حوزہ علمیہ قم کے سو سالہ احیاءکی سالگرہ کے موقع پر قائد ملت جعفریہ و سرپرست شیعہ علماء کونسل پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے ایک پیغام میں اس تاریخی موقع پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے اس علمی مرکز کے امت اسلامی کی بیداری میں کردار کو سراہا۔ ان کے پیغام کا متن حسبِ ذیل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آیت اللہ علی رضا اعرافی (دامت برکاتہ)
مدیر محترم حوزہ علمیہ جمہوری اسلامی ایران
سلام علیکم ورحمۃ اللہ
حوزہ علمیہ قم کی از سرنو تاسیس کی سو سالہ سالگرہ کے موقع پر آپ کو اور اس علمی و دینی ادارہ کے اساتذہ، فضلاء، طلباء اور تمام خدمت گزاروں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
حوزہ علمیہ قم
1. پاکستان میں دورانِ تعلیم، مجھے معتبر ذرائع سے قم کے تاریخی مقام کے بارے میں معلومات حاصل ہوئیں جو عالمِ تشیع کا علمی و فکری مرکز ہے۔ اس کے علاوہ، ان طلباء سے بھی بہت سی معلومات ملیں جو اس وقت حوزہ علمیہ قم میں زیر تعلیم تھے۔ انقلابِ اسلامی سے قبل میں نے نجف اشرف میں خارج کی سطح تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد قم کا رخ کیا اور “شورائے سرپرستی طلبائے غیر ایرانی” (جو بعد میں “مرکز جهانی علوم اسلامی” اور اب “جامعۃ المصطفی” کے نام سے جانا جاتا ہے) کے تحت خارج کی تعلیم جاری رکھی۔ اس دوران مجھے قم کے علمی حلقوں کو قریب سے دیکھنے اور اس علمی مرکز کے ساتھ گہرے تعلقات استوار کرنے کا موقع ملا۔
بعد ازاں، پاکستان واپس آکر جب شیعہ امور کی قومی ذمہ داری مجھے سونپی گئی تو میں نے اس علمی مرکز کے ساتھ روابط کی اہمیت کو شدت سے محسوس کیا۔ اس دوران حوزہ علمیہ قم کی انتظامیہ کے ساتھ اچھے تعلقات قائم ہوئے، جن کے ذریعہ حوزہ علمیہ کے مختلف پہلوؤں کو بہتر طور پر سمجھنے کا موقع ملا۔ اس دوران حوزہ علمیہ کے علمی، سماجی اور ثقافتی اثرات کو مشاہدہ کرنے کا بھی قیمتی موقع ملا۔
2. شیخ عبدالکریم حائری نے اپنی قیادت میں حوزہ کی استحکام، احیاء اور ترقی کو اولین ترجیح دی۔ انہوں نے حوزوی تربیتی طریقوں کی اصلاح، فقہ میں خصوصی مطالعات کا تعارف، طلباء کے علمی معیار کو بلند کرنے اور حتیٰ کہ غیر ملکی زبانوں کی تعلیم پر زور دیا۔ اس کی وجہ سے اس زمانے میں اہل بیت (ع) کے معارف کو دنیا میں تیزی سے پھیلانے میں مدد ملی۔ ان کا بنیادی مقصد ماہر محققین اور مجتہدین کی تربیت تھا۔
شیخ حائری نے نہ تو خود کو مرجع تقلید کے طور پر پیش کیا اور نہ ہی اس کی خواہش رکھی۔ سید محمد کاظم طباطبائی یزدی کی وفات (1337 ہجری شمسی) کے بعد انہوں نے مرجعیت کے منصب کو قبول کرنے سے انکار کر دیا لیکن اپنی ذمہ داری کے احساس کی بنا پر ایران میں قیام کو ترجیح دی۔ اس کے باوجود، ان کی شہرت نے ایران اور دیگر ممالک سے ان کے حامیوں کو قم کی طرف کھینچا۔ اگرچہ شیخ حائری عام طور پر سیاسی مداخلت سے گریز کرتے تھے اور “انقلابِ مشروطہ” جیسے معاملات سے دور رہے لیکن ان کے ممتاز سماجی مقام نے بالآخر انہیں سیاسی امور میں حصہ لینے پر مجبور کیا۔ 1314 ہجری شمسی میں انہوں نے شاہی حکومت کی “کشف حجاب” کی پالیسی کی مخالفت کی، جس کی وجہ سے رضا شاہ کے ساتھ ان کے تعلقات زندگی بھر کشیدہ رہے۔
شیخ حائری کی میراث میں امام خمینی، محمدعلی اراکی، سید محمد رضا موسوی گلپایگانی، شریعتمداری اور خوانساری جیسے مؤثر فقہاء کی تربیت شامل ہے۔ انہوں نے سماجی بہبود کے منصوبوں میں بھی حصہ لیا۔
ان کی تبلیغی تاثیر یہ تھی کہ ان کے شاگرد دنیا بھر سے حوزہ علمیہ قم کی طرف رجوع کرتے تھے اور علمی تکمیل کے بعد اپنے اپنے علاقوں میں بہت مؤثر ثابت ہوئے۔ ان کے اثرات کو تاریخی صفحات میں دنیا کے مختلف خطوں جیسے شبهِ قارہ ہند، افریقہ، یورپ اور حتیٰ کہ لاطینی امریکا میں دیکھا جا سکتا ہے۔ البتہ، انقلابِ اسلامی کی کامیابی کے بعد یہ اثرات کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔
آیت اللہ العظمی سید حسین بروجردی (رح) جو سید علی طباطبائی کے فرزند تھے، شیخ حائری کی وفات کے بعد مراجع ثلاثہ (حجت، خوانساری، صدر) کی دعوت پر 1393 ہجری قمری (1323 ہجری شمسی) میں قم آئے اور حوزہ علمیہ قم کی قیادت سنبھالی۔ وہ سترہ سال تک حوزہ علمیہ قم کے زعیم اور پندرہ سال تک عالمِ شیعہ کے مرجع رہے۔ آیت اللہ بروجردی کے مقام و مرجعیت کو مستحکم کرنے میں امام خمینی (رح) کا کردار بھی نمایاں تھا۔
حوزہ علمیہ قم میں آیت اللہ بروجردی کی آمد سے علمی رونق اور ترقی
آیت اللہ بروجردی کے حوزہ علمیہ قم میں تشریف لانے سے اس کی رونق میں اضافہ ہوا، علمی جوش و خروش دگنا ہو گیا، اور اس کی علمی بنیادیں مزید مضبوط ہوئیں۔ آپ کے دورِ زعامت میں کیے گئے اقدامات سے واضح ہوتا ہے کہ آپ نے حوزہ کی حفاظت اور تقویت کو اپنی اولین ترجیح دی۔
– جب آیت اللہ بروجردی 1326 ہجری شمسی میں قم آئے، تو درس خارج فقہ و اصول صرف چند محدود اساتذہ تک ہی تھا، جن میں خود آیت اللہ بروجردی، آیت اللہ حجت، آیت اللہ فیض، آیت اللہ خوانساری اور آیت اللہ صدر شامل تھے۔
– لیکن آپ کی وفات تک درس خارج کے اساتذہ کی تعداد بڑھ کر کئی درجن تک پہنچ گئی، جن میں سے ہر ایک کے 20 سے 250 تک شاگرد تھے۔
– ان کی وفات کے بعد شیخ حائری کے ممتاز شاگردوں جیسے شیخ محمد علی اراکی، سید محمدرضا گلپایگانی، سید محمد داماد (امام خمینی کے داماد)، سید کاظم شریعتمداری، اور سید شہاب الدین مرعشی نجفی نے بھی حوزہ قم میں درس خارج پڑھانا شروع کیا۔
علمی اصلاحات اور بین الاقوامی کوششیں
– آیت اللہ بروجردی نے فقہی تحقیق و تدریس کا ایک نیا اسلوب متعارف کرایا جو قم میں پہلے نہیں دیکھا گیا تھا۔ اس سے ایک نسلِ نو نے جنم لیا، جو بعد میں حوزہ کے اساتذہ اور مراجع بنے۔
– آپ نے شیعہ حدیثی، فقہی اور رجالی کتب کی تحقیق و اشاعت پر بڑی توجہ دی۔
– طلباء کو فقہی مسائل کی بنیادی تحقیق پر زور دیا گیا کہ ہر مسئلہ کب اور کیوں اسلامی فقہ میں داخل ہوا۔
– بین الاقوامی سطح پر، آپ نے علماء کو مختلف ممالک میں بھیجا، جیسے:
– مدینہ کے لیے سید محمد تقی طالقانی آل احمد (پھر سید احمد لواسانی اور شیخ عبدالحسین فقہی رشتی)۔
– کویت کے لیے سید زین العابدین کاشانی۔
– زنگبار کے لیے سید محمد حسن ناشر الاسلام شوشتری۔
– پاکستان کے لیے شریعت زادہ اصفہانی۔
– امریکہ کے لیے مہدی حائری یزدی۔
– یورپ کے لیے صدر بلاغی کو اپنا نمائندہ مقرر کیا۔
– آپ نے دارالتقریب بین المذاہب الاسلامیہ (مصر) کے قیام میں شیخ محمد تقی قمی کی حمایت کی، جس کے نتیجے میں شیخ محمود شلتوت (شیخ الازہر) نے 1337 ہجری شمسی میں جعفری مذہب کو اہل سنت کے دیگر فقہی مذاہب کے برابر تسلیم کیا۔
امام خمینی (رح) کا حوزہ علمیہ پر گہرا اثر
امام خمینی (رح) نے اپنی عمیق سیاسی بصیرت کے ذریعہ حوزہ علمیہ قم کو ایک نئی جہت دی۔ آپ نے فقہ پویا یا متحرک (Dynamic Jurisprudence) پر زور دیا، جو جدید دور کے مسائل کا حل پیش کر سکے۔ انقلابِ اسلامی کی کامیابی کے بعد:
– اسلامی احکام کو ریاستی قوانین کی شکل دی گئی۔
– سیاسی و حکومتی فقہ پر تحقیق کا نیا دور شروع ہوا۔
– مغربی علمی مراکز نے اسلامی انقلاب کے علمی اثرات کو تسلیم کیا اور اسلام کو دیگر مذاہب سے ممتاز قرار دیا۔
– امام خمینی (رح) کی تحریک سے عظیم مفکرین اور علماء نے جنم لیا، جنہوں نے قیمتی علمی آثار تخلیق کیے۔
آیت اللہ خامنہ ای (مدظلہ) کی قیادت میں حوزہ کی ترقی
امام خمینی (رح) کے بعد، ان کے جانشین آیت اللہ خامنہ ای (مدظلہ) نے بھی حوزہ علمیہ کی ترقی کو جاری رکھا:
– جدید علوم اور فقہ پویا پر زور دیا۔
– حوزہ اور یونیورسٹی کے درمیان روابط کو مضبوط بنایا جو دنیا کا ایک منفرد علمی مرکز ہے۔
– نئی تحقیقات اور علمی مباحث کو فروغ دیا۔
انقلاب سے پہلے اور بعد کا حوزہ
– انقلاب اسلامی سے پہلے حوزہ علمیہ سیاسی دباؤ اور شاہی نظام کے خلاف جدوجہد میں مصروف تھا، جس کی وجہ سے علمی و تحقیقی سرگرمیاں انتہائی محدود تھی۔
– انقلاب کے بعد، حوزہ کو نئی آزادی اور جہت ملی، جس سے:
– عمیق علمی مباحث کا آغاز ہوا۔
– حکومت اور اسلامی قوانین پر تحقیق کو فروغ ملا۔
– انسانی علوم اور جدید فقہ میں تیزی سے ترقی ہوئی۔
نتیجتاً حوزہ علمیہ قم آج امتِ اسلامی کی وحدت اور بیداری کا مرکز ہے، جو علم و اجتہاد کی روشنی میں پوری دنیا کو راہنمائی فراہم کر رہا ہے۔
5۔ حوزہ علمیہ قم: علومِ اہل بیتؑ کا عالمی مرکز
عراق میں بعث پارٹی کے ظالمانہ دور میں جب حوزہ علمیہ نجف پر شدید دباؤ ڈالا گیا تو حوزہ علمیہ قم نے علومِ اہل بیتؑ کے عالمی مرکز کی حیثیت اختیار کر لی۔ دنیا بھر سے طلباء قم کا رخ کرنے لگے تاکہ یہاں سے فیض یاب ہو کر اپنے اپنے علاقوں میں لوگوں کو نہ صرف معارف اہل بیتؑ سے روشناس کرائیں، بلکہ انقلاب اسلامی کے علمی و فکری محصولات سے بھی آگاہ کریں۔ انہوں نے اسلام کے سیاسی، معاشی اور سماجی نظریات کو عقلی دلائل اور جدید اسلوب میں پیش کیا جو بنی نوع انسان کی نجات کے تمام تقاضوں پر پورا اترتا ہے۔
الحمدللہ، اس حوزہ سے فیض یاب ہونے والوں نے اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھائیں اور اس کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا۔ آج حوزہ علمیہ قم کا اثر دوسرے ممالک کے مفکرین اور عوام پر اتنا گہرا ہے کہ علمی و تہذیبی حلقوں میں دینی مکالمہ دوبارہ زندہ ہو گیا ہے۔ یہ حوزہ علمیہ قم کا ایک عظیم کارنامہ ہے کہ مادہ پرست تہذیبیں اپنی خالی روحانی بنیادوں کو محسوس کرنے لگی ہیں اور اپنے نظاموں پر نظرثانی پر مجبور ہو گئی ہیں۔
ہم نے اپنے ملک (پاکستان) میں بھی دیکھا کہ جو لوگ کبھی تشیع کے سخت دشمن تھے اور شیعوں کو تکفیر کا نشانہ بناتے تھے، آج جمہوری اسلامی ایران کے مثبت اور تعمیری کردار کی تعریف کر رہے ہیں۔
6۔ حوزہ علمیہ قم کا عالمی رابطہ: سالانہ کانفرنسز اور مکالمہ
حوزہ علمیہ قم کا سب سے اہم عالمی پہلو سالانہ کانفرنسز ہیں، جہاں دنیا بھر سے مسلم دانشور، ہفتہ وحدت اور دیگر مواقع پر جمع ہوتے ہیں۔ یہ اجتماعات امتِ اسلامیہ کے مسائل پر غور و خوص کرتے ہیں اور ان کے حل کے لیے راہیں تلاش کرتے ہیں۔
7۔ حوزہ علمیہ قم کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے تجاویز
بین الاقوامی تعاون کو فروغ
– دنیا بھر کے علمی مراکز کے ساتھ مشترکہ تحقیقی پروگرامز اور تربیتی ورکشاپس کا انعقاد۔
– دیگر اسلامی یونیورسٹیوں کے ساتھ تعلیمی نصاب کی ہم آہنگی۔
– علوم اہل بیتؑ کے طالبین کے لیے لائبریریوں، تحقیقی لیبز اور علمی وسائل تک رسائی کو آسان بنانا۔
علمی تحقیق اور اشاعت
– بین الاقوامی سطح پر علمی جرائد کا اجراء۔
– نظریہ پردازی کے پلیٹ فارمز کا قیام۔
– اساتذہ اور طلباء کے تبادلے کو فروغ دینا تاکہ فکری تنوع بڑھے۔
ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کا استعمال
– آن لائن کانفرنسز، ویبینارز اور سوشل ڈائیلاگز کا انعقاد۔
– فارغ التحصیل طلباء کے ساتھ روابط اور حمایت کو مستحکم کرنا۔
زبان و ثقافت کی ترویج
– اسلامی ممالک میں فارسی زبان کو فروغ دینا۔
– فارسی اور دیگر زبانوں کے درمیان علمی تعاون کو منظم کرنا۔
حوزہ علمیہ قم نے گزشتہ ایک صدی میں امتِ اسلامیہ کی علمی و فکری قیادت کی ہے۔ آج بھی یہ مرکز وحدتِ امت، بیداریِ اسلامی اور جدید چیلنجز کا حل پیش کرنے میں پیش پیش ہے۔ ہمیں امید ہے کہ مستقبل میں بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا، ان شاءاللہ۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ
سید ساجد علی نقوی
سرپرست شیعہ علماء کونسل پاکستان