رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای حفظہ اللہ کا حوزہ علمیہ کے مبلغین کے نام اہم پیغام
*تبلیغ کی اہمیت اور حوزہ علمیہ کی ذمہ داریاں*
تبلیغ کے موضوع پر تشویش
مختلف ذرائع سے موصول ہونے والی معلومات کی بنیاد پر تبلیغ کے معاملے میں تشویش ہے۔
ملک میں تبلیغ کی صلاحیت بہت وسیع اور گھنی ہے۔ اگر ہم اس سے کئی گنا زیادہ کام کریں تب بھی یہ پوری نہیں ہو سکتی۔
ہمیں تبلیغ کی، نصیحت کی اور تحقیق کی ضرورت ہے۔
اگر ہماری تبلیغ تحقیق پر مبنی نہ ہو تو وہ بے اثر اور ناقص ہو جائے گی۔
*حوزہ علمیہ میں تبلیغ کو پہلی ترجیح کی ضرورت:*
حوزہ علمیہ میں عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ تبلیغ دوسرے درجے پر ہے اور پہلی ترجیح علمی مقامات کو دی جاتی ہے۔
اس سوچ سے آگے بڑھنا ضروری ہے۔ تبلیغ ہی پہلا درجہ ہے۔
دین کا حتمی مقصد انسان کو خلیفۃ اللہی کے راستے پر عروج دینا ہے۔
درمیانی اور ابتدائی مقاصد بھی ہیں۔ جیسے عدل و انصاف کا قیام يَقُومَ النَّاسُ بِالقِسْطِ اسلامی نظام کی تشکیل، نیکی کا فروغ اور برائی کا خاتمہ۔
ان میں سے ہر مقصد تک پہنچنے کا ذریعہ اور آلہ تبلیغ ہے۔
لہٰذا، تبلیغ پہلا درجہ اور اولین ترجیح ہے۔
*قرآن میں تبلیغ پر تاکید* :
قرآن میں مسئلۂ تبلیغ پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔
لفظ “بلاغ” یا “بلاغ مبین” (واضح پیغام رسانی) تقریباً 12-13 جگہ استعمال ہوا ہے۔
بلاغ مبین: وہ پہنچانا جس میں کسی شبہہ کی گنجائش نہ رہے
وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ
پیغمبروں کی زبان سے
مَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ
اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے پیغمبر کو خطاب کرتے ہوئے فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ
استعمال ہوا ہے۔
ادعوتأُدْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ
، “انذار” (ڈرانا) اور “تبشیر” (بشارت دینا) بھی تبلیغ کے ہم معنی الفاظ ہیں۔
قرآن کریم پیغمبروں کو تبلیغ کا ذمہ دار قرار دیتا ہے۔
علماء انبیاء کے وارث ہیں
إِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ
لہٰذا ان کی بنیادی ذمہ داری بھی تبلیغ ہے۔
پیغامِ دین کو تمام بنی نوع انسان کے دلوں اور کانوں تک پہنچانا ضروری ہے۔البتہ ان میں درجہ بندی موجود ہیں۔
*ماضی میں علماء کی تبلیغی روایت* :
حوزہ علمیہ میں ہزار سال پہلے سے ہی تبلیغ کی روایت موجود رہی ہے۔
شیخ صدوق رح کی متعدد کتب (جیسے امالی، خصال، عیون اخبار الرضا) درحقیقت تبلیغات ہیں۔ یہ صرف مذہب کی تبلیغ نہیں بلکہ اخلاق، دین اور توحید کی تبلیغ بھی ہے۔
شیخ مفید رح اور شیخ طوسی رح (صاحبِ امالی) جیسے عظیم فقہاء نے بھی تبلیغ کی ہے۔
حالیہ صدیوں میں، علامہ مجلسی رح نے بحار الانوار جیسی کتب کے ساتھ ساتھ عوام کے لیے فارسی کتب جیسے حق الیقین اور حیات القلوب بھی لکھیں۔
تفسیر منهج الصادقین جیسی فارسی کتب بھی عوام کی تبلیغ کے لیے تھیں۔ کیونکہ علماء تبلیغ کی روایت کو اہمیت دیتے تھے۔
منبر کی روایت بھی قدیم ہے۔ مثلاً ملا حسین کاشفی سبزواری رح (صاحبِ روضۃ الشہداء) اور واعظ قزوینی۔
بڑے علماء جیسے شیخ جعفر شوشتری رح، حاج آقا رضائے ہمدانی واعظ رح، اور مرحوم میرزا ابوالحسن قزوینی فلسفی رح (جن سے امام خمینی نے فلسفہ پڑھا تھا) منبر پر خطابت کرتے تھے۔
مشہد میں بھی حاج میرزا حسین سبزواری رح اور حاج آقا حسن قمی رح جیسے بزرگ علماء منبر پر جاتے تھے۔
تبلیغ کی روایت، خواہ تحریر، منبر یا شاعری کی صورت میں ہو، حوزہ علمیہ میں موجود رہی ہے۔
*اسلامی نظام میں تبلیغ کی دوہری اہمیت* :
تمام ادوار میں تبلیغ کی اہمیت تھی۔ لیکن ہمارے دور میں اس کی دوہری اہمیت ہے۔
یہ دور اسلامی حکومت کا ہے۔جو گزشتہ ہزار سال میں نہیں ہوا تھا۔
اسلامی حکومت کے قیام سے دشمنیوں میں شدت آ گئی ہے۔
پہلی وجہ (قوام نظام): اسلامی نظام کی بنیاد اور استحکام عوام کا ایمان ہے۔ نظام کا تحفظ “اوجب الواجبات” ہے، لہٰذا عوام کے ایمان کا تحفظ واجب ہے۔جس کے لیے تبلیغ ضروری ہے۔
دوسری وجہ (تطور علمی): یہ دور علمی ترقی کا ہے۔ پیغام پھیلانے کے نئے طریقے موجود ہیں جن کا پہلے تصور بھی نہیں تھا۔ جیسے ٹی وی، سیٹلائٹ، انٹرنیٹ، پوسٹ انٹرنیٹ، اور مصنوعی ذہانت۔
دشمن کے پاس تیز دھار تلواریں (ہارڈ ویئر اور سوفٹ ویئر) موجود ہیں۔
نرم افزار (سوفٹ ویئر): پیغام کو باور کرانے کے طریقے، جو نفسیاتی اور علمی حمایت سے رائج کیے گئے ہیں۔
اگر حوزہ علمیہ تبلیغ کی اہمیت اور اس کی دوہری ذمہ داری سے غفلت کرے تو اس کا ازالہ آسان نہیں ہو گا اور ثقافتی استحالہ (Cultural Degeneration) واقع ہو جائے گا۔
امام خمینی رح فرماتے تھے کہ ایسا ہوا تو اسلام کو ایسا طمانچہ لگے گا جس کا اثر سالوں تک رہے گا۔
غفلت کی صورت میں بڑے گناہوں کی قباحت ختم ہو جائے گی۔جیسا کہ مغرب میں ہو رہا ہے۔
*تبلیغ کے بارے میں عملی نکات:*
۱. مخاطب کو پہچاننا
درست تبلیغ کے لیے مخاطب کو پہچاننا ضروری ہے۔
آج جوانوں اور غیر جوانوں کی سطحِ آگاہی ماضی سے بالکل مختلف ہے۔
مخاطب کی فکری سطح کو جان کر محتوی اور طریقۂ کار کو اس کی ضرورت کے مطابق ترتیب دینا چاہیے۔
آفت: ورچوئل اسپیس اور میڈیا کے تکثر کی وجہ سے نسلی اور خاندانی تعلیمات کی آواز (والدین کی طرف سے دینی معلومات کی منتقلی) کمزور پڑ گئی ہے۔
ماضی میں ہم برے دوست سے ڈراتے تھے۔اب برا دوست جیب میں ہے (موبائل فون)۔
اگر تبلیغ کا مواد اور طریقۂ کار مخاطب کی صورتحال کے مطابق نہ ہو تو ناکام ہو جائے گا۔
وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ
کا ایک مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پیغمبر کو قوم کی فکری اور ذہنی ترکیب کے مطابق بات کرنی چاہیے۔
۲. جارحانہ حکمتِ عملی اور میدان کی شناخت
تبلیغ صرف شبہات کا جواب دینا اور دفاعی پوزیشن لینا نہیں ہے۔
ہمیں مقابل کے فکری مبادیات پر حملہ کرنا چاہیے اس کے غلط منطق اور افکار کو پہچاننا چاہیے۔
تبلیغ میں جارحانہ حکمتِ عملی تھاجمی ہونا ضروری ہے۔
جارحانہ حکمتِ عملی کے لیے میدان کو پہچاننا لازمی ہے۔
جب جوانوں کے ذہنوں میں شبہات ہوں تو ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ ہمارا مقابل کون ہے؟
جو شبہہ پیش کر رہا ہے۔کیا وہ خود مختار ہے یا اس کے پیچھے کوئی اور ہے؟
ماضی میں تودہ پارٹی سوویت یونین سے مالی اور فکری امداد حاصل کرتی تھی۔ اس وقت کے زیرک علماء جیسے علامہ طباطبائی رح نے ان کے شبہات کا جواب دینے کے بجائے مارکسزم کے فکری مبادیات کا جواب دیا (اصول فلسفه و روش رئالیسم)۔
آج مارکسزم نہیں ہے۔لیکن ایک اور حریف میدان میں ہے۔
آج کا مقابلہ دو محاذوں کے درمیان ہے۔ جن کی شناخت ضروری ہے:
اسلامی نظام کا محاذ۔
جھوٹا محاذ جو خود کو “لیبرل ڈیموکریسی” کہتا ہے۔ لیکن نہ لیبرل ہے اور نہ ڈیموکریٹ۔
وہ لیبرل ہیں تو استعمار کیوں کرتے ہیں؟ (ہندوستان میں 100 سال سے زیادہ استعمار، نہرو کا بیان، الجزائر میں فرانسیسیوں کے قتلِ عام)۔
وہ ڈیموکریٹ نہیں ہیں۔ کیونکہ وہ ان حکومتوں کو مسلط کرتے ہیں جو ان کی خدمت میں ہوں۔
یہ پرانی باتیں نہیں ہیں۔ بلکہ آج بھی یہ عادت موجود ہے
جیسے یوکرین کے عوام کو جنگ میں جھونکنا تاکہ اسلحہ کمپنیوں کی جیبیں بھریں، یا شام کا تیل چوری کرنا۔
دوسرا محاذ اسلامی نظام کا ہے جو استکبار، استعمار اور دیگر اقوام کے معاملات میں مداخلت کے خلاف ہے۔
جب نظام کے خلاف تبلیغات سامنے آئیں تو ہمیں اس کے منبع کی شناخت کرنی چاہیے۔
یہ مقابلہ کسی مفرور مخالف کا نہیں۔ بلکہ ایک حکومتی، تمدنی اور عالمی مقابلہ ہے۔
آج مغرب کی کمزوریاں ہمیشہ سے زیادہ ہیں۔
*امام خمینی رح نے امریکہ کو ” *شیطان بزرگ* ” کا لقب دیا تھا* ۔
امریکہ میں شیطان صفتی اور شرارتوں کا مجموعہ ہے۔ جو ہمارے تبلیغی حملوں کا نشانہ بن سکتا ہےسیاست، اقوام کے ساتھ تعامل، نسلی تعصب، طبقاتی فرق، جنسی اخلاق اور بے رحمی۔
جیسے عراق میں امریکیوں کی بے رحمانہ کارروائیاں۔
لہٰذا، دفاعی پوزیشن میں نہ رہیں۔
بلکہ جارحانہ پوزیشن اختیار کریں۔ شرط یہ ہے کہ عالمی حالات سے واقف ہوں اور درست طور پر افشاگری کریں۔
۳. جہادی جذبہ
تبلیغ میں جہادی جذبہ ضروری ہے۔
جہادی جذبے کے بغیر تبلیغ میں وہ روح نہیں ہو گی۔
اگر جہادی جذبہ نہ ہو تو انسان یا تو میدان کو غلط پہچانتا ہے یا غلط عمل کرتا ہے۔
جہادی حالت میں انسان درست دیکھتا ہے اور ہمیشہ اچھا عمل کرتا ہے۔
اگرچہ معرفتی اور اخلاقی توانائی ضروری ہے۔لیکن جہادی جذبہ بھی لازمی ہے۔
آیتِ کریمہ
وَلَا يَطَئُونَ مَوْطِئًا يَغِيظُ الْكُفَّارَ اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ کفار کو غصہ دلانے والا کام عملِ صالح ہے۔
آیت کے مطابق، مجاہد کو میدان کے بیچ میں ہونا چاہیے اور مایوس نہیں ہونا چاہیے۔
اسلامی روحانیت کو میدانِ جہاد میں رہنا چاہیے اور مایوس نہیں ہونا چاہیے۔
جب یہ جہادی عنصر علمی کام کے ساتھ ہو گا تو تبلیغ کا اثر یقینی ہو جائے گا۔
۴. جوان اور نوجوان نسل پر خصوصی توجہ
اگلا اہم نکتہ جوان اور نوجوان نسل پر خصوصی توجہ دینا ہے۔کیونکہ ملک کا مستقبل انہی کے ہاتھ میں ہے۔
**البتہ دوسرے طبقوں، جیسے اہلِ فکر، سائنسدانوں، فنکاروں، مصنفین، اور شاعروں کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔*
*ان تمام طبقوں کے لیے فکری خوراک تیار ہونی چاہیے**۔
چند سال پہلے سینما اور ٹی وی کے ڈائریکٹرز سے ملاقات میں یہ نتیجہ نکالا کہ ہم ان سے زیادہ توقع کرتے ہیں۔جب کہ ضروری معارف کا مواد ہمیں ان کو فراہم کرنا چاہیے۔
جوانوں کا ایمان مضبوط ہونا چاہیے اور ان کے ذہن شبہات سے خالی ہونے چاہییں۔
جوانی میں دین پر عملداری بہت اہم ہے۔
بعض جوانوں میں جذبہ حسینی تو ہے لیکن عبادات میں کمزور ہیں۔
جوانوں کو عبادات پر راغب کرنے کے لیے جاذبے موجود ہیں جن میں سے مسجد اور مذہبی مجالس اہم ہیں۔
*مسجدوں کو آباد رکھنا واجب کام ہے* ۔
ملک میں مساجد کی تعداد کم ہے
اور جو موجود ہیں ان میں سے بہت سی آبادنہیں ہیں۔
*مسجد کو صرف نماز کے وقت کھولنا کافی نہیں*
*اسے لوگوں کی دائمی آمدورفت کا مرکز ہونا چاہیے* ۔
موعظہ اور نصیحت سے غفلت نہیں کرنی چاہیے۔
سب کو موعظہ کی ضرورت ہے۔
جو باتیں ہم جانتے ہیں۔ کبھی کبھار سننے میں وہ اثر ہوتا ہے جو صرف جاننے میں نہیں ہوتا۔
۵. تبلیغ کے تقاضوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے حوزوی مرکز کا قیام
سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ ان ضروریات کو عملی جامہ کیسے پہنایا جائے۔
اگر ہم ضروری صلاحیت کے مطابق مبلغین اور عناصر چاہتے ہیں تو ہمیں حوزوی عظیم مراکز کی ضرورت ہے۔
حوزہ میں صرف اسی مقصد کے لیے مراکز قائم ہونے چاہییں۔
مبلغ کی تربیت۔
اس مرکز میں فکری، تحقیقی اور علمی پشت پناہی ہونی چاہیے۔
” *تبلیغ پر تکیہ” کا مطلب یہ نہ ہو کہ فقہ کے بڑے دروس (کفایہ اور درس خارج) چھوڑ دیے جائیں بلکہ ان علمی بنیادوں کے ساتھ اس شعبہ پر توجہ ضروری ہے۔*
مرکز قم ہونا چاہیے۔اور جب وہاں تجربہ ہو جائے تو اسے ملک بھر کے بڑے حوزوں میں دہرایا جا سکتا ہے۔
اس مرکز کے تین بنیادی مشن ہونے چاہییں:
جدیدتبلیغی مواد کی تیاری: جو مواد آج مناسب ہے۔ ضروری نہیں کہ کل بھی ہو۔
قرآن و سنت کے منابع گہرے اور پر مغز ہیں جو کبھی ختم نہیں ہوں گے۔
اثرانداز تبلیغی طریقوں کو ترتیب دینا: ہمارے تبلیغی طریقے محدود ہیں۔
مغربی ممالک نئے اور موثر طریقے تیار کرنے میں ہم سے آگے ہیں۔
ہمیں نئے طریقے تیار اور تعلیم دینے چاہییں۔
مبلغین کی تربیت: اس مرکز میں حقیقی معنوں میں مبلغین کی تربیت ہونی چاہیے۔ جیسے مجتہدین کی تربیت کی جاتی ہے۔
قم میں معاصر فقہ پر جو تحقیق ہو رہی ہے۔ اسی طرح مؤثر مبلغین کی تربیت ہونی چاہیے جو ہر جگہ پھیل سکیں۔
آج ملک کے اندر، یہاں تک کہ تہران کے مرکز میں بھی، روحانی مبلغین کی شدید کمی ہے۔
ایسا مرکز قائم ہونا چاہیے جو ۵ سال یا اس سے زیادہ میں نتیجہ دے












