموم اقدام پر شیعہ تنظیمیں فوری حرکت میں آئیں اور پشاور پریس کلب میں مشترکہ پریس کانفرنس کی، مدرسہ شہید سید عارف الحسینی پشاور کے مدرس علامہ عابد حسین شاکری نے مجلس وحدت مسلمین، شیعہ علماء کونسل، امامیہ جرگہ، امامیہ کونسل، امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزینش اور امامیہ آرگنائزیشن کے رہنماوں کے ہمراہ حضرت ابو طالبؑ کی تکفیر کی شدید مذمت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ حضرت ابو طالب علیہ السلام کی تکفیر کرکے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات مجروح کئے گئے ہیں، حالانکہ حضرت ابو طالبؑ کے ایمان پر بہت ساری کتب شیعہ، سنی علماء لکھ چکے ہیں، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ جسارت شعوری طور پر کی گئی ہے، کیونکہ گذشتہ چند برسوں سے اہلبیت اطہارؑ کی شان میں گستاخی تسلسل کے ساتھ کی جا رہی ہے اور ہر بار عوامی ردعمل آنے کے بعد اسے غلطی قرار دیکر معاملہ رفع دفع کر دیا جاتا ہے، مگر آج تک اس طرح کی کسی بھی غلطی کے ذمہ داروں کا تعین نہیں کیا گیا، نہ ہی کسی کیخلاف کارروائی عمل میں لائی گئی، جس کی وجہ سے اس طرح کی گستاخانہ غلطیاں ہر سال دیکھنے کو ملتی ہیں۔

قبل ازیں صوبائی رہنماء مجلس وحدت مسلمین جلال حسین طوری اور امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے سابق ڈویژنل صدر ڈاکٹر ثاقب بنگش نے عملی اقدام کرتے ہوئے خیبر پختونخوا ٹیکسٹ بک بورڈ کے ڈائریکٹر اسلامیات و عربی ساجد رحمان اورکزئی کے ساتھ اس حساس معاملہ پر ملاقات کی اور جماعت چہارم اسلامیات کی کتاب میں شان حضرت ابو طالب علیہ السلام میں ہونے والی گستاخی پر تفصیلی اور منطقی مؤقف پیش کیا۔ اس موقع پر خیبر پختونخوا ٹیکسٹ بک بورڈ کے ڈائریکٹر اسلامیات و عربی نے غلطی تسلیم کرتے ہوئے اس معاملہ کو اگلے ایڈیشن میں نکالنے کی یقین دہانی کرائی۔ اس ملاقات کے دوران مذکورہ متنازعہ کتاب کے مصنف موجود نہیں تھے، جس پر ساجد رحمان اورکزئی نے وفد کو کتاب کے مصنف کی موجودگی میں اس معاملہ پر ایک اور نشست کی دعوت دی، تاکہ اس حساس نوعیت کے مسئلہ پر تفصیلی بات چیت کی جاسکے۔

یہ مسئلہ محض اگلے ایڈیشن میں تبدیلی کی یقین دہانی سے حل نہیں ہوتا، اس ایڈیشن کی لاکھوں کتابیں اب تک ہزاروں اسکولوں میں تقسیم ہوچکی ہیں، فی الفور ان کتب کی واپسی بھی ممکن نہیں، لہذا صوبائی حکومت کو اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے نہ صرف تمام تر اسکولوں میں اس کتاب پر پہلے فوری پابندی عائد کرنے ہوگی، بلکہ جلد اس معاملہ کی حذف شدہ نئی کتب شائع کرانی ہوں گی۔ اس قسم کے مسائل سے بچنے کیلئے مرکزی سطح پر حکومتی اقدامات کی اشد ضرورت ہے، یہ حساس نوعیت کے معاملات نہ صرف لوگوں کے مذہبی جذبات مجروح کرتے ہیں بلکہ پہلے ہی گوناں گوں مسائل میں گھرے وطن عزیز میں مزید پیچیدہ مسائل کو جنم دے سکتے ہیں۔ لہذا نصاب تعلیم جیسے اہم و حساس معاملہ پر باقاعدہ ایک ایسے ادارے کی موجودگی ناگزیر ہے کہ جس میں تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام کی نمائندگی ہو، جہاں تمام طبقات کی رضامندی سے نصاب تیار ہو اور کتب شائع ہوں۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=38086