*درس اخلاق :معلم اخلاق قرآن حضرت آیت اللہ شیخ عبداللہ جوادی آملی حفظہ اللہ*
صبر اور تضرع ہی اللہ تک پہنچنے کے راستے ہیں ۔
آپ نے شرح نہج البلاغہ کے سلسلے میں حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کے حکمت/۱۸۶ سے ۱۸۹ کے ترجمہ و تفسیر کے دوران ان کلماتِ نورانی کے توحیدی، معادی اور تربیتی پہلوؤں کی وضاحت فرمائی۔
آیت اللہ العظمیٰ جوادی آملی نے فرمایا: حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کے مختصر کبھی مستقل بیان ہوئے ہیں اور کبھی خطبات یا خطوط کا حصہ ہیں۔ یہ مختصر اور جامع کلمات یا تو آیات قرآنی کی تفسیر ہیں یا پھر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نورانی بیانات کی تکمیل ہیں۔ اور ہر ایک حکمتِ الٰہی کے نئے دروازے کھولتا ہے۔
آپ نے اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنی نشانیاں تخلیقی عالم آفاق میں بھی دکھاتا ہے اور تشریعی عالم انفس میں بھی، اور اس سلسلے میں سورۂ فصلت کی آیت نمبر 53:
﴿سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ﴾
کی یاددہانی کرتے ہوئے تاکید کی کہ ہر سطح پر اللہ کی نشانیاں انسان کو حق کی طرف رہنمائی کرتی ہیں۔
نیز نیند اور موت کے باہمی تعلق کی وضاحت کرتے ہوئے، سورۂ زمر کی آیت نمبر 42:
﴿اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا﴾
سے استناد فرمایا کہ نیند”موقت موت” کی ایک سطح ہے اور انسان ہر رات موت کی حقیقت کو ایک طرح سے مشاہدہ کرتا ہے
اسی لیے معاد اور اللہ کی طرف بازگشت انسانی فہم سے بعید نہیں۔
استاد محترم نے قیامت میں “پشیمانی” کے تصور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سورۂ فرقان کی آیت نمبر 27:
﴿وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَىٰ يَدَيْهِ﴾
کی تشریح فرمائی اور فرمایا کہ جس طرح دنیا میں پشیمان انسان اپنی انگلی دانتوں سے کاٹتا ہے
قیامت میں ظلم کرنے والا (ظالمِ بادی) اپنے دونوں ہاتھ شدید حسرت و ندامت میں دانتوں سے کاٹے گا۔ اور یہی وہ حقیقت ہے جس کی طرف حضرت علی علیہ السلام نے حکمت/ 186 میں اشارہ فرمایا ہے:
«لِلظَّالِمِ الْبَادِئِ غَدًا بِكَفِّهِ عَضَّةٌ»
آیت اللہ العظمیٰ جوادی آملی نے اس کے بعد حکمت/ 187:
«الرَّحِيلُ وَشِيكٌ»
کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے بیان کیا کہ دنیا سے رحلت فنا نہیں بلکہ ایک دنیا سےآخرت کی طرف انتقال ہے۔
جس طرح برزخ میں بیداری کمزور ہوتی ہے اسی طرح قیامت میں محض بیداری ہوگی۔
آپ نے اس بات پر زور دیا کہ قرآن کریم میں “یوم” اور “یومئذ” سے متعلق آیات، چند ایک مستثنیات کے ساتھ، سب قیامت کے بارے میں ہیں۔حضرت استاد نے اپنے بیان کے ایک اور حصے میں فرمایا کہ جو کوئی بھی حق کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہوگا۔ ہلاک ہو جائے گا۔
حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام ایک اور کلام میں فرماتے ہیں:
«مَنْ أَبْدَى صَفْحَتَهُ لِلْحَقِّ، هَلَکَ»
کیونکہ حق،شکست قبول نہیں کرتا اور اس کی مخالفت سوائے حسرت اور زوال کے کچھ نہیں دے سکتی۔
جو کوئی دین کے سامنے، حق کے سامنے، چہرہ دکھائے گا ہلاکت میں مبتلا ہوگا۔
آپ نے پھر مقصدِ الٰہی تک پہنچنے میں صبر اور دعا کے کردار کی طرف اشارہ فرمایا اور زور دیا کہ حضرت علی علیہ السلام کے فرمان کے مطابق حکمت/ 189 نہج البلاغہ میں ہے:
«مَنْ لَمْ يُنْجِهِ الصَّبْرُ، أَهْلَكَهُ الْجَزَعُ»
اگر صبر انسان کو نجات نہ دے سکے تو جزع و بے تابی ہرگز اس کا مسئلہ حل نہیں کر سکتی۔
ایک طرف صبر ضروری ہے اور دوسری طرف تضرع و گریہ۔
جس کا روایات میں «سِلاحه الْبُکاء» کے عنوان سے تذکرہ ہوا ہے۔اور یہ گریہ و زاری خلوص کے ساتھ انسان کے حقیقی ہتھیار ہیں جو اندرونی اور بیرونی دشمن سے مقابلہ میں کام آتے ہیں۔
حضرت استاد محترم نے یہ بتاتے ہوئے کہ انسان کے پاس مقصدِ الٰہی تک پہنچنے کے لیے دو بنیادی ذرائع ہیں۔
مزید فرمایا: اپنا فرض پورا کرنے کا راستہ دو چیزوں پر مشتمل ہے:
صبر اور دعا۔
ایسا نہیں ہے کہ اگر کوئی صبر کرے تو مقصد سے محروم رہ جائے یا راستہ بھٹک جائے۔ ہرگز نہیں۔
صبر خود ایک یقینی راستہ ہے۔
ہر کام کا اپنا وقت اور تقاضا ہوتا ہے اور اس کا وقوع اسی انداز اور تقدیر کے مطابق ہوتا ہے جو اللہ نے اس کے لیے مقرر کی ہے۔ انسان ہمیشہ اپنے حقیقی مصلحت کو نہیں پہچان سکتا۔ کبھی اس کی مصلحت یہ ہوتی ہے کہ کوئی واقعہ اسے جلد نہ پہنچے اور تاخیر سے پہنچے۔
صبر وہ راستہ ہے جو انسان کو یقیناً مقصد تک پہنچاتا ہے۔ اگر صبر ہمیں مقصد تک نہ پہنچاتا تو ایسا حکم ہرگز جاری نہ ہوتا۔
آپ نے فرمایا: خلوص کے ساتھ گریہ و تضرع انسان کے دل کو نرم کرتا ہے اور اسے اندرونی دشمنوں سے مقابلہ کی طاقت دیتا ہے۔ ہمارے پاس شیطان اور نفس امارہ سے مقابلہ کے لیے گریہ اورتضرع کے سوا کوئی ہتھیار نہیں۔ کیونکہ وہ ہر لحاظ سے مسلح ہے لیکن انسان صرف گریہ اور سچی زاری کے ہتھیار سے ہی اندرونی دشمن پر فتح پا سکتا ہے۔
آیت اللہ العظمیٰ جوادی آملی نے مجلس کے اختتامی حصے میں امام سجاد علیہ السلام کی دعا اور دیگر اہل بیت علیہم السلام کی نورانی دعاؤں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا:
حقیقی عزت صرف اللہ کے پاس ہے اور جو کوئی اپنے آپ کو بارگاہِ الٰہی میں “حقیر محض” سمجھے گا۔
اللہ اسے سب کچھ عطا فرما دے گا۔ جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے:
﴿وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِیعًا﴾
#- *خودسازی*
#- *امت سازی*
#- *تمدن سازی*












