14

مری نگاہ نہیں، سوئے کوفہ و بغداد

  • News cod : 10366
  • 12 فوریه 2021 - 9:06
مری نگاہ نہیں، سوئے کوفہ و بغداد
مادہ پرست تہذیب علامہ اقبال کو ایک لمحے کے لئے بھی دھوکہ نہ دے پائی، اور آپ نے ان آدم کُشوں کے بارے مستقبل کے حوالے سے حیرت انگیز پیشن گوئیاں کیں

حکیم الامت کے محضر میں

تحریر: محمد اشفاق
کریں گے اہل نظر – تازہ بستیاں آباد
مری نگاہ نہیں، سوئے کوفہ و بغداد
اپنے زمانے کے حالات پر نظر رکھنا، اپنے اردگرد کے ماحول سے خود کو آگاہ کرنا، اور حالاتِ حاضرہ سے گہری واقفیت کسی بھی با ہدف، دور اندیش اور انسانی معاشرے کے لئے درد رکھنے والے انسان کے لئے بہت ضروری ہے، بندہ مومن اپنے آپ کو صرف عبادات، معاشرے میں نیکی کو فروغ دینا، اور انسانیت کی خدمت تک محدود نہیں کرتا، بلکہ وہ ان عظیم کاموں کے ساتھ ساتھ اپنے زمانے کے حالات سے بخوبی واقفیت رکھتا ہے، ان کا تجزیہ اور تحلیل کرتا ہے، اور پھر ان کے نتائج میں غور و فکر کرکے مستقبل کے لئے ایسی منصوبہ بندی کرتا ہے، جو اسلامی معاشرے کی ترقی، پیش رفت، قوت و طاقت، اور شان و شوکت کی ضمانت دے، اپنے ارد گرد کے حالات سے گہری واقفیت ہی انسان کو دوست اور دشمن میں تمییز سکھاتی ہے، اسے دشمنوں کی چالوں، منصوبوں اور سازشوں سے آگاہ کرتی ہے، اور اسے آنے والے واقعات کے بارے خبردار کرتی ہے، تاکہ وہ پہلے سے ان حالات و واقعات کا سامنا کرنے کے لئے مناسب تیاری کر سکے۔
اسی تناظر میں امام صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: {العارف بزمانه لا تهجم عليه اللوابس}، اپنے زمانے کو جاننے اور پہچاننے والے کے اوپر شبہات ہجوم نہیں کرتے۔ یعنی اپنے زمانے کی معرفت رکھنے والا، اس کے نشیب و فراز، حساس حالات، کٹھن مراحل، مشکل گھڑیوں، اور شبہات کے سامنے پریشان نہیں ہوتا، ان سے مغلوب نہیں ہوتا، اور دشمن کی سازشوں سے دھوکہ نہیں کھاتا، کیونکہ حالات سے درست آگاہی، مومن کو دوست اور دشمن سے اچھی طرح سے روشناس کر دیتی ہے، اور اس کے سامنے دشمن کے ارادے کشف کرتی ہے، اور اس کی سازشوں سے نقاب الٹ دیتی ہے، ایسی صورت میں کسی دشمن کی کوئی بھی چالاکی مومن کو دھوکہ نہیں دے پاتی، اور وہ مردانہ وار ان کے خلاف پرچمِ مبارزت بلند کرتا ہے، اور رزمِ حق و باطل میں، یا تو مومن کے سر پر کامیابی کا سہرا باندھا جاتا ہے، یا پھر وہ شہید ہو کر لقاء اللہ کے بلند ترین مقام سے شرف یاب ہو جاتا ہے، انہیں دو مقامات کو روایت نے إحدی الحسنیین سے تعیبیر کیا ہے۔
شاعرِ مشرق، نباضِ فطرت، حکیمُ الامت علامہ محمد اقبال (رحمہ اللہ) انہی عظیم الشان اہلِ علم و معرفت افراد میں سے تھے، جو اپنے زمانے کو خوب پہچانتے تھے، حالاتِ حاضرہ پر گہری نظر رکھتے تھے، اور ارد گرد کے ماحول سے خوب واقف تھے، یہی وجہ ہے، کہ یورپ میں رہتے ہوئے بھی، اور وہاں کی یونیورسٹیوں میں پڑھنے کے باجود بھی، آپ افرنگیوں سے بالکل بھی متاثر نہیں ہوئے، ان کی مادہ پرست تہذیب آپ کو ایک لمحے کے لئے بھی دھوکہ نہ دے پائی، اور آپ نے ان آدم کُشوں کے بارے مستقبل کے حوالے سے حیرت انگیز پیشن گوئیاں کیں، اور ساتھ بر صغیر پاک و ہند میں موجود مسلمانوں کو بھی اپنی مستقبل شناس نظروں کی بدولت انہیں ایک ایسے ملک بننے کی خبر دی، جو آپ کی رحلت کے 9 سال بعد معرضِ وجود میں آیا۔

اس شعر کو علامہ صاحب کے بعض شارحین اسی تناظر میں پڑھتے ہیں، اور اس بات پر تاکید کرتے ہیں، کہ اس سے مراد مملکتِ خداداد پاکستان ہے، کیونکہ تازہ بستیوں سے مراد بغداد، یا کوفہ، یا کوئی اور جگہ نہیں، لہذا پہلا مصرعہ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کی طرف اشارہ ہے، اب علامہ صاحب کی مراد جو بھی ہو، لیکن ایک بات طے ہے کہ آپ ایک مستبقل شناس، بالغ نظر، دور اندیش، اور الہامی شاعر اور مفکر تھے، آپ نے لیگ آف نیشن کی بربادی کا عندیہ دیا، جو دوسری جنگ عظیم کے بعد ختم ہو گئی، مشرق میں بیداری کا اشارہ دیا، بعد میں بر صغیر پاک و ہند میں پاکستان کی آزادی، اور ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی اس بیداری کی دلیل بنی، تہران کے بارے کہا:
طہران ہو – گر عالمِ مشرق کا جینوا
شاید کرہءِ ارض کی تقدیر بدل جائے
اور ایسے دسیوں اشعار موجود ہیں، جو اس بات پر روشن دلیل ہیں، کہ خدا نے آپ کو بے پناہ بصیرت، اور مستبقل شناس نظریں عنایت کی تھیں، افسوس یہ ہے کہ آپ پاکستانیوں اور مسلمانوں میں ہی نہیں پہچانے گئے، اور جن کو بیدار کرنے کے لئے آپ نے حکمت و معرفت سے بھر پور شعر کہے، ان میں بیشتر کے درمیان آپ اجنبی ہیں۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=10366