انھوں نے آرڈیننس کے ذریعے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں ترمیم کے تحت دیے گئے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ریکوزیٹ کمیٹی کو از سر نو تشکیل دے دیا۔ کمیٹی کی صدارت وہ خود کریں گے اور انہوں نے دیگر ارکان میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کو شامل کرلیا۔
چیف جسٹس نے 28 اکتوبر پیر کو دوپہر ایک بجے فل کورٹ کا اجلاس بھی بلا لیا۔ انہوں نے اینٹی ٹیررسٹ کورٹس کے انتظامی ججوں کا اجلاس بھی سپریم کورٹ میں 7 نومبر کو طلب کرلیا اور اس حوالے سے پراگریس رپورٹ بھی مانگ لی ہے۔ سب سے اہم یہ ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس 8نومبر کو طلب کرلیا گیا۔
ابھی تک اس اجلاس کا ایجنڈا جاری ہونا باقی ہے تاہم وکلا کا خیال ہے کہ چیف جسٹس یہ یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ عدلیہ کے کاموں میں ایجنسیوں کی مداخلت کی اجازت نہ دی جائے۔ یاد رہے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں نے ایجنسیوں کی مداخلت کے حوالے سے سپریم جوڈیشل کونسل سے رہنمائی حاصل کرنے کے لیے لیٹر لکھا تھا۔ اس حوالے سے معاملے کو حل کرنے کے بجائے سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ٰ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے الزامات کے حوالے سے تحقیقات کرنے کے لیے انکوائری کمیشن تشکیل دینے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔
اس کے بعد سو مو ٹو پروسیڈنگ شروع کردی گئیں جو اب تک جاری ہیں۔ جسٹس یحییٰ آفریدی کہ چکے ہیں کہ ہائیکورٹ ججز کے اٹھائے گئے معاملے کا سپریم جوڈیشل کونسل کے کوڈ آف کنڈکٹ کے تحت جائزہ لیا جانا چاہیے۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں سپیریئر کورٹس کے ججوں خاص طور پر ا سلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس، چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے دیگر ارکان کے خلاف مس کنڈکٹ کی شکایات موجود ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر بھی سپریم جوڈیشل کونسل کے ارکان ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اور بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بھی کونسل کے رکن ہیں۔ دوسری طرف حکومت سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد بڑھانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ حکومت ہم خیال ججوں پر مبنی آئینی بنچ بھی چاہتی ہے۔ تاہم وکلا کا خیال ہے کہ چیف جسٹس کو ہی آئینی بنچ کی سربراہی کرنے والا جج ہونا چاہیے۔