14

حکمرانو! پاکستان میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے والوں کو لگام دو

  • News cod : 1324
  • 03 سپتامبر 2020 - 2:51
حکمرانو! پاکستان میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے والوں کو لگام دو

وطن عزیز پاکستان میں فرقہ واریت کی جنگ کوئی نئی بات نہیں، عرصہ دراز سے فرقہ واریت کی آگ میں پاکستانی مسلمان جل رہے […]

وطن عزیز پاکستان میں فرقہ واریت کی جنگ کوئی نئی بات نہیں، عرصہ دراز سے فرقہ واریت کی آگ میں پاکستانی مسلمان جل رہے ہیں۔

اس ملک میں مذہبی تعصب ختم ہونے کا نام لے رہا ہے، جس سے اس ملک کے مکینوں کے جانی و مالی ایسے نقصانات ہوئے جو شاید قابل جبران نہیں۔ پاکستان کی امنیت اور سالمیت کے دشمنوں نے پوری منصوبہ بندی کے تحت مسلمانوں کو گروہ در گروہ میں تقسیم کیا، ان کے اتحاد کا شیرازہ بکھیر دیا، انہیں ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا، ان کی عقل اور شعور پر جذبات کا غلاف چڑھا دیا، ان کی سوچنے اور سمجھنے کی قوت پر پردہ ڈالا، ان سے بصیرت اور نفع و نقصان کے درمیان تمییز پیدا کرنے والی صلاحیت چھین لی اور انہیں دوبارہ غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا۔
بدون تردید پاکستان کی سرزمین پر ضیاء الحق کے دور حکومت میں فرقہ واریت کو عروج ملا، اس نے اپنی حکمرانی کی طاقت سے بہت سوء استفادہ کیا، اس نے اپنے مفادات کے حصول کی خاطر آل سعود  کے اشارے پر وطن امن پاکستان میں ناصبیت اور وہابیت کو مسلمانوں کے درمیان پھلنے پھولنے کا بھرپور موقع فراہم کر دیاـ چنانچہ مسلمانوں پر کفریہ فتوے جڑنے والے ناصبی ٹولے نے آہستہ آہستہ پاکستان میں اپنے پنجے مضبوط کئے۔ مدارس کا جال بچھایا، جن میں بچوں کو جعلی احادیث اور قرآن کی تفسیر بالرائے کی خشک تعلیم دینے کے ساتھ دہشگردی کی اچھی طرح تربیت دینے میں شب وروز کام کیا، در نتیجہ ایسے مدارس سے فارغ ہونے والے طلباء کی اکثریت نے شوق جہاد اور حوران جنت کے لالچ میں عزاداری کی جلوسوں، عید میلاد النبی و جمعہ کے اجتماعات سمیت قومی و ملی اداروں اور تعلیمی و تجارتی مراکز کو نشانہ بناکر لاتعداد بے گناہ مسلمانوں کے خون ناحق سے اپنے نجس ہاتھوں کو رنگین کیا، جس کا سلسلہ شدت و ضعف کے فرق کے ساتھ بدستور جاری ہے۔
 یاد رہے کہ یہی ٹولہ داعش کو وجود میں لایا تھا، جس کی سرپرستی آل سعود اور امریکہ کر رہے تھے، لیکن گروہ داعش کو شام، یمن اور عراق کی جنگوں میں جب ذلت آمیز شکست ہوئی، تب سے ناصبیوں کی نیندیں حرام ہوئی ہیں اور وہ ایک پل کے لئے بھی سکون محسوس نہیں کر رہے ہیں۔ چنانچہ حسینیت کے ہاتھوں داعش کی ہر جگہ ہونے والی پسپائیوں نے ایک بار پھر کربلا اور حسین (ع) کے ماننے والوں کے خلاف اس ٹولے کو اپنی ناکام زور آزمائی کا مظاہرہ کرنے پر مجبور کر دیا۔ گرچہ وہ حسینیت کے خلاف محاذ آرائی کرنے کے لئے ہمیشہ موقعے کی تلاش میں رہتے ہیں، وہ شیعوں کی اقلیت اور اپنی اکثریت پر ناز کرتے ہوئے پاکستان کی سرزمین پر آئین پاکستان کی کھلی مخالفت کرتے ہوئے حسینیوں سے آزادی رائے و بیان چھین کر انہیں اپنی خواہشات کا تابع بنانے کے درپے رہتے ہیں۔ وہ بیچارے اس بات سے یکسر غافل رہتے ہیں کہ کربلا میں 72 نفر تیس ہزار سے زیادہ تعداد پر مشتمل لشکر اعداء سے مقابلہ کرکے ہمیشہ کے لئے امر ہوگئے ہیں۔
حادثہ کربلا کے بعد تحریک کربلا دنیا بھر کی تحریکوں کے لئے منارہ نور ثابت ہوئی ہے۔ چنانچہ آج بھی حسین، کربلا اور عزاداری کے نام سے یزیدیت پر لرزہ طاری ہوتا ہے، جبکہ دوسری طرف یزید کا نام رہتی دنیا تک کے لئے دشنام بن گیا اور ہر باشعور مسلمان اس پر صبح و شام لعنت بھیجنے کو اپنی روح کی تسکین کا باعث سمجھتا ہے۔ پاکستان کی سرزمین پر نواسہ رسول کی عزاداری شروع ہوتے ہی تکفیری اور ناصبی گروہ کی جنونیت نے ایک بار پھر سر اٹھایا ہے، یہ ٹولے مذہبی منافرت اور فرقہ واریت کو بام عروج پر پہنچانے کے لئے مختلف بہانوں کا سہارا لے رہے ہیںـ اس مزموم شیطانی عزم و ارادے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے انہوں نے محرم سے پہلے تحریک لبیک پاکستان کے چیئرمین مولوی اشرف عاصف جلالی کو متحرک کرکے رسول خدا ؐ کی عظیم بیٹی، سردار جوانان جنت کی عصمت و طہارت کی مالکہ ماں حضرت فاطمہ الزھرا (س) کی عصمت کے حوالے سے بکواسات بکوائے، اس شنیع حرکت پر بلا تفریق شیعہ و سنی تمام مسلمانان جہاں نے اس پر لعنت بھیجی، در نتیجہ وہ رسوا ہوا۔
اس کے بعد انہوں نے بڑی ڈھٹائی سے شان صحابہ کی گستاخی کی تہمت شیعوں پر لگائی اور کہا کہ یہ لوگ صحابہ کی منزلت کے قائل نہیں وغیرہ اس حوالے سے اتنا عرض کرنا کافی ہوگا کہ بحث اس میں ہے کہ کیا تمام صحابہ عادل تھے یا بعض صحابہ عادل نہیں تھے؟ اہل سنت تمام صحابہ کو عادل کہتے ہیں، شیعہ تمام صحابہ کی عدالت کے قائل نہیں بلکہ اصحاب میں سے جو قابل اعتماد تھے، حق پر تھے، جیسے عمار یاسر، مقداد، بلال، ابوذر و۔۔۔۔۔ ان سے شیعہ دینی تعلیمات لیتے ہیں، ان کا احترام کرتے ہیں، ان کی گفتار، رفتار اور کردار کو اپنے لئے آئیڈیل سمجھتے ہیں۔ لیکن مخالف لوگ شیعہ دشمنی میں یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ شیعہ اصحاب کی شان میں گستاخی کرتے ہیں، شیعہ اصحاب کے دشمن ہیں، شیعہ اصحاب سے بغض رکھتے ہیں و۔۔۔۔۔ اس نامطلوب ہدف تک رسائی کے لئے وہ بعض ضعیف اور غیر معتبر چیزوں اور خود ساختہ تفسیروں کا سہارا لیتے ہیں۔ ستم ظریفی کی انتہاء یہ ہے کہ انہیں تعصب اور شیعہ دشمنی کی وجہ سے اصحاب کے بارے میں شیعہ کتابوں میں موجود وہ مطالب نظر نہیں آتے، جو اصحاب کی شان میں ہیں۔
حتیٰ شیعہ دشمنی میں انہیں اپنی کتابوں میں ہی اصحاب کے بارے میں موجود وہ مطالب نظر نہیں آتے، جنہیں یہ شیعوں کی طرف نسبت دے کر شیعوں کے خلاف لوگوں کو اکساتے رہتے ہیں۔۔۔۔ بعنوان مثال:
1۔ اصحاب میں سے بعض کا بدعتی، مرتدد اور جہنمی ہونا: [بخاری کتاب الرقاق باب، کیف الحشر، باب فی الحوض/صحیح مسلم کتاب فضائل باب اثبات خوض نبینا [ص]
2۔ اصحاب کا پیغمبر کی نافرمانی کا مرتکب  ہونا: [سنن بن ماجہ کتاب المناسک، باب فسخ الحج/سنن نسائی، کتاب عمل الیوم و الیل، بات مایقولاذا رای الغضب فی وجہہ/۔ مسند احمد، مسند الکوفیین، حدیث براء بن عاذب۔] صحیح بخاری، کتاب العلم، باب کتابۃ العلم۔
3۔ بعض اصحاب کا شرابی ہونا:السنن الکبرىللبیہیقی، کتاب الاشربہ و الحد، باب ما جاء فی وجوب الحد/المصنف لعبد الرزاق، کتاب الاشربہ، کتاب، شرب فی رمضان/مسند احمد، مسند الانصار، حدیث بریدہ اسلمی۔/مصنف ابن أبی شیبہ، کتاب الامراء، باب ماذکر فی حدیث الامراء]
4۔ بعض اصحاب کا بعض کو گالی دینا: [سنن بن ماجہ کتاب ،فضل علی بن ابی ظالب /مصنف ابن أبی شیبہ، کتاب فضائل، باب فضلء علی بن ابی طالب/صحیح مسلم، کتاب فضائل صحابة، باب فضائل علی بن ابی طالب۔
 5۔ بعض کا خلیفہ سوم کے گھر کا محاصرہ کرنے والوں اور ان کے کا قاتلوں میں سے ہونا: [الطبقات الکبری لابن سعد [3 /74] تاریخ الطبري [3 /424] البدایة والنهایة [7 /207] تاریخ إسلام لذهبی [3/456]
 6۔ اصحاب کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی: صحیح بخاری، کتاب المحاربین، باب رجم الحبلی من الزنا۔ کتاب الاحکام باب، مایکرہ من الحرص/جامع الأصول من أحادیث الرسول کتاب الخلافة و الامارة[سقیفة بنی ساعدة کی داستان]السنن الکبری للنسائي، کتاب القضاء، باب الحرص علی الامارہ۔
7۔ خود اصحاب کے دور میں رسول خدا کی تعلیمات کا ضائع ہو جانا: [صحیح بخاری، کتاب مواقیت الصلواة، باب تضیع الصلواة عن وقتها و باب فضل صلواة الفجر/الموطا، باب نوادر/شعب ایمان، باب فصل صلواة الخمس۔]
8۔ جناب عمر کا سنت پیغمبر کی نقل پر پابندی لگانا: جامع بیان العلم و فضله باب ذکر ذم الاکثار من الحدیث /شرح مشکل الآثار (15/ 317)معرفة السنن والآثار للبهیقی (1/ 146)
ایسے ہی مطالب سے خود ان کی اپنی کتابیں بھری پڑی ہیں، لیکن یا یہ لوگ ان چیزوں سے جاہل ہیں یا تعصب اور شیعہ دشمنی نے انہیں عدل و انصاف سے دور کر دیا ہے، لہذا “الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے” کے فارمولے پر عمل کرتے ہیں۔
پھر محرم شروع ہوتے ہی نواسہ رسول ؐ اور ان کے جان نثار اصحاب کے مصائب، ان کی بے مثال قربانی اور عظیم کارنامے کو کم رنگ کرنے کے لئے یہ شوشہ چھوڑا گیا کہ یکم محرم کو حضرت عمر کی شہادت ہوئی تھی۔۔۔ اسے بھی شیعہ علماء و دانشوروں سمیت اہلسنت کی تعلیم یافتہ، تاریخ پر عبور رکھنے والی شخصیات نے یکسر طور پر مسترد کیا اور مفتی گلزار سمیت بہت سارے مفتیان کرام نے اس طرح تاریخ مسخ کرنے والوں کی بھرپور مذمت کی۔ اس فتنے کے دفن ہوتے ہی ایک غالی ذاکر کی غلط و ناروا حرکت کو بہانہ بنا کر پوری ملت تشیع کو نشانہ بنانے کی کوشش کی، درحالیکہ ایسے جاہل ذاکروں سے خود شیعہ پہلے سے تنگ تھے۔ انہوں نے بہت سوں کے خلاف ایف آئی آر کٹوائی ہوئی تھیں۔ آصف علوی نامی ذاکر کے بارے میں تمام شیعہ ذمہ داران نے یہ اعلان کر رکھا تھا کہ اس کا شیعیت سے کوئی تعلق نہیں، لیکن اس کے باوجود وہ اسے شیعہ کھاتے میں ڈال کر پوری شیعیت کو متہم کرنے پر ڈٹے رہے۔
انہوں نے شیعہ ذمہ داروں کی بات پر کان دھرنے کی زحمت نہیں کی، جبکہ شیعہ نقطہ نظر سے وہ ایک غالی اور مشرک ذاکر ہے۔ وہ کرائے کا ناطق اور خون حسینی کا تاجر ہےـ اس ذاکر کے حوالے سے اہلسنت کے ان بعض مفتیوں کے ردعمل سے مجھے ذاتی طور پر بڑا تعجب ہوا، جو زبردست تعلیم یافتہ باشعور ہونے کے باوجود اس کی غلطی میں پاکستان کی پوری ملت تشیع کو ملوث کرنے پر مصر رہے۔ ان کا استدلال بھی انتہائی ناقص تھا۔ مثال کے طور ایک صاحب کی دلیل یہ تھی کہ اگر آصف علوی ذاکر کا تعلق شیعوں سے نہیں تو اسے شیعہ مجلس میں پڑھنے کی دعوت ہی کیوں دی گئی۔ کیا اسے سننے والے مجلس میں بیٹھے افراد بھی شیعہ نہیں و۔۔۔۔ قبلہ موصوف سے ایسی خشک اور بے جان دلیل کی توقع ہرگز نہ تھی۔ خیر جو ہونا تھا، سو ہوگیا۔
اس حوالے سے فقط یہ عرض کروں گا کہ کسی ایک فرد کی غلطی میں ساری قوم کو جھونکنے کی کوشش کرنا سراسر ناانصافی اور منطق کے خلاف ہے۔ یقیناً علم منطق کی ابتدائی بحثوں میں ان کی نظر اس بات پر پڑی ہوگی کہ جزء کو دیکھ کر کل پر حکم نہیں لگایا جاسکتاـ اس کے علاوہ جب شیعہ علماء نے اسے مسترد کیا ہے اور صاف اعلان کیا ہے کہ اس کا شیعیت سے کوئی تعلق نہیں تو آپ نے بزور بازو اسے شیعیت کی صف میں داخل کرنے کی ضرورت کیوں محسوس کی؟ کیا اسے بہانہ بنا کر بڑے فتنہ کو ہوا دینے کے علاوہ کوئی مقصد ہوسکتا ہے۔؟ اس موقع پر وہ شیعوں کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای کا تاریخی فتویٰ کیوں بھول گئے، جنہوں نے یہ واضح فتویٰ دیا ہوا ہے کہ اہلسنت کے مقدسات کی توہین کرنا حرام ہے، چاہے وہ خلفاء اہلسنت کے متعلق ہو یا پھر ازواج پیغمبر ؐ کے عنوان سے ہو۔ منطقی بات یہ ہے کہ نہ آصف جلالی کی غلطی میں سارے اہلسنت کو ملوث کرنا دانشمندی ہے اور نہ آصف علوی کے جرم میں سارے شیعوں کو متہم کرنا عقلمندی ہے۔
مسلمانوں کو بیدار رہنا چاہیئے کہ ناصبی ٹولے اور مولویوں نے اہلسنت کے لباس میں عاشورائے حسینی کے بعد ایک اور فتنے کو ہوا دینے کی ناکام کوشش شروع کی ہے۔ انہوں نے شیعیت سے اظہار رائے و بیان کی آزادی سمیت ان سے ان کے اعمال،  عبادات اور اعتقادات کے حق کو چھین کر ان کے سانس نہ لینے کی جدوجہد شروع کر دی ہے۔ یہ اس ٹولے کی جنونیت کی انتہاء نہیں تو اور کیا ہے؟ وہ پاکستان کو اب اپنے باپ کی جاگیر سمجھنے لگے ہیں، کچھ شرم و حیا بھی ہوتی ہے نادانو، پاکستان کو کافرستان اور قائد اعظم کو کافر اعظم کہنے والوں میں اتنی جرات پیدا ہوئی ہے کہ خون پسینہ ایک کرکے پاکستان بنانے اور اس کی حفاظت کرنے والوں سے اب وہ ان کی عبادی زندگی سلب کرنے کی باتیں کر رہے ہیں۔ ان احمقوں کو کون سمجھائے کہ زیارت عاشورا شیعوں کا حرز جان ہے، یہ ہماری دنیا اور آخرت کی سعادت کی کنجی ہے اور یہ ہمارے ائمہ کی تعلیمات کا ایک انمول حصہ ہے۔ عبادات اور اعمال میں مسلمان آزاد ہوتے ہیں، کوئی مائی کا لال ان پر قدغن نہیں لگا سکتا ہے۔
 البتہ ہمارے قائدین کی بھی آنکھیں اب کھلنی چاہیئں۔ اتحاد طرفینی مسئلہ ہے، ایک طرف سے دوسروں کے مسلمہ عقائد پر حملہ ہو جائے تو یہاں مناسب جواب دینے والا فارمولا ہی گارگر ثابت ہوگا، نہ کہ چپ کا روزہ۔ عقائد پر سمجھوتہ کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں بلکہ اس موقع پر اپنی صفوں میں متحد ہوکر پوری شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسٹینڈ لینے کی ضروری ہے۔ ہمارا انصاف حکومت کے ذمہ داروں خاص طور پر وزیراعظم پاکستان سے مطالبہ ہے کہ وہ پاکستان کی سرزمین پر منصوبہ بندی کے تحت فرقہ واریت کو ہوا دینے والوں کو لگام دیں، دوسروں سے حق زندگی چھیننے کا خواب دیکھنے والوں کو قانونی کٹہرے میں لا کر سزا دلوائیں، مخصوصاً ان ناصبی یزیدی مولویوں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے میں دیر نہ کریں، جو وجود پاکستان کے مقاصد کو پاؤں تلے روندتے ہوئے مکتب آل محمد سے تعلق رکھنے والوں کے اعمال اور عبادات پر انگلی اٹھا رہے ہیں اور اپنی بے بنیاد باتوں کے ذریعے بے چارے سادہ لوح عوام کو فرقہ واریت کی جنگ میں دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مختصر بات یہ ہے کہ حکمرانو پاکستان میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے والوں کو لگام دو۔

تحریر: محمد حسن جمالی

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=1324

ٹیگز