3

احادیث کی روشنی میں امام علی (علیہ السلام) کے فضائل

  • News cod : 45103
  • 16 مارس 2023 - 14:14
احادیث کی روشنی میں امام علی (علیہ السلام) کے فضائل
 اہل سنت کے یہاں بعض موجود احادیث سے معلوم ہو تا ہے کہ حضرت علی (علیہ السلام) رسول اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ) سے قریب ترین شخص کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے

احادیث کی روشنی میں امام علی (علیہ السلام) کے فضائل

آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی
سوال: اہل سنت کی کتابوں میں پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ) سے نزدیک ترین فرد کے عنوان سے کس شخص کو شناخت کرایا گیا ہے؟
اہل سنت کے یہاں بعض موجود احادیث سے معلوم ہو تا ہے کہ حضرت علی (علیہ السلام) رسول اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ) سے قریب ترین شخص کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے۔
۱۔انس بن مالک کا بیان ہے کہ میں ایک روز رسول اسلام (ص) کی خدمت میں ایک بھنا ہوا پرندہ لے کر حاضر ہوا، رسول اسلام (ص)نے فرمایا بسم اللہ کہہ کر اس میں سے کچھ تناول فرمایا اس کے بعد دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور عرض کی بار الہا ! تو اپنے اور میرے نزدیک بہترین شخص کو میرے پاس بھیج دے ، اسی اثناء میں اچانک علی( علیہ السلام ) تشریف لائے اور دروازہ پر دستک دی میں نے دروازہ پر جا کر پوچھا کہ تم کون ہو تو انھوں نے جواب دیا میں علی(علیہ السلام) ہوں ، میں نے ان سے کہا کہ پیغمبر اسلام (ص)اس وقت مشغول ہیں ، انس بیان کرتا ہے کہ رسول اسلام (ص)نے دوسرا لقمہ لیا اور وہی دعا کی، پھر دوبارہ دق الباب ہوا میں نے پوچھا کون ہے کہا میں علی ہوں ، میں نے دوبارہ کہدیا کہ رسول اسلام (ص)کام میں مشغول ہیں اس کے بعد رسول اسلام پھر ایک اور لقمہ تناول فرمایا اور وہی دعا کی، اسی وقت بار دیگر دق الباب ہوا میں نے پوچھا کون ہے ۔انہوں نے دوبارہ بلند آواز سے فرمایا میں علی ہوں اسی اثناء میں پیغمبر اسلام (ص)نے فرمایا اے انس دروازہ کھولو ، انس بیان کرتے ہیں کہ علی (علیہ السلام) گھر میں داخل ہوگئے تو رسول اسلام (ص)نے میری اور علی (علیہ السلام )کی طرف نظریں اٹھاکے دیکھا اور علی (علیہ السلام )سے مخاطب ہو کر فرمایا میں حمد خاص کرتا ہوں اپنے پروردگار کی جو میں نے اس سے چاہا تھا اسنے مجھے دیدیا ۔ میں ہر لقمہ پر خدا سے دعا کررہا تھا کہ اے پروردگاراپنے اور میرے نزدیک اپنی مخلوق میں سے بہترین اورمحبوب ترین شخص کو میرے پاس بھیجدے اور ، تم وہی شخص ہو جس کو میں بلانا چاہتا تھا (۱)
اس حدیث شریف کواحمد بن حنبل نے اپنی کتاب فضائل الصحابہ میں (۲) ترمذی نے سنن ترمذی میں (۳) طبرانی نے المعجم الکبیر میں ّ(۴) حاکم نے اپنی کتاب المستد رک الصحیحین میں (۵) اور اسی طرح دوسرے لوگوں نے نقل کیاہے ۔
اس حدیث کا سلسلہ سنداتنا معتبر ہے کہ اہلسنت کے بعض علماء نے صراحت سے اس حدیث کی سند کو صحیح بتایا ہے جیسا کہ حاکم نیشاپوری نے اپنی کتاب (مستدرک ) اور ذھبی نے اپنی کتاب (تذکر ة الحفاظ) میں اس حدیث کے صحیح ہو نے کی تصریح کی ہے ۔
یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ علی (علیہ السلام) اللہ تعالی کے نزدیک محبوب ترین مخلوق ہیں اور علی (علیہ السلام ) کی یہ برتری اور فضیلت عام ہے جس میں انبیاء (علیہم السلام)کو بھی شامل ہے خصوصاً بعض روایات میں اس طرح سے وارد ہوا ہے (اللھمّ اتینی باحبّ خلقک الیک من الاولین و لآخرین )(۶)اے پروردگار اولین اورآخرین مخلوق میں جو تیرا محبوب ترین بندہ ہو اس کو میرے پاس بھیجدے ۔
۲۔سبط ابن جوزی نے اپنی کتاب تذکرة الخواص میں صحیح سند کے ساتھ سلمان سے نقل کیا ہے کہ رسول خد ا (ص) نے فرمایا :
کنتُ انا وَ علی بن ابی طالب نوراً بین یداللہ تعالی قبل ان یخلق آدم باربعة الآف عاماً فلما خلق آدم قسّم ذٰلک النور فجزءٌ انا و جزءٌ علی (۷)
خلقت آدم( علیہ السلام) سے چار ہزار سا ل پہلے میں اور علی بن ابی طالب ، خدا وند متعال کے نزدیک نور کی صورت میں موجود تھے جس وقت خدا وند عالم نے آدم (علیہ السلام) کے نور کو خلق کرنا چاہا تواس نور کو دو حصوں میں تقسیم کردیا کہ اسی نور کا ایک حصہ میں ور ایک حصہ علی بن ابی طالب ہیں ۔
یہ حدیث سند کے اعتبار سے کامل ہے اور اہلسنت کے علماء رجال کے اعتبار سے بھی حدیث کی سند صحیح کا درجہ رکھتی ہے ، اور یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اصحاب میں سے آٹھ لوگوں نے اس حدیث کو نقل کیا ہے ،انکے نام اس طرح ہیں :
۱۔حضرت علی (علیہ السلام) ۲۔امام حسین (علیہ السلام) ۳۔ابوزر غفاری
۴۔ جابر بن عبداللہ انصاری ۵۔ ابو ھریرہ ۶۔عبداللہ بن عباس
۷۔ انس بن مالک
تابعین میں سے آٹھ لوگوں نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور چالیس سے زیادہ اہل سنت نے اس حدیث کو اپنی معتبرکتابوں میں نقل کیا ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) نے اس حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ میں اور علی ایک ہی نور سے خلق ہوئے ہیں ؛ گویا آپ اس نکتہ کو بیان کرنا چاہتے ہیں کہ ہم فضیلت و کمال میں ایک دوسرے کے مساوی ہیں ۔
۳۔ جابر بن عبداللہ انصاری اور سعید بن مسیب نقل کرتے ہیں :
ان رسول اللہ (ص) اخی بین اصحابہ فیبقی رسول اللہ (ص) (و ابوبکرو عمر و علی علیہ السلام)فاخی بین ابی بکر و عمر و قال لعلیٍ ! انت اخی و انا اخوک ۔
ایک مرتبہ رسول اسلام نے اپنے اصحاب کے درمیان عقد اخوت قائم فرمایا جب تمام لوگوں کو ایک دوسرے کا بھائی بنا چکے تو چار شخص باقی رہ گئے ۱۔ رسول خدا، ۲ ۔ ابوبکر ، ۳ ۔ عمر ، ۴۔ علی بن ابی طالب ، پھر آپ نے عمر اور ابوبکر کے درمیا ن عقد اخوت قائم فرمایا اس کے بعد اپنے اور علی علیہ السلام کے درمیان عقد اخوت قائم فرمایااور علی علیہ السلام سے فرمایا : آج سے تم میرے بھائی اور میں تمہارا بھائی ہوں ۔
اس حدیث کو اصحاب میں سے چار لوگوں نے نقل کیا ہے جن کے نام اس طرح ہیں :
۱۔عمر بن خطاب ۲۔ انس بن مالک ۳۔ ابو ذر غفاری اور علمائے اہلسنت میں سے بھی تقریباً چالیس لوگوں نے اپنی کتابوں میں اس حدیث کونقل کیا ہے جن میں سے بعض کے نام مندرجہ ذیل ہیں : ترمذی نے جامع الصحیح میں (۸) حاکم نے المستدرک علی الصحیحین میں (۹) احمد بن حنبل نے المسند میں (۱۰)اور ان کے علاوہ دیگر علماء نے اس حدیث کو اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے ۔
گنجی شافعی نے لکھا ہے کہ یہ ” ھذا حدیث حسن ، عالی ، صحیح ، اخرجہ الترمذی فی جامعہ: فاذا اردت ان تعلم قرب منزلتہ من رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ)تامل صنعہ فی المواخاة بین الصحابة، جعل یضم الشکل الی الشکل و المثل الی المثل فیوٴلف بینھم الی ان آخی بین ابی بکرو عمر، و ادخر علیا کنفسہ و اختصہ باخوتہ۔ و ناھیک بھا من فضیلة و شرف“۔ یہ حدیث حسن ، عالی اور صحیح کا درجہ رکھتی ہے ،ترمذی نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ اگر کوئی یہ معلوم کرنا چاہے کہ رسول اسلام کے نزدیک، حضرت علی علیہ السلام کی کیامنزلت ہے تو پہلے وہ یہ ملاحظہ کرے کہ رسول خدا نے اپنے اصحاب کے درمیان عقد اخوت کس طرح قائم کیا : ہم شکل کو اس کے ہم شکل کابھائی بنایا،پھر ان کو آپس میں محبت و الفت کے ساتھ رہنے کی وصیت فرمائی، لیکن علی علیہ السلام کو اپنے ساتھ رکھا اورعلی علیہ السلام کی فضیلت و شرافت جاننے کیلئے تمہارے لئے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ)کا یہ عمل ہی کافی ہے (۱۱)۔(۱۲)
حوالہ جات: (۱)۔ ”مناقب بن المغاذل“ ،ص ۱۶۹ ،جلد ۲۰۱ ۔
(۲) ۔ فضائل الصحابہ جلد ۲ ، ص ۵۶۰، ح ،۹۴۵۔
(۳) ۔سنن الترمذی ، جلد،۵،ص ۶۳۶ باب ۲۱ ، از کتاب المناقب ۔
(۴)۔ المعجم الکبیر ٘جلد ۱ ، ص ۲۵۳ ،ح ۷۳۰ ۔
(۵) ۔ المستدرک علی الصحیحین، جلد ۳، ص ۱۳۰ و ۱۴۲ ۔
(۶)۔ المناقب المغازل ، ص ۱۶۸ و ۱۶۹ ۔
(۷) ۔ تذکرة الخواص ، ص ۴۶ ۔
(۸) ۔ الجامع الصحیح جلد ۵ ،ص ۵۹۵ ۔
(۹) ۔ المستدرک علی الصحیحین ،جلد۳ ص ۱۶ ،ح۴۲۸۹
(۱۰) ۔ المسند جلد ۱ ، ص ۳۸۱ ، ح ۲۰۴۱ ۔
(۱۱) ۔ کفایة الطالب ۔
(۱۲) ۔علی اصغر رضوانی امام شناسی و پاسخ بہ شبھات ۲ ، ص ۵۲۶ ۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=45103

ٹیگز