وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر آیت اللہ سید حافظ ریاض حسین نجفی نے حوزہ علمیہ قم کی سو سالہ جشنِ سالگرہ پر ایک پیغام میں حوزہ علمیہ قم کو عالمی سطح پر ایک منفرد علمی درسگاہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ آیت اللہ حائری کی برکت سے حوزہ علمیہ قم، ایک عظیم علمی مرکز بن گیا۔
آیت اللہ سید حافظ ریاض حسین نجفی کے پیغام کا متن مندرجہ ذیل ہے:
بسم الله الرحمن الرحيم
الحمدلله رب العالمین، والسلام علیٰ رسول الله و اله المعصومین
حضرت آیت اللہ حائری نے ۱۳۴۰ھ میں حضرت معصومہ (سلام اللہ علیہا) کی زیارت کے لیے اراک کے علمی مرکز سے قم کا سفر کیا۔ شہر کے علما و بزرگان نے آپ سے گزارش کی کہ آپ قم تشریف لائیں، تاکہ آپ کی موجودگی سے یہ شہر ایک علمی مرکز میں تبدیل ہو جائے۔ آپ نے فرمایا کہ استخارہ کے بعد فیصلہ کروں گا۔ استخارہ قرآن کریم سے کیا گیا، اور جواب میں یہ آیت آئی: “وَأْتُونِي بِأَهْلِكُمْ أَجْمَعِينَ”
(سورۃ یوسف، آیت 93) اس استخارے کے بعد آپ نے یقینی طور پر قم میں اقامت کا فیصلہ کیا۔ یوں حوزہ علمیہ قم ایک عظیم علمی مرکز بن گیا۔ آیت اللہ حائری نے 1355ھ میں وفات پائی۔
ان کے بعد حوزہ علمیہ قم کو استحکام دینے والی دوسری شخصیت حضرت آیت اللہ بروجردی تھے۔ آپ علما و مراجع کی درخواست پر قم تشریف لائے اور حوزے کو علمی و سیاسی لحاظ سے ترقی دی۔
علمی خدمات
آپ نے فقہی استنباط میں انقلاب برپا کیا۔
ہر مسئلے میں قدما کے نظریات بیان کیے۔
فقہی استنباط میں اہل سنت علماء و فقہا کے اقوال کا بھی ذکر کیا۔
آپ نے قدیم روایات کو اہمیت دی اور راویوں کی درجہ بندی کی۔
آپ نے منصوص اور غیر منصوص مسائل کے درمیان فرق کیا۔
آپ کی عظیم علمی خدمت کتاب “جامع الاحادیث الشیعہ” کی تالیف ہے، جو ایک عظیم الشان کام ہے۔
سیاسی و سماجی خدمات:
(الف) داخلی خدمات:
حوزہ علمیہ قم کی از سر نو تعمیر و تقویت
قم اور دیگر شہروں میں مدارس کا قیام
مسجد اعظم قم کی تعمیر
ایک عظیم کتب خانہ کا قیام
درجنوں دیگر خدمات
(ب) عالمی سطح پر خدمات:
نجف اشرف میں ایک عظیم مدرسے کا قیام
جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں اسلامی مرکز کا قیام
پاکستان میں عظیم خدمت
پاکستان سے حاجی محمد طفیل 10 ہزار روپے وجوہات لے کر آیت اللہ بروجردی کی خدمت میں پہنچے۔ نجف میں وہ علامہ سید صفدر حسین نجفی کے دوست، سید امیر حسین نقوی سے ملے اور معاملہ ان کے ساتھ طے کیا۔ پھر علامہ صفدر حسین نجفی، شیخ الجامعہ علامہ اختر عباس نجفی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ علامہ اختر عباس نے پاکستان جانے کے لیے دو شرائط رکھیں:
آیت اللہ بروجردی کی نمائندگی
یہ شرائط آیت اللہ بروجردی کو پہنچائی گئیں۔ جب آپ کو پاکستان کی حالت کا علم ہوا (کہ لاہور سے پاراچنار تک صرف دو شیعہ مساجد تھیں)، تو آپ نے ناراضگی کا اظہار کیا اور وجوہات کے ساتھ مزید رقم علامہ اختر عباس کو دی۔ انہوں نے لاہور میں جامعۃ المنتظر کا قیام کیا، جو آیت اللہ بروجردی کی ملت پاکستان کے لیے ایک عظیم خدمت ہے۔
آیت اللہ بروجردی نے امت مسلمہ کے اتحاد کے لیے جامعۃ الازہر کے سربراہ شیخ شلتوت سے روابط قائم کیے، جس کے نتیجے میں فقہ جعفریہ پر عمل کو عالم اسلام میں جائز قرار دیا گیا۔ آپ نے حوزہ علمیہ کی خودمختاری اور مرجعیت کے تحفظ کے لیے بہت اہم کردار ادا کیا۔
سیاسی بصیرت
ایران کے شاہ نے جب ملاقات کا وقت مانگا، آپ وقت پر حرم حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا تشریف لائے، لیکن شاہ نہ آیا، تو آپ واپس لوٹ گئے۔ جب شاہ ایران اور عراق کے صدر عبد الرحمٰن عارف نے آیت اللہ محسن الحکیم سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی، تو ان کی خواہش تھی کہ وہ ان کے گھر جا کر ملاقات کریں، لیکن عراقی حکومت کے زوال کے باعث ملاقات نہ ہو سکی۔
آپ نے ایسے شاگرد تیار کیے جنہوں نے اسلامی انقلاب میں بھرپور کردار ادا کیا۔ ان شاگردوں نے امام خمینیؒ کی قیادت میں انقلاب اسلامی برپا کیا، اور حوزہ علمیہ قم کو بین الاقوامی سطح پر ممتاز مقام دلایا۔
امام خمینیؒ کا دور
انقلاب کی کامیابی کے بعد، امام خمینیؒ نے حوزہ علمیہ قم کو عالمی مرکز بنایا۔ آپ نے جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ (بین الاقوامی دینی مرکز) جامعۃ الزہراء (خواتین کے لیے حوزہ علمیہ) کا قیام کیا، جس میں پاکستان سمیت دنیا بھر سے طلباء و طالبات نے آکر تعلیم حاصل کی۔ یورپ اور امریکہ سے بھی طلبہ آئے اور انہوں نے اپنے ممالک میں اسلامی مراکز قائم کیے۔ رہبر معظم انقلاب ان فارغ التحصیل طلبہ سے بہت امیدیں وابستہ رکھتے ہیں۔
قم اور جامعۃ المنتظر لاہور کا رابطہ
جیسا کہ ذکر ہوا، آیت اللہ بروجردی کی سرپرستی میں جامعۃ المنتظر لاہور کا قیام ہوا۔ انقلاب اسلامی کے دوران یہ ادارہ امام خمینی کی حمایت میں پیش پیش رہا۔ حضرت علامہ سید صفدر حسین نجفی نے امام خمینیؒ کی شخصیت کو پاکستان میں متعارف کرایا، ان کی رسالہ عملیہ، کتاب “حکومت اسلامی” اور “جہادِ اکبر” کا اردو ترجمہ کیا تاکہ پاکستان کے عوام و نوجوان امام خمینیؒ اور اسلامی انقلاب سے آشنا ہوں۔
انقلاب کے بعد، امام خمینیؒ کی دعوت پر آیت اللہ طاہری خرم آبادی کو لاہور بھیجا گیا، جہاں پہلی بار درس خارج فقہ شروع ہوا۔ بعد میں آیت اللہ فاضل لنکرانی کے اصرار پر، میں نے 1997ء میں اردو زبان میں درس خارج اصول شروع کیا، جو آج بھی جاری ہے۔ یہ سب حوزہ علمیہ قم کے جامعۃ المنتظر سے تعاملات کا نتیجہ ہے۔
نمایاں کامیابیاں:
جامعۃ المنتظر کے فارغ التحصیل طلبہ ایران میں انقلاب کے بعد عدالتی نظام میں قاضی کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔ ممتاز عالم حجۃ الاسلام والمسلمین سید نیاز حسین نقوی نے 29 سال تک مختلف صوبوں میں عدالتوں کی سربراہی کی۔ ان کی خدمات کے پیش نظر، میں نے بارہا رہبر معظم انقلاب اسلامی سے درخواست کی کہ انہیں واپس جامعۃ المنتظر کے لیے روانہ کیا جائے۔ تیسری ملاقات میں، مشہد مقدس میں، رہبر معظم نے اجازت دی۔
یہ سب حوزہ علمیہ قم کی برکات ہیں۔ ہم دعا گو ہیں کہ یہ حوزہ دشمنوں کے شر سے محفوظ رہے اور ظہورِ حضرت بقیۃ اللہ الاعظم (عج) تک باقی رہے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
حافظ سید ریاض حسین نجفی، صدرِ وفاق المدارس الشیعہ پاکستان و سربراہ حوزہ علمیہ جامعۃ المنتظر لاہور