وفاق ٹائمز، امت واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے یومِ نکبہ کے حوالہ سے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ میڈیا کی آزادی نے بالعموم اقوامِ عالم اور بالخصوص نوجوان نسل میں فکری و نظریاتی تبدیلی کو جنم دیا ہے۔ فلسطین کے مسئلہ پر مغربی اقدار اور حکمرانوں کے طرزِ عمل میں واضح ٹکراؤ نے وہاں کے عوام کو حق کی شناخت کا شعور بخشا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مغرب کی نصابی کتب میں پڑھائی جانے والی اخلاقی اقدار کے برخلاف مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و بربریت کی کوئی توجیح پیش نہیں کی جا سکتی۔ غزہ میں گذشتہ سات ماہ سے ہونے والی حیوانیت اور انسان سوزی شرمناک ہے۔ اسی لئے آج کے میڈیا سے استفادہ کرتے ہوئے اسرائیل اور اس کے حمایتی ممالک کے مظالم دیکھنے کے بعد مغربی نوجوانوں کے اذہان میں سوال اٹھنا شروع ہوا کہ ان کے حکمرانوں کا طرزِ عمل، نصاب میں شامل اخلاقی اقدار سے مختلف کیوں ہے؟ نتیجتًا یہ لوگ اس درندگی اور بربریت کے خلاف میدانِ عمل میں اترے ہیں۔
علامہ امین شہیدی نے کہا کہ مغربی دنیا کا فلسطین کی حمایت میں قیام مذہبی نہیں، نظریاتی ہے۔ یہ قیام اس سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ہے جس کی بنیاد غیر منصفانہ پالیسیز پر رکھی گئی ہے۔ اہلِ مغرب کی بیداری اِس چیز کی علامت ہے کہ جب انسان کا شعور بلند ہوتا ہے تو پھر اسے کسی ہادی کے بغیر بھی سچائی کا راستہ نظر آتا ہے۔ امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ الصلوۃ والسلام نے نہج البلاغہ میں فرمایا کہ اللہ تعالی نے انبیاء علیہم السلام کو مقروض کیا ہے۔ کیوں؟ کیونکہ انسان کی ہدایت کے لئے ایک نبی باہر اور دوسرا نبی اُس کے اندر موجود ہوتا ہے۔ باہر والے نبی کو خداوند متعال مبعوث فرماتا ہے تاکہ وہ انسان کے اندر موجود باطنی نبی کو بیدار کرے۔ باطنی نبی سے مراد ”فطرتِ سلیم“ ہے جسے ہم ضمیر کہتے ہیں۔ اگر ضمیر جاگا ہوا ہو اور انسان خدا کو قبول نہ بھی کرے، تب بھی وہ ضمیر کی آواز کی مخالفت نہیں کر سکتا۔ غزہ کی جنگ نے اسی شعور میں اضافہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ابتدا میں ایک جملہ کہا تھا کہ غزہ کی جنگ حق اور باطل کے درمیان وہ لکیر ہے جو اس بات کی وضاحت اور تصدیق کرے گی کہ امام مہدی آخر الزماں عجل اللہ فرج کی سپاہ اور ان کے مقابلہ میں کون لوگ ہوں گے۔ ہم شیعہ سنی دونوں روایات میں پڑھتے ہیں کہ امام زماں علیہ الصلوۃ والسلام کے ظہور کے بعد حضرت عیسی علیہ السلام تشریف لائیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت عیسی علیہ السلام کو زمین سے آسمانوں کی طرف کسی خاص حکمت کے تحت اٹھایا ہے۔ اس کا فلسفہ یہ ہے کہ امام زمان عجل اللہ فرج کے ظہور کے بعد حضرت مسیح (ع) تشریف لائیں گے اور امام (عج) کے ہاتھوں بیعت کرنے کے ساتھ ان کی اقتدا میں نماز ادا کریں گے۔ امام زمان (عج) کی ولایت و خلافت میں یہ صاحبِ کتاب پیغمبر، کفر کے خلاف جہاد بھی کریں گے۔ آپ علیہ السلام کی طرف سے یہ اعلان بھی ہوگا کہ جو میرا پیروکار ہے، وہ مہدی (ع) سے متصل ہو جائے۔ حضرت عیسی علیہ السلام کے ماننے والے عیسائی یا پھر ایتھسٹ ہی کیوں نہ ہوں، ان کے دل میں حضرت مسیح علیہ السلام کا احترام موجود ہے، وہ ان کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے سپاہِ امام (عج) میں شامل ہو جائیں گے۔ یقینا یہ ایک بہت بڑی جمیعت ہوگی جو اُدھر سے اِدھر آئے گی اور جس کی طرف ہم بہت تیزی سے جا رہے ہیں۔