حضرت آیتالله خامنهای نے عبادت و خشوع، ایثار و قربانی، مصائب میں صبر و استقامت، مظلوم کی حمایت میں شجاعت، حقائق کے بیان و حقائق بیان کرنا ، سیاسی بصیرت اور عمل، گھرکی دیکھ بھال، شوہر داری، تربیتِ اولاد اور تاریخِ اسلام کے اہم واقعات میں فعّال موجودگی سمیت بی بی دو عالم کی بے پایاں فضیلتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
ایرانی خاتون بحمداللہ ایسے درخشاں کردار سے سبق حاصل کرتی ہے جو رسول اکرم ص کے فرمان کے مطابق پوری تاریخ کی تمام عورتوں کی سردار ہیں۔
اور ان ہی مقاصد کے راستے پر آگے بڑھتی ہے۔اُنہوں نے اسلام میں عورت کے مقام کو نہایت بلند و والا قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ قرآنِ کریم نے عورت کی شناخت اور شخصیت کے بارے میں سب سے اعلیٰ اور ترقی یافتہ تعبیرات بیان کی ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے قرآن کی اُن آیات کی طرف اشارہ کیا جو ’’زندگی اور تاریخِ بشر میں مرد و زن کے یکساں کردار‘‘ اور ’’کمالاتِ معنوی اور عالی ترین مقامات تک دونوں کے برابر پہنچنے‘‘ کو بیان کرتی ہیں اور فرمایا کہ یہ تمام حقائق اُن لوگوں کی غلط فہمیوں کے منافی ہیں جو دین تو رکھتے ہیں مگر دین کو پہچانتے نہیں، یا وہ جو سرے سے دین کو قبول ہی نہیں کرتے۔
اُنہوں نے قرآن کے منطق پر مبنی عورت کے حقوق کو واضح کرتے ہوئے فرمایا:
اسلام میں سماجی سرگرمی، معاشی میدان، سیاسی عمل، حکومتی مناصب تک رسائی اور دیگر شعبوں میں عورت اور مرد کے حقوق برابر ہیں۔
روحانی سلوک اور فردی و اجتماعی پیش رفت کے راستے بھی عورت کے لیے کھلے ہیں۔
حضرت آیتالله خامنهای نے فرمایا کہ مغربی اور سرمایہ دارانہ تہذیب کی گھناؤنی ثقافت، اسلامی معیاروں کے یکسر خلاف ہے۔
اسلام عورت کے مقام کے تحفظ اور انسانی معاشرے کی حقیقی ضرورت کے مطابق، ’’غیر محرم مرد سے ارتباط، مرد و زن کے لباس، عورت کے حجاب اور نکاح‘‘ کے بارے میں ایسے احکام رکھتا ہے جن کا مقصد جسمانی و نفسیاتی فطرت کے مطابق خطرناک جنسی خواہشات کو مہار کرنا ہے۔
جبکہ مغربی تہذیب ان بے لگام خواہشات پر کسی حد کا پابند نہیں۔
رہبر انقلاب نے فرمایا:
اسلام میں مرد اور عورت دو متوازن عناصر ہیں۔
جن کے درمیان بہت سی مشترک خصوصیات ہیں اور کچھ فرق جسم و طبیعت کے لحاظ سے ہیں۔
یہ دونوں ’’ایک دوسرے کے مکمل کرنے والے عناصر‘‘ ہیں اور انسانی معاشرے کے نظم، نسلِ بشر کی بقا، تہذیبی ترقی اور زندگی کے انتظام میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔
انہوں نے اس کردار کی تکمیل میں خاندان کے قیام کو سب سے اہم کام قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ مغربی تہذیب میں خاندان کے تصور کو فراموش کر دیا گیا ہے۔
جبکہ اسلام نے ’’مرد، عورت اور اولاد‘‘ کے باہمی حقوق کو نہایت واضح اور باقاعدہ طور پر بیان کیا ہے۔
رہبر انقلاب نے خواتین کے حقوق پر گفتگو کرتے ہوئے ’’سماجی اور خاندانی معاملات میں عدالت‘‘ کو عورت کا پہلا حق قرار دیا۔اور حکومت اور معاشرے کے تمام افراد کی ذمہ داری بتایا کہ اس حق کو پورا کریں۔
فرمایا کہ ’’امن فراہم کرنا احترام اور کرامت‘‘ بھی عورت کے بنیادی حقوق ہیں۔ اور مغربی سرمایہ داری نے اس کرامت کو پامال کیا ہے۔
جبکہ اسلام عورت کے احترام پر سخت تاکید کرتا ہے۔
انہوں نے رسول اکرم ص کی اس حدیث کا حوالہ دیا جس میں عورت کو ’’ پھول ‘‘ کہا گیا ہے۔
نہ کہ گھر کا مزدور یا خادمہ۔
اور فرمایا کہ اس نظر سے عورت کی دل آزاری سے پرہیز کرنا چاہیے اور اسے پھول کی طرح محبت اور نرمی سے سنبھالنا چاہیے تاکہ وہ بھی گھر کو اپنی خوشبو اور رنگ سے معطر کر سکے۔
حضرت آیتالله خامنهای نے قرآن میں حضرت مریم س اور حضرت آسیہ (زوجۂ فرعون) کی مثال کو عورت کے فکری اور عملی مقام کی عظمت کا نشان قرار دیا اور فرمایا کہ خواتین کے سماجی حقوق جیسے مردوں کے برابر اجرت، ملازمت پیشہ خواتین یا سرپرست خواتین کے لیے بیمہ، مخصوص مرخصیاں اور دیگر متعدد امور بغیر کسی امتیاز کے محفوظ رہنے چاہئیں۔
انہوں نے فرمایا کہ گھر میں عورت کا سب سے اہم حق ’’شوہر کی محبت‘‘ ہے۔ حدیث میں مردوں کو عورتوں سے اپنی محبت ظاہر کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔
اسی طرح عورت کا ایک بڑا حق یہ ہے کہ شوہر ہر قسم کی جسمانی یا نفسیاتی تندی سے پرہیز کرے۔
اور مغرب کی اُن رسوا کن عادتوں سے دور رہے جن میں عورتوں کا قتل یا مارپیٹ شامل ہے۔
رہبر انقلاب نے ’’گھریلو کام کو عورت پر زبردستی نہ ڈالنا‘‘، ’’بچے کی پیدائش کے آثار و تکالیف میں شوہر کا ساتھ دینا‘‘ اور ’’عورت کی علمی و پیشہ ورانہ ترقی کی راہ نہ روکنا‘‘ کو بھی عورت کے حقوق قرار دیا۔اور فرمایا کہ عورت ہی گھر کی حقیقی مدیر اور سربراہ ہے۔
آج وہ خواتین جو شوہر کی محدود آمدنی اور مہنگائی کے باوجود حکمت و مہارت سے گھر کو سنبھالتی ہیں، قابلِ قدر ہیں۔
انہوں نے مغربی سرمایہ داری کے مقابل میں عورت کے بارے میں اسلامی نظریہ کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ
اسلام عورت کو استقلال، توانائی، پہچاں اور ترقی کے تمام امکانات دیتا ہے۔
جبکہ سرمایہ داری عورت کو مرد کا تابع، گمنام اور شہوت رانی کا آلہ سمجھتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں حالیہ شور اٹھانے والے جرائم پیشہ گروہ اسی انحطاط کا نتیجہ ہیں۔
حضرت آیتالله خامنهای نے ’’خاندان کی تباہی‘‘، ’’ناجایز بچوں کا بڑھ جانا‘‘، ’’نوخیز لڑکیوں کے شکار کرنے والے گروہ‘‘ اور ’’جنسی بے راہ روی کو آزادی کے نام پر رواج دینے‘‘ کو پچھلے دو صدیوں میں مغرب کے بڑے جرائم قرار دیا اور فرمایا کہ مغرب ان تمام گناہوں کو آزادی کا نام دیتا ہے اور اسے ہمارے ملک سمیت دنیا میں پھیلانے کی کوشش کرتا ہے۔
حالانکہ یہ آزادی نہیں بلکہ کھلی غلامی ہے۔
انہوں نے فرمایا کہ مغرب مسلسل اس گمراہ ثقافت کو دنیا میں برآمد کرنا چاہتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ حجاب عورت کی پیشرفت میں رکاوٹ ہے۔ مگر اسلامی جمہوریہ ایران نے ثابت کر دیا کہ باحجاب مسلمان عورت زندگی کے ہر میدان میں دوسروں سے زیادہ فعال اور مؤثر کردار ادا کر سکتی ہے۔
رہبر انقلاب نے خواتین کی علمی، ورزشی، فکری، تحقیقی، سیاسی، سماجی، صحت و طبابت، زندگی کی امید، اور شہدا کے اہل خانہ کی بے مثال خدمات سمیت بے شمار کامیابیوں کو تاریخِ ایران میں بے نظیر قرار دیا اور فرمایا کہ ایران کی تاریخ میں کبھی ایسا زمانہ نہیں تھا کہ ملک میں اس کثرت سے عالمہ، مفکر، اور اہلِ نظر خواتین موجود ہوں ۔ یہ سب کچھ اسلامی انقلاب کی برکت ہے۔
آخر میں انہوں نے میڈیا کو نصیحت کی کہ عورت کے بارے میں مغربی سرمایہ داری کے غلط نظریات کو پھیلانے سے باز رہیں اور فرمایا کہ
جب حجاب، اخلاق یا مرد و زن کے باہمی تعاون جیسے مسائل زیرِ بحث آئیں۔تو ملکی میڈیا کو مغرب کا بیانیہ دہرانے کے بجائے اسلام کی عمیق اور کارساز نظریات کو نمایاں کرنا چاہیے۔
یہی طریقہ اسلام کے فروغ کا بہترین راستہ ہے اور دنیا، بالخصوص خواتین، کو اسلام کی طرف مائل کرے گا۔
#- *اسلام میں عورت کا مقام*
#- *عزت ،احترام و کرامت*
#- *عورت گھر میں مدیر ہے نہ کہ خادمہ*












