مدیر حوزہ علمیہ آیت اللہ علی رضا اعرافی نے قم المقدسہ میں نماز جمعہ کے خطبوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا: علم حاصل کرنا اور دانش و ٹیکنالوجی کی سرحدوں کو وسیع کرنا ایک پسندیدہ اور درست عمل ہے اور اسلام نے ایسے اصول و ضوابط پیش کیے ہیں جو علمی حدود کی توسیع، تمام علمی و تکنیکی میدانوں میں انسانی پیشرفت اور عالمِ طبیعت سے مثبت استفادہ کی ترغیب دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا: بعض انحرافات انسان کو اخلاقی و دینی اقدار کی سرحدیں توڑنے کی طرف لے جاتے ہیں جس کا نتیجہ اخلاق، خاندان اور مؤمنانہ و سالم معاشرتی زندگی کا بکھر جانا ہے۔ ساتھ ہی یہ صورتحال عالمی خودمختار حکمرانی کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ بن چکی ہے۔ عالمی استعمار انہی ٹیکنالوجیز کو مختلف قوموں کے استقلال کو کمزور کرنے اور ان کی فکری و ثقافتی سمت تبدیل کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے تاکہ ان کی خود اعتمادی اور آزادی سلب کر لی جائے۔
مدیر حوزہ علمیہ نے کہا: ہم اس حقیقت کے قائل ہیں کہ نئی سمارٹ ٹیکنالوجیز میں بے مثال مواقع موجود ہیں لیکن فرد، خاندان، معاشرے اور نظامِ حکمرانی کے لیے سنگین خطرات بھی موجود ہیں۔ ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے ہوشیار رہنا ضروری ہے۔ ہمارے خاندانی اور تعلیمی تربیتی نظام کو ایسا ہونا چاہیے کہ نئی نسل ان خطرات سے واقف ہو اور مناسب رہنمائی، نگرانی اور تربیت کے ساتھ پروان چڑھے۔
امام جمعہ قم نے نہج البلاغہ کو علم، سیرت اور مواقفِ امام علی علیہ السلام کی عظیم نشانی قرار دیتے ہوئے کہا: نہج البلاغہ کی پہلی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں عربی زبان کی فصاحت و بلاغت اپنی اوج اور کمال پر ہے۔ یہ کتاب محض علمی موضوعات تک محدود نہیں بلکہ یہ ادب، حکمت اور تہذیبی تربیت کا عظیم مکتب بھی ہے جسے سید رضیؒ نے بغداد میں جمع کیا۔
خطیب جمعہ قم نے نہج البلاغہ کی گہرائی اور فکری پہلو کو اس کا دوسرا امتیاز قرار دیا اور کہا: نہج البلاغہ میں توحید، معاد، دنیا شناسی اور حکمرانی جیسے دقیق و عمیق معارف انتہائی دلکش اور ادبی قالب میں پیش کیے گئے ہیں۔ معارفِ الٰہیہ کے پاکیزہ چشمے اس کتاب سے پھوٹتے ہیں اور یہ امتیاز نہج البلاغہ کو منفرد اور بے نظیر بناتا ہے۔
آیت اللہ اعرافی نے نہج البلاغہ کے خطبہ 83 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: امیرالمؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: «الْآنَ عِبَادَ اللَّهِ وَ الْخِنَاقُ مُهْمَلٌ وَ الرُّوحُ مُرْسَلٌ فِی فَیْنَةِ الْإِرْشَادِ وَ رَاحَةِ الْأَجْسَادِ وَ بَاحَةِ الِاحْتِشَادِ وَ مَهَلِ الْبَقِیَّةِ وَ أُنُفِ الْمَشِیَّةِ» اے بندگانِ خدا! ابھی فرصت ہاتھ میں ہے، موت کی گرفت سخت نہیں ہوئی، روح آزاد ہے، بدن آسائش میں ہے، لہٰذا نیکی اور توبہ میں دیر نہ کرو کیونکہ کل بہت دیر ہو سکتی ہے اور شاید تمام مواقع چھن جائیں۔
انہوں نے کہا: امام علی علیہ السلام آگاہ کرتے ہیں کہ انسان کو تنگی، سختی اور آخرت کی طرف رخ کرنے سے پہلے اپنے نفس کی اصلاح اور توبہ کر لینا چاہیے۔
امام جمعہ قم نے کہا: امیرالمؤمنین علی علیہ السلام رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سب سے نزدیک ہیں اور یہ قرب صرف نسبی نہیں بلکہ ولائی، معرفتی اور روحانی ہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: «أنا مدینة العلم و علی بابها» یعنی *میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں*۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ نبوی علم و حکمت تک رسائی کا راستہ امام علی علیہ السلام کی ولایت اور پیروی میں ہے۔












