قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے 10 نومبر، سائنس برائے امن و ترقی کے عالمی دن کے موقع پر جاری اپنے پیغام میں کہا: سائنس کی مثال اس نشتر (آپریشن وغیرہ کے لئے استعمال ہونے والا چاقو) جیسی ہے جو اگر ایک ڈاکٹر کے ہاتھ میں ہو تو خیر ہی خیر اور اگر ڈاکو کے ہاتھ میں دیا جائے تو شر ہی شر پھیلے گا۔
انہوں نے مزید کہا: آج دنیا کی صورتحال بھی ایسی ہی ہے، افسوس جس علم کو انسانیت کی فلاح کیلئے استعمال میں لایاجانا چاہیے تھا اسے فلاح انسانیت کی بجائے قبیح فعل (انسانیت کی تباہی) کی بھینٹ چڑھا دیا گیا، موجودہ دنیامیں سامراج اور اس کاچیلہ صیہونی قاتل ہے، جسے کھلا دشمن قرار دیاگیاہے جن سے کبھی خیر کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔
علامہ ساجد نقوی نے کہا: اس میں کوئی شک نہیں کہ علم سائنس نے انسان کو مزید آگے بڑھنے، کائنات کو مزید بہتر انداز میں سمجھنے میں بڑا کردار ادا کیا ہے اور انسانی زندگی کو درپیش مسائل کے حل کیلئے اس کا کردار بھی ناقابل فراموش ہے مگر دوسری طرف اسی سائنسی علم کو سامراجی قوتوں نے انسانیت کی بربادی کیلئے بھی بے دریغ استعمال کیا جس کی سب سے بڑی اور بدترین مثال ماضی میں ہیروشیما ناگاساکی تھے تو آج غزہ اس کی تجربہ گاہ بنی ہوئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: سائنس کی مثال اس نشتر جیسی ہے اگر ڈاکٹر کے ہاتھ میں ہو تو امن و سلامتی اور ڈاکو کے ہاتھ میں ہو تو ظلم و بربادی ہوگی۔ افسوس آج دنیا سائنس برائے امن و ترقی ایسے وقت میں منارہی ہے جب غزہ پر بموں کی سیاہ برسات گزری، انسانیت سسک سسک کرمرتی رہی اور اب اس سامراج کی آشیر باد سے امداد تک مظلوموں تک نہیں پہنچ پارہی اور بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرکے اب بچے کچھے انسانو ں کے بھی درپے ہیں مگر افسوس نام نہادمسلط کردہ امن معاہدے پر بہت ڈھول پیٹے گئے مگر عملاً ظلم کی سیاہ رات آج بھی طاری ہے۔
قابل ذکر ہے کہ ہر سال 10 نومبر کو دنیا بھر میں “سائنس کا عالمی دن برائے امن و ترقی”(World Science Day For Peace and Development) منایا جاتا ہے، اس دن کو منانے کا مقصد معاشروں میں سائنسی شعور بیدار کرنا، تحقیق کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور اس امر کو تسلیم کرنا ہے کہ علم و سائنس ہی پائیدار ترقی اور عالمی امن کی بنیاد ہیں۔ اس دن کے منانے کا مقصد یہ اجاگر کرنا بھی ہے کہ سائنس صرف تجربہ گاہوں تک محدود نہیں بلکہ انسانی زندگی، معاشی ترقی، ماحولیاتی تحفظ اور پائیدار امن کے قیام میں بھی اس کا کردار نہایت بنیادی ہے۔ اس دن کو منانے کی تجویز اقوامِ متحدہ کے تعلیمی و ثقافتی ادارے یونیسکو نے دی تھی اور پہلی بار یہ دن 2002ء میں باضابطہ طور پر منایا گیا۔












