7

امیر شام یا امیر حجاز!

  • News cod : 1419
  • 03 سپتامبر 2020 - 16:28
امیر شام یا امیر حجاز!
اہلسنت حدیثی فورمز پر یہ بحث ہوتی رہتی ہے کہ ان کے بقول "سفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ (وآلہ) وسلم بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک اونٹ پر ابو سفیان رضی اللہ عنہ کا گذر ہوا، ان کے ساتھ معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ایک بھائی تھے۔ ان میں سے ایک اونٹ کو چلا رہا تھا اور دوسرا ہانک رہا تھا۔ تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی لعنت ہو سواری اور سوار پر نیز چلانے والے اور ہانکنے والے پر [أنساب الأشراف للبلاذري، ط، دار الفكر: 5/ 136 رجالہ ثقات ومتنہ منکر و اخرجہ البزار فی مسندہ (9/ 286) من طریق سعیدبن جمھان بہ نحوہ ، وقال الھیثمی فی مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (1/ 113) : رواه البزار، ورجاله ثقات]"

تحریر: سید میثم ہمدانی
meesamhamadani@gmail.com

اہلسنت حدیثی فورمز پر یہ بحث ہوتی رہتی ہے کہ ان کے بقول “سفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ (وآلہ) وسلم بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک اونٹ پر ابو سفیان رضی اللہ عنہ کا گذر ہوا، ان کے ساتھ معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ایک بھائی تھے۔ ان میں سے ایک اونٹ کو چلا رہا تھا اور دوسرا ہانک رہا تھا۔ تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی لعنت ہو سواری اور سوار پر نیز چلانے والے اور ہانکنے والے پر [أنساب الأشراف للبلاذري، ط، دار الفكر: 5/ 136 رجالہ ثقات ومتنہ منکر و اخرجہ البزار فی مسندہ (9/ 286) من طریق سعیدبن جمھان بہ نحوہ ، وقال الھیثمی فی مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (1/ 113) : رواه البزار، ورجاله ثقات]”

جب دواعش نے عراق اور شام کا رخ کیا اور کالی آندھی کی طرح اسلامی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کیا تو انہوں نے اپنے اہداف کو بھی اپنی پیشروی کے ساتھ ساتھ واضح کرنا شروع کیا تھا۔ داعش کی جانب سے بیان کردہ اہداف میں سے ایک ہدف یہ تھا کہ خانہ کعبہ کو بعنوان مرکز شرک مسمار کیا جائے گا، شام میں یزید لع کا مجسمہ نصب کیا جائے گا، جس کے ہاتھ میں امام حسین علیہ السلام کا سر مبارک ہوگا اور یہ یزید کی حسین علیہ السلام پر فتح کا نشان ہوگا۔ اصحاب گرامی اور خصوصاً بنت علی حضرت زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا کی قبر کی بے حرمتی کی جائے گی اور خاکم بدہن نعوذ من ذالک ان کی قبرگشائی کی جائے گی۔ یہ ان اہداف خبیثہ میں سے صرف چند ایک چیزیں ہیں، جنکا داعش نے رسمی طور پر اعلان کیا اور اس گروہ کی اسٹریٹجی یہ تھی کہ اس حد تک خوف کی فضا کو قائم کیا جائے، تاکہ اس رعب و وحشت کی وجہ سے مختلف شہر بغیر جنگ کے ان کے قبضہ میں آجائیں اور کسی حد تک ان کی اس منصوبہ بندی نے انہیں فائدہ بھی پہنچایا اور مختصر عرصہ میں یہ مخوف گروہ عراق اور شام کے اکثر علاقوں پر قابض ہوگیا۔

اگر نہ ہوتے مجاہدین فی سبیل اللہ اور نہ ہوتی ان کی جانفشانی تو اس وقت تقریباً پورا عالم اسلام اس کالے عذاب کے سایہ میں ہوتا۔ جیسے ہی اس گروہ نے عراق اور شام میں اپنے وجود کا اظہار کیا تو آپ نے افغانستان میں طالبان کو داعش بنتے دیکھا، افریقہ میں بوکو حرام کو داعش بنتے دیکھا، انڈونیشیا میں داعش کی کارستانیاں نظر آنے لگیں اور تو اور ایران اور پاکستان میں فرقہ پرست دہشت گرد اپنی شکلیں بدلنے لگے اور داعش کے جھنڈے لیکر میدان میں آنے کی سوچنے لگے؟ آیا ایسا نہیں تھا؟ کون تھا جس نے عالم اسلام بلکہ عالم انسانیت کو اس خانمان سوز آفت سے بچایا؟ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ
موسیٰ و فرعون و شبیر و یزید
این دو قوت از حیات آید پدید
زنده حق از قوت شبیری است
باطل آخر داغ حسرت میری است

حق و باطل کا ہمیشہ سے سامنا رہا ہے اور ہمیشہ ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے رہیں گے، لیکن حقیقت اور فتح اور کامیابی حق کے ساتھ ہے، باطل ایسا سایہ ہے جس کو قرآن نے خس و خاشاک کے ساتھ تعبیر کیا ہے، جو باران رحمت کا طفیلی اور اس رحمت کے سایہ میں اپنے وجود کو باقی رکھے ہوئے ہے۔ محمد خاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبعوث برسالت ہونے کے بعد امت محمد عربی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جس شجرہ نے تقسیم، تملیک، تعصب اور تفرقہ کی جانب گامزن کر دیا، وہ شجرہ بنی امیہ اور حامیان بنی امیہ تھا۔ بعض اوقات بعض افراد کے کردار کو دیکھ کر شک ہونے لگتا ہے کہ یہ امت محمدی ہے یا امت بنی امیہ! جس کو آل نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تو کوئی خیال نہیں، لیکن آل ابوسفیان کیلئے وہ ملک و قوم کو آگ میں جھونکنے پر تیار ہے، اس کیلئے کیا گمان کیا جائے گا کہ یہ امت محمدی ہے یا امت ابوسفیانی!

آپ حال ہی کے واقعہ کو دیکھ لیں، اگرچہ تمام علماء اس بات کا اعلان کر رہے ہیں اور ہم بھی اس چیز کے معتقد ہیں کہ مسلمان ایک جسد واحد کی طرح ہیں اور ہر مکتب فکر کو دوسرے مسلمانوں کے جذبات کا احترام اور ان کے مقدسات کا خیال رکھنا چاہیئے، لیکن اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر نہ چاہتے ہوئے بھی ایک ایسے فرد کے بارے میں ایسی بات عمومی ذرائع ابلاغ سے وہ بھی غیر رائج زبان میں بیان ہو ہی گئی تو اتنی آگ کیوں لگی؟ کیا یہ وہی شخص نہیں ہے کہ جس کے حکم پر امیر المومنین امام علی ابن ابیطالب علیہ السلام، جن کو اہلسنت اپنا چوتھا خلیفہ راشد مانتے ہیں، پر ایک سو سال تک جمعہ کے خطبہ میں اور دیگر مقامات پر سرعام لعنت کی جاتی رہی؟ کیا یہ وہی شخص نہیں ہے کہ جس نے سینکڑوں اصحاب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم منجملہ امی عائشہ (رض) اور جلیل القدر صحابی حضرت عمار بن یاسر اور فرزند خلیفہ اول محمد بن ابوبکر کو شہید کروایا؟ کیا یہ وہی فرد نہیں ہے کہ جس کے ہاتھ ہزاروں بے گناہوں کے خون سے رنگین ہیں؟ کیا خداوند تبارک و تعالیٰ نے قوم ظالمین پر قرآن مجید میں لعنت نہیں کی؟!

جس چیز کو سمجھنے کی ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ ملت اسلامیہ کو اپنے تمام تر اختلافات کے باوجود ایک دشمن کے خلاف اکٹھے رہنے اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا ہنر سیکھنا ہوگا۔ ملت اسلامیہ کے عوام اور خواص کو دشمن کے ایجنڈے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ وہی قوتیں جنہوں نے داعش جیسے دہشت گرد پالے اور ان کو بنی امیہ کے افکار سے مزین کرکے ملت اسلامیہ پر مسلط کرنے کی کوشش کی، آج وہی قوتیں ان دہشت گردوں کی شکست کے بعد ملت اسلامیہ کو ایک مرتبہ پھر دست و گریبان کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ آج یہی قوتیں شیعہ کے اندر غالیوں کی صورت میں اور اہلسنت کے اندر ناصبیوں کی صورت میں اور دوبارہ افکار یزید و بنی امیہ کے احیاء کے ذریعے ملت اسلامیہ کی تقسیم کے درپے ہیں۔ اب یہ ملت اسلامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود فیصلہ کرے کہ کس طرح اپنے درمیان موجود اختلافات کے باوجود دشمن کے مقابلے میں ایک ہو کر زندہ رہ سکتی ہے اور اپنی کھوئی ہوئی عزت کو حاصل کر سکتی ہے۔ اس ہدف کا حصول ممکن نہیں ہے، مگر یہ کہ قرآن و سنت کو تھاما جائے اور قرآن و سنت کو صحیح انداز میں سمجھنے کیلئے اس پر عمل کرنے کیلئے کوئی راستہ نہیں مگر صراط مستقیم اہلبیت علیہم السلام کے۔ امت اسلامی کو چاہیئے کہ اہل بیت علیہم السلام کے دامن کو مضبوطی سے پکڑ کر امت اسلامی اور امت محمدی ہونے کا ثبوت دے اور یاد رکھیں کہ امت اموی یا امت عباسی و عثمانی نجات کا راستہ نہیں ہے۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=1419

ٹیگز