5

پارلیمنٹ ‘مجلس شورائے اسلامی’ کے اراکین سے خطاب

  • News cod : 34584
  • 28 می 2022 - 13:00
پارلیمنٹ ‘مجلس شورائے اسلامی’ کے اراکین سے خطاب
خداوند متعال کا شکر گزار ہوں کہ بحمد اللہ اس نے یہ توفیق عطا کی کہ دو سال تک آپ لوگوں سے بالمشافہ ملاقات سے محروم رہنے کے بعد اس سال اس برادرانہ اور محبت آمیز ماحول میں ہم اکٹھا ہو سکیں اور آپ حضرات کی باتوں کو محترم اسپیکر کی زبان سے سن سکیں اور ہم بھی کچھ باتیں عرض کر سکیں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاہرین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.

خداوند متعال کا شکر گزار ہوں کہ بحمد اللہ اس نے یہ توفیق عطا کی کہ دو سال تک آپ لوگوں سے بالمشافہ ملاقات سے محروم رہنے کے بعد اس سال اس برادرانہ اور محبت آمیز ماحول میں ہم اکٹھا ہو سکیں اور آپ حضرات کی باتوں کو محترم اسپیکر کی زبان سے سن سکیں اور ہم بھی کچھ باتیں عرض کر سکیں۔

یہ ایام، خرمشہر کی فتح کی سالگرہ کے دنوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ گزشتہ کل کے دن یہ عظیم واقعہ رونما ہوا اور ہم اسے بھی نیک شگون کے طور پر لیتے ہیں۔ اس سلسلے میں کچھ تشریح میں ضروری سمجھتا ہوں۔ برادران عزیز! خواہران عزیز! خرمشہر کی فتح، صرف ایک شہر کی فتح نہیں تھی کہ ایک شہر کو دشمن نے ہم سے لے لیا تھا، ہم نے اسے واپس لے لیا۔ صرف یہ بات نہیں تھی۔ یہ، خرمشہر کی فتح کا صرف ایک جلوہ تھا۔ خرمشہر کی فتح، حالات کے رخ کا مجاہدین اسلام کے حق میں تبدیل ہو جانے کا معاملہ تھا۔ اصل بات یہ ہے۔ ایک تلخ صورت حال پیدا ہو چکی تھی۔ میں ان دنوں کی تلخی کو بھول نہیں سکتا جب اہواز میں ایک سینٹر میں ہم لوگ تھے۔ شہید چمران کے کمرے میں، جو ہمارے اس ہیڈکوارٹر(2) کے کمانڈر تھے، ایک بورڈ لگا ہوا تھا، اس نقشے پر لال اور نیلے رنگ کی پن لگی ہوئي تھی، نیلے رنگ کی پنوں والے حصے، وہ حصے تھے جو ہمارے کنٹرول میں تھے اور لال رنگ کی پنوں والے حصے، وہ علاقے تھے جن پر دشمن نے قبضہ کر لیا تھا۔ جس دن بھی، نئی اطلاعات کے مطابق اس نقشے میں تبدیلی کی جاتی تھی، ہم جاتے اور اسے دیکھتے تھے۔ میں ان دنوں کی تلخی بھلا نہیں سکتا کہ جب بھی ہم وہاں جاتے تھے تو دیکھتے تھے لال حصے میں مزید کچھ علاقوں کا اضافہ ہو گيا ہے، اس جگہ پر بھی ان کا کنٹرول ہو گيا، اس شہر پر بھی انھوں نے قبضہ کر لیا، اس چھاؤنی پر بھی قبضہ کر لیا، اس جگہ پر بھی کنٹرول کر لیا۔ اہواز سے دس گیارہ کلو میٹر کے فاصلے تک پہنچ چکے تھے، دزفول کی طرف سے نادری پل تک پہنچ گئے تھے۔ حتی دشمن نے نادری پل کو عبور کر کے اس طرف آنے کی بھی جرئت کر لی تھی۔ البتہ اس کا یہ کام فوجی حکمت عملی کے خلاف تھا۔ پھر جب اس نے دیکھا کہ یہ صحیح نہیں ہے تو پیچھے لوٹ گيا۔ بڑے تلخ ایام تھے اور جنگ شروع ہونے کے آٹھ نو مہینے تک ہم اسی صورتحال کا مشاہدہ کرتے رہے۔ یہ صورتحال بڑی تلخ تھی۔ پھر حضرت ثامن الائمہ آپریشن، جو آبادان کا محاصرہ توڑنے کے لیے کیا گيا تھا، شروع ہونے کے بعد یہ صورتحال بدلنے لگي۔ پھر طریق القدس آپریشن، اس کے بعد فتح المبین آپریشن اور آخر میں بیت المقدس آپریشن اور پھر خرمشہر کی فتح۔ حالات کا رخ بالکل الٹ گیا۔ مطلب یہ کہ اگر اس دن تک ہم مسلسل اس تشویش میں تھے کہ کل کون سا نیا علاقہ ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا تو اس دن کے بعد ہم لگاتار اس بات کے لیے کوشاں تھے کہ دیکھیں کل سے ہم کیا نیا حاصل کر سکتے ہیں۔ البتہ خرمشہر کی فتح کے بعد کے آپریشنوں میں بھی کئي فتوحات تھیں، کبھی فتح حاصل نہیں بھی ہوتی تھی لیکن حالات کا رخ پیشرفت کا تھا، عمل، فتح کا تھا، عمل، ارادے کی مضبوطی اور آہنی عزم کا تھا۔ خرمشہر کی فتح کی اصل اہمیت یہ ہے۔ خرمشہر اصل میں ایک تلخ صورتحال کے ایک شیریں صورتحال میں تبدیل ہونے کا مظہر تھا جس نے ایرانی قوم کو نجات دلائي۔ شاید بہت سے لوگوں کو جنگ کی صورتحال کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں تھیں لیکن جن لوگوں کو معلومات تھیں، وہ مسلسل تشویش، تلخی اور سختی میں زندگي گزار رہے تھے۔ اس واقعے سے لوگوں کو اس صورت حال سے نجات حاصل ہو گئي۔

تو یہ قومی نجات کس وجہ سے حاصل ہوئي؟ خرمشہر کی فتح اور اس سے پہلے کے واقعات، کس چیز کا نتیجہ تھے؟ یہ اہم بات ہے اور میں اس پر بات کرنا چاہتا ہوں۔ سبب، کئي چیزیں تھیں: جہاد، ایثار، ٹھوس ارادہ، جدت عمل یعنی نئے راستوں کی تلاش۔ مجھے پتہ نہیں کہ آپ برادران عزیز نے ان تحریروں کو، جو بیت المقدس آپریشن سے متعلق ہیں اور جو واقعی بہت اچھی ہیں، پڑھا ہے یا نہیں؟ شاید آپ میں سے کچھ لوگ، کچھ معدودے لوگ، خود اس وقت محاذ پر موجود رہے ہوں لیکن آپ میں سے زیادہ تر جوان ہیں، وہ واقعات شاید آپ کو بالکل یاد نہ ہوں، بعض تو شاید تب دنیا میں ہی نہ آئے ہوں گے، ان کتابوں کو پڑھیے اور دیکھیے کہ کیا ہوا تھا؟ کیا ہوتا تھا؟ ان شہیدوں نے،-جو ان واقعات میں شہید ہوئے، ان میں سے بعض کے نام کبھی کبھی لیے جاتے ہیں، مشہور شہداء اور غیر معروف شہدا- کیا کیا کردار ادا کیے؟! ہیڈکوارٹر کی کمان سے لے کر، بريگيڈ کی کمان تک اور ایک بٹالین کی کمان سے لے کر ایک گروپ کی کمان تک۔ ان لوگوں نے کیا کیا؟ ان کا کردار کیا تھا؟ ٹھوس ارادہ۔ یا اہداف و مقاصد پر دور اندیشانہ نظر۔ یعنی روزانہ اور روز مرہ کی نہ سوچنا۔ وہ آگے دیکھا کرتے تھے۔ کیونکہ امام خمینی نے اپنے واضح اور دو ٹوک بیانوں میں اس جنگ اور اس عظیم واقعے کے بارے میں کہہ دیا تھا، یہی وجہ تھی کہ جزوی اور روز مرہ کے واقعات، اس عظیم واقعے میں شامل مؤثر افراد کے ذہنوں کو الجھا نہیں پاتے تھے۔ وہ بلند اہداف کے حصول کے خواہاں تھے، اس اشارے کے مطابق آگے بڑھ رہے تھے جو امام خمینی نے کیا تھا۔

ہم نے کہا جہاد، ہم نے کہا ایثار، ہم نے کہا پختہ ارادہ اور اسی طرح کی دوسری چیزیں۔ ان سب کی روح اخلاص تھی، اللہ کے لیے اخلاص اور اللہ پر توکل۔ اللہ کے لیے کام کرنا اور خداوند متعال پر توکل۔ اخلاص اور توکل کے ساتھ جدت عمل ضروری تھی، عزم ضروری تھا، مجاہدت ضروری تھی، ایثار ضروری تھا اور یہ چیزیں جو ہم نے عرض کیں۔

اب میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ چیز اس وقت اور اس واقعے سے مختص نہیں تھی۔ ملک کے دیگر مختلف واقعات میں، جن کا آپ کو سامنا ہے اور میں عرض کروں گا کہ آگے بھی سامنا کرنا پڑے گا، اصلی عنصر یہی ہے۔ یعنی انسان توکل کے ساتھ، اخلاص کے ساتھ میدان میں آ جائے، پھر، اس میں ایثار ہونا چاہیے، وہ مجاہدت کرے، ٹھوس ارادہ رکھے، جدت عمل کے لیے کوشاں رہے اور نئے راستوں کو تلاش کرے، ان سبھی معاملات کے لئے یہ چیز ہے۔ اگر یہ چیزیں ہوں گی تو یقینی طور پر ان کے بعد فتح ہے۔ یقینا۔ اب دیکھتے ہیں کہ ہم اس مسئلے کا کس حد تک سامنا کر رہے ہیں۔

میں آپ سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ان تمام مسائل میں، جن کا ہم سامنا کر رہے ہیں، داخلی مسائل، خارجی مسائل، فکری مسائل، عملی مسائل، ہر طرح کے مسائل، ان میں انہی کچھ عناصر و اسباب کی مدد سے کامیاب ہوا جا سکتا ہے: یعنی خدا کی راہ میں مجاہدت اور جہادی کام، اللہ کے لیے اخلاص، مستحکم ارادہ، جدت عمل وغیرہ۔ اس کی صراحت قرآن مجید میں ہے۔ میں آپ کو دو آیتیں سناتا ہوں۔ یا اَیُّھَا الَّذینَ آمَنوا ھَل اَدُلُّکُم عَلىٰ تِجارَۃٍ تُنجیکُم مِن عَذابٍ اَلیمٍ * تُؤمِنونَ بِاللَہِ وَرَسولِہِ وَ تُجاھِدونَ فی سَبیلِ اللَہِ بِاَموالِکُم وَاَنفُسِکُم – میں بعد میں انفس کے معنی بتاؤں گا اور اس بارے میں کچھ عرض کروں گا – ذٰلِکُم خَیرٌ لَکُم اِن کُنتُم تَعلَمونَ * یَغفِر لَکُم ذُنوبَکُم وَ یُدخِلکُم جَنّاتٍ تَجری مِن تَحتِھَا الاَنھارُ وَمَساکِنَ طَیِّبَۃً فی جَنّاتِ عَدنٍ ذٰلِکَ الفَوزُ العَظیمُ * وَ اُخرىٰ تُحِبّونَھا نَصرٌ مِنَ اللَہِ وَ فَتحٌ قَریب(3) اگر یہ ایمان اور جہاد اور اسی طرح کی چیزیں ہوں گي تو صرف بات یہ نہیں ہے کہ خدا آپ کو معاف کر دے گا، نہیں! فتح یعنی جس چیز کے آپ خواہاں ہیں، خداوند متعال آپ کو اس کا تحفہ دے گا۔ آيت میں یہ نہیں کہا گيا ہے کہ جنگ میں، بلکہ تمام چیزوں میں۔ یہ چیز صرف فوجی جنگ سے مختص نہیں ہے۔ زندگي کے تمام امور میں ایسا ہی ہے۔

دوسری آيت، یہ آیتیں سورۂ مبارکہ آل عمران کے آخر کی ہیں: رَبَّنَا وَآتِنَا مَا وَعَدتَّنَا عَلَىٰ رُسُلِک۔ وہ وعدہ جو تو نے اپنے پیغمبروں سے کیا تھا۔ وہ وعدہ کیا ہے؟ دشمن پر فتح کا وعدہ تھا نا! رَبَّنَا وَآتِنَا مَا وَعَدتَّنَا عَلىٰ رُسُلِکَ وَ لَا تُخزِنا یَومَ القِیامَۃِ اِنَّکَ لا تُخلِفُ المیعاد۔ مؤمنین یہ دعا کر رہے ہیں، خداوند عالم کیا کرتا ہے؟ فَاستَجابَ لَھُم رَبُّھُم۔ خدا اس دعا کو قبول کر لیتا ہے اور ان سے کہتا ہے: اَنّی لا اُضیعُ عَمَلَ عامِلٍ مِنکُم مِّن ذَکَرٍ اَو اُنثىٰ (4) میں تمھارے عمل کو اور تمھاری کوششوں کو رائيگاں نہیں جانے دوں گا۔ یہ بات جان لیجیے۔ ایک مومن معاشرے ایک مومن اجتماع کے آگے بڑھنے کے اصول اور بنیادی باتیں یہی تو ہیں۔ انھیں آزمایا بھی جا چکا ہے۔ اگر ممکن ہو تو ہمیں انھیں کبھی پڑھنا چاہیے، اللہ کے فرمان کو مان لینا چاہیے. انقلاب کے بعد سے آج تک ہم نے ان کا تجربہ کیا ہے، انھیں آزمایا ہے، ان کا عملی طور پر مشاہدہ کیا ہے، ہم نے دیکھا ہے کہ ایسا ہی ہے۔

میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آپ میں سے اکثر جوان ہیں۔ یعنی آپ کے سامنے ایک بڑا موقع ہے۔ ان شاء اللہ اس کے بعد پچاس سال، ساٹھ سال آپ کے پاس زندگي گزارنے کا موقع ہے۔ یہ جو موقع آپ کے سامنے ہے، اس میں بہت سے واقعات ہوں گے، مسائل پیش آئيں گے: خوشیاں ہیں، غم ہیں -اس عجیب و غریب دنیا میں چالیس سال، پچاس سال، ساٹھ سال کوئي مذاق نہیں ہے- آپ کے سامنے بہت سے واقعات ہوں گے، آپ کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا ہوگا۔ میں آپ سے عرض کروں کہ ان تمام مسائل میں اس قاعدے کو استعمال کیجیے، جہادی انداز میں کام کیجیے، مستحکم ارادہ رکھیے: قَوِّ عَلى‌ خِدمَتِکَ جَوارِحى وَ اشدُد عَلَى العَزیمَۃِ جَوانِحى وَ ھَب لِىَ الجِدَّ فى‌ خَشیَتِک(5) یہ ان تمام مسائل میں جو آپ کو در پیش ہیں، آپ کی مدد کرے گا اور آپ کو فتحیاب کرے گا۔

ہم نے کہا “جہاد اور ایثار” اور کہا کہ اس کی تشریح کریں گے کہ ایثار سے مراد کیا ہے۔ ہمیشہ یہ نہیں ہوتا کہ آپ جائیے اور جان کا نذرانہ پیش کر دیجیے۔ بعض مقامات ایسے ہوتے ہیں کہ انسان کا ایثار اس میں ہے کہ وہ جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان جنگ میں پہنچ جائے جیسے مقدس دفاع کا زمانہ اور آج کی طرح بعض میدانوں میں جو آپ دیکھ رہے ہیں۔ لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔ ایثار کا ایک وسیعتر مفہوم ہے۔ ایثار بہت ساری جگہوں پر حقیر خواہشات کے جال میں نہ پھنسنے کے معنی میں ہے۔ ہماری مشکل یہ ہے۔ ہم کبھی بہت حقیر خواہشات کے پنجوں میں جکڑ اٹھتے ہیں، اپنے آپ کو نجات نہیں دے پاتے۔ ایثار کا مطلب یہ ہے کہ انسان، ان خواہشات سے نظریں پھیر لے۔ یہ حقیر خواہشات، کس طرح کی خواہشات ہیں؟ یہ خواہشوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔

فرض کیجیے کہ کسی محفل میں اپنے دوست سے بھی زیادہ اونچی جگہ پر بیٹھ جائیے۔ ایک دوستانہ نشست میں اپنے دوست سے اوپر بیٹھنا، اس چیز سے لے کر قومی سطح پر سربراہی اور صدارت کی کرسی پر بیٹھنے تک۔ یہ سب خواہشات ہیں اور یہ سبھی حقیر خواہشات ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ان میں سے ایک حقیر خواہش ہو اور دوسری کوئي بڑی چیز ہو۔ جی نہیں! اس مسند پر بیٹھنا اور اس نشست اور محفل میں بیٹھنا، ان دونوں میں کوئي فرق نہیں ہے۔ انسانی خواہش ہے، دونوں ہی حقیر ہیں۔ کبھی اپنے فرض کی ادائيگي کے لیے انسان انجام دیتا ہے، کبھی نہیں ہو پاتا، فرض سے متصادم ہوتا ہے، انسان اس سے آنکھیں موڑ لیتا ہے۔ مال دنیا، عزت، سماجی ساکھ تک۔ تاکہ عوام کے درمیان ہماری ایک امیج بن جائے، ایک اچھا نام حاصل ہو جائے، ممکن ہے ہم کچھ کام بھی انجام دیں۔ یہ حقیر خواہشات کے جال میں پھنسنا ہے۔ ان سے بچنا چاہیے۔ البتہ کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ مال دنیا برا ہے، یا سرکاری پوسٹ، سرکاری خدمت یا ایسی ہی دوسری چیزیں بری ہیں۔ جی نہیں، ان میں سے کچھ بھی برا نہیں ہے۔ نہ مال دنیا برا ہے، نہ منصب برا ہے، نہ سماجی عزت بری ہے، یہ سب اچھے ہیں۔ ان کے لیے کوشاں رہنے اور خدا سے ان کی دعا کرنے میں کوئي حرج نہیں ہے۔ ہماری دعائيں، انہی چیزوں کی طلب سے بھری ہوئي ہیں۔ بات یہ ہے کہ کبھی انسان کے سامنے کوئي ذمہ داری آتی ہے اور اس ذمہ داری کی راہ میں ان میں سے کوئي خواہش آڑے آ جاتی ہے۔ وہاں پر اس نفسانی خواہش کو کچلنا چاہیے۔ ایثار کا مطلب یہ ہے۔

یہ کچھ باتیں تھیں جو ہم نے آپ برادران عزیز کے سامنے پیش کیں۔ البتہ یہ باتیں آپ سب سے زیادہ خود میرے لئے ضروری ہیں۔ یعنی مجھے آپ سے زیادہ اس نصیحت کی ضرورت ہے اور امید ہے کہ خداوند متعال، اس نصیحت کو جو ہم اپنے بھائيوں سے کر رہے ہیں، ہمارے دل میں اتار دے۔

اب آتے ہیں پارلیمنٹ کی طرف۔ مجلس شورائے اسلامی، ملکی نظام کے بنیادی ستونوں میں سے ایک ہے۔ ملک کا نظم و نسق چلانے کے بنیادی ستونوں میں سے ایک مجلس شورائے اسلامی ہے۔ ملک چلانے کے کچھ بنیادی اور اصلی اداروں کے درمیان ایک اہم ادارہ مجلس شورائے اسلامی ہے۔ اگر آپ ایک دور دراز کے اور کم آبادی والے شہر سے بھی رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے ہیں اور پارلیمنٹ میں آ گئے ہیں تو آپ، پارلیمنٹ کو اسی نظر سے دیکھیے۔ آپ اس طرح کی ایک اہم پوزیشن میں ہیں، ملک کا انتظام چلانے کی پوزیشن میں اور اس نظام کے ایک اہم رکن ہیں۔ ملک کی انتظامیہ، کئي زاویوں پر مشتمل ہے۔ اس کا ایک ضلع مجلس شورائے اسلامی ہے۔ اس کے دوسرے اضلاع بھی ہیں -تینوں بنیادی شعبے (مجریہ، مقننہ، عدلیہ) یا مثال کے طور پر مسلح فورسز وغیرہ- لیکن اس کا ایک اہم ضلع، مجلس شورائے اسلامی ہے۔ اس کی اہمیت اتنی زیادہ ہے۔ یعنی اس نظر سے پارلیمنٹ کو دیکھا جانا چاہیے۔ پارلیمنٹ کے باہر سے بھی اور خود پارلیمنٹ کے اندر سے بھی، پارلیمنٹ کے بارے میں یہی سوچ ہونی چاہیے۔

تو ملک کا انتظام چلانا، جس کے اہم ستونوں میں آپ بھی شامل ہیں، بہت سخت، پیچیدہ، دشوار اور بڑا اہم کام ہے۔ ایران عزیز جیسی پوزیشن والا ملک۔ ایران عزیز کی پوزیشن کا کیا مطلب ہے؟ یعنی ملک کی وسعت، ملک کی آبادی، ملک کا جغرافیا، ملک کی تاریخ، ملک کی مختلف اور گوناگوں آب و ہوا۔ یہ ہمارے ملک کی خصوصیات ہیں اور ایسی خصوصیات ہیں جنھوں نے ایران عزیز کو دنیا کے اہم اور غیر معمولی ممالک کی فہرست میں شامل کر دیا ہے۔ واقعی ایسا ہی ہے۔ ایک ایسے ملک کا انتظام آپ کو چلانا ہے۔

فطری طور پر ملک چلانا، مشکل کام ہے۔ خاص کر دنیا میں سامنے آنے والے بعض حالات کی وجہ سے یہ دشواری مزید بڑھ جاتی ہے، جیسے آج کل کے حالات ہیں۔ اس وقت دنیا میں کچھ ایسے حالات ہیں کہ جو نہ صرف ہمارے لیے، بلکہ تمام ملکوں کے لیے، ملکی انتظام و انصرام کو دشوار بنا دیتے ہیں۔ حالات کیا ہیں؟ میں اس کے اہم حصے بتاتا ہوں: طاقتوں کا باہمی معاندانہ ٹکراؤ۔ یعنی مثال کے طور ایٹمی طاقتیں ایک دوسرے کو آنکھیں دکھاتی ہیں اور ایک دوسرے کو دھمکاتی ہیں۔ یہ بہت اہم چیز ہے، یہ دنیا میں ایک بڑی حساس صورتحال پیدا کر دیتی ہے۔

دنیا کے ایک حساس علاقے میں عسکری سرگرمیوں کا ہونا۔ آپ جانتے ہیں کہ یورپ دنیا کے سب سے جنگ خیز علاقوں میں سے ایک ہے۔ مجھے اپنی تحقیق کے مطابق -ممکن ہے کہ یہ تحقیق مکمل نہ ہو- دنیا میں کوئی جگہ ایسی نظر نہیں آتی ہے جہاں یورپ جتنی ، یعنی یورپ کے طول و عرض والی جگہ پر، جنگیں لڑی گئی ہوں، دنیا میں کہیں بھی نہیں۔ یورپ حقیقت میں ایک جنگ خیز علاقہ ہے۔ دو عالمی جنگیں وہیں ہوئیں یعنی وہیں سے شروع ہوئيں اور پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، کروڑوں انسان مارے گئے۔ اس سے پہلے جرمنی، فرانس، برطانیہ، اٹلی اور دوسرے یورپی ملکوں کے درمیان مسلسل مختلف جنگیں ہوتی رہیں۔ یعنی یہ دنیا کا ایک اہم جنگ خیز علاقہ ہے۔ اس وقت اس جنگ خیز علاقے میں ایک جنگ ہوئي ہے۔ یہ چیز دنیا کو حساس بناتی ہے، یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ بڑھتا ہوا فوجی خطرہ۔

ہمہ گیر بیماریاں۔ یہ بھی ان چیزوں میں شامل ہے جو دنیا میں بہت کم وقوع پذیر ہوئي ہیں یا ہوئي ہی نہیں ہیں۔ ایک بیماری اس طرح پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے، یعنی دنیا کی کوئي جگہ ایسی باقی نہ ہو جہاں یہ بیماری نہ ہو! یہ بھی ایک اہم بات ہے۔

یا عالمی سطح پر غذائي تشویش اور اندیشے۔ کبھی افریقا میں یا دنیا کے کسی حصے میں قحط آ جاتا ہے، غذائي اشیاء کی قلت ہو جاتی ہے، غذائي تشویش پیدا ہو جاتی ہے۔ آج ایسا نہیں ہے۔ آج پوری دنیا میں غذائی اندیشے پائے جاتے ہیں۔ دیکھیے، دنیا کے آج کے حالات، ایک خاص طرح کے حالات ہیں، دنیا میں آج جیسی صورتحال کم ہی پیش آتی ہے۔ تو فطری طور پر ان حالات میں ملک چلانا، تمام ملکوں کے لیے زیادہ مشکل ہو جاتا ہے، زیادہ پیچیدہ ہو جاتا ہے۔

البتہ ہمارے ساتھ ایک دوسرا مسئلہ بھی ہے۔ دوسرے ملکوں کو جو مسائل درپیش ہیں، اسلامی جمہوریہ ایران کو ان کے علاوہ بھی ایک مسئلہ درپیش ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم نے عالمی بحثوں میں ایک نئي بات شامل کی ہے۔ مذہبی جمہوریت، اسلامی جمہوریت۔ یہ ایک نئي بات ہے، اسے ہم نے دنیا کی سیاسی بحثوں میں، دنیا کے سیاسی ادبیات میں شامل کر دیا ہے، بظاہر تو یہ ایک لفظ ہے لیکن بباطن؟ اس کے باطن میں یہی چیز ہے جو دنیا کی پہلے درجے کی طاقتوں کو اس لفظ، اس حقیقت اور اس بات کے خلاف دشمنی اور عناد پر ابھار رہی ہے۔ مطلب یہ کہ اسلامی جمہوریہ کے اس قدم نے تسلط پسندانہ نظام کے طے شدہ منصوبوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ تسلط پسندانہ نظام نے دنیا چلانے کے لیے ایک معینہ منصوبہ تیار کر رکھا تھا۔ تسلط پسندانہ نظام کا مطلب میں بارہا بیان کر چکا ہوں۔ یعنی دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کرنا تسلط پسند اور جنھیں تسلط کا شکار بنایا جا رہا ہے، بیچ کی کوئي چیز نہیں ہے۔ کچھ لوگ تسلط پسند ہوں اور کچھ پر تسلط تھوپا جائے۔ یہ تسلط پسندانہ نظام ہے۔ انھوں نے دنیا کے لیے ایک خاص منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ کبھی سامراج کی شکل میں، کبھی نئے استعمار کی صورت میں، نئے استعمار کے بعد کبھی پوسٹ کالونیئل ازم کی شکل میں۔ ایک منظم پالیسی اور منصوبہ بندی دنیا کے لیے تیار کر رکھی تھی۔ اسلامی جمہوریہ کی اس نئي راہ نے ان کی منصوبہ بندی پر پانی پھیر دیا۔ اس لیے وہ اس کے خلاف ہیں، اس سے مقابلہ کر رہے ہیں۔

آپ اراکین پارلیمنٹ ہیں، آپ کی معلومات بہت زیادہ ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ کے خلاف جاسوسی، انٹرنیٹ، ٹی وی اور سیٹیلائٹ وغیرہ کے مراکز کتنے زیادہ فعال ہیں اور چوبیس گھنٹوں میں کتنے پیسے خرچ کیے جاتے ہیں، کتنے انسان، کتنے دماغ، ان ہی کے بقول تھنک ٹینکس بیٹھتے ہیں اور اسلامی جمہوریہ کے خلاف منصوبے بناتے ہیں؟! ایسا ہی ہے نا؟ البتہ اسلامی جمہوریہ سینہ تان کر کھڑی ہے، اس نے سر بلند کر رکھا ہے، وہ بڑے بڑے قدم اٹھا رہی ہے اور آگے بڑھتی جا رہی ہے۔ دشمن کامیاب نہیں ہو پائے ہیں۔ بنابریں، ملک چلانا کوئي آسان کام نہیں ہے، آپ اس طرح کے ایک مینیجمینٹ میں شامل ہیں۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ بات اس چیز کی موجب ہے کہ مینیجمینٹ کے تمام ارکان، اپنی نگرانی کو دو چنداں کر دیں۔ آپ منتظم ہیں، آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ آپ کیا کر رہے ہیں۔ حکومت کو بھی، عدلیہ کو بھی، مختلف اداروں کو بھی۔ جو بھی اس مینیجمینٹ میں کوئی رول رکھتا ہے، اسے معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کتنا بڑا اور اہم کام انجام دے رہا ہے۔

تو سب سے پہلے ہمیں صلاحیتوں کی آگہی ہونی چاہیے۔ دوسرے اپنی کمزوریوں اور کمزور پہلوؤں کی صحیح شناخت ہونی چاہیے، ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ ہماری صلاحیتیں کیا ہیں اور اپنے کمزور پہلو بھی معلوم ہونے چاہیے۔ فارسی میں رائج اصطلاح کے مطابق ‘چشم اسفندیار’ (6) (اسفندیار کی آنکھ) کو اپنے اندر تلاش کر لینا چاہیے، دیکھنا چاہیے کہ ہم کہاں سے چوٹ کھا سکتے ہیں؟ چوکنا رہنا چاہیے۔ ان کے علاوہ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ غلطی نہ کریں، خطا نہ کریں۔ دشمن اپنی صلاحیتوں سے پرامید ہونے سے زیادہ ہماری غلطیوں کی طرف سے امید لگائے ہوئے ہے کہ ہم کوئي غلطی کریں، فوجیوں کے بقول دشمن کو پہلو سے حملے کا موقع دیں۔ آپ دشمن کا سامنا کر رہے ہیں نا! اگر آپ نے غلطی کی اور دشمن نے آپ کو فریب دے دیا، آپ پر پہلو سے حملہ کر دیا تو پھر آپ کچھ نہیں کر سکتے۔ فوجی کمانڈر جنگ کے میدان میں جن چیزوں کے بارے میں محتاط رہتے ہیں کہ وہ نہ ہوں، ان میں سے ایک دشمن کو پہلو سے حملے کا موقع دینا ہے۔ ہمیں اس کی طرف سے چوکنا رہنا چاہیے۔ تو یہ پارلیمنٹ سے متعلق عمومی اور بنیادی باتیں تھیں۔

ہم نے کہا کہ “انقلابی پارلیمنٹ”! کچھ لوگوں کو یہ بات پسند نہیں آئي۔ لیکن ہم نے سچ بات کہی تھی۔ اب کچھ لوگوں کو اچھی لگتی ہے اور کچھ کو اچھی نہیں لگتی، کوئي بات نہیں۔ حقیقت یہی تھی کہ یہ پارلیمنٹ انقلابی نعروں سے تشکیل پائي۔ لوگوں نے دیکھا، انھوں نے ایسے امیدواروں کا انتخاب کیا جن کی راہ، جن کی سمت، جن کے نعرے اور جن کی بات، انقلاب کی بات تھی۔ تو لوگ اسی رجحان اور اسی راہ کے حامی ہیں جس کا آپ انقلابیوں نے اپنے شہر میں اور اپنے علاقے میں نعرہ لگایا ہے، بات کی ہے۔ بنابریں انقلابی پارلیمنٹ کا مطلب یہی تو ہے۔ انقلابی نعرے ملک کے مفاد میں ہیں۔ ان لوگوں کے برخلاف جو یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ انقلاب، ملک کے لیے درد سر ہے، جی نہیں حقیقت اس کے برعکس ہے، انقلاب، انقلابی نعرے اور انقلابی اہداف و مقاصد -البتہ ابھی ہم ان اہداف و مقاصد کو حاصل نہیں کر سکے ہیں لیکن ان کی طرف توجہ اور ان کی سمت بڑھنا- ملک کے آلام کا مداوا ہے۔ درد سر نہیں ہے، درد سر کا خاتمہ ہے۔ انقلاب ایسا ہے۔ البتہ سائبر اسپیس، سوشل میڈیا، کسی اخبار، کسی جریدے میں کسی کا اپنا نظریہ ہے اور وہ بیان کرتا ہے تو کوئي برائي نہیں ہے۔ بیان کرے! لیکن حقیقت یہی ہے کہ قدم، انقلابی قدم تھا، پارلیمنٹ بھی انقلابی ہے۔

البتہ برادران عزیز، خواہران عزیز! ایک بنیادی نکتہ، انقلابی بنے رہنا ہے۔ دیکھیے یہ نشست، بڑی اپنائیت والی، نجی اور برادرانہ نشست ہے۔ اس وقت پوری طرح سے میری نظروں میں ہے کہ کچھ لوگ تھے جو مثال کے طور پر سنہ 1979 میں، جب میں انقلابی کونسل کا رکن تھا اور ابھی صدر بھی نہیں بنا تھا، ہمارے پاس آتے تھے کہ ہم انقلاب کے مرکزی افراد میں سے تھے اور انقلابی جدوجہد میں فلاں فلاں کام کر چکے تھے، وہ لوگ آ کر بیٹھتے تھے، بڑی سخت باتیں کیا کرتے تھے، آتشیں باتیں! جن سے ہماری بھی آنکھیں کھلی رہ جاتی تھیں کہ بھئي یہ کون لوگ ہیں؟! انگریزی زدہ لوگوں کے بقول “سپر انقلابی”۔ پھر وہ لوگ چلے گئے اور انقلابی نہ رہے۔ وہی لوگ، اس طرح کے رویے کے باوجود، اس نظریے کے باوجود، انقلاب کی راہ پر سفر جاری نہ رکھ سکے، ان کا حوصلہ جواب دے گیا۔ دیکھیے اصل بات یہ ہے کہ ان میں حوصلہ نہیں رہا! کوئي یہ ظاہر کرنا چاہے کہ ہم نے دیکھا، ہمیں لگا کہ یہ انتخاب، اس انتخاب سے بہتر ہے۔ جی نہیں، یہ غلط بات ہے۔ اس راہ پر چلنے، اس راہ میں رکے رہنے کے لیے حوصلہ چاہیے تھا جو ان میں نہیں تھا۔ اگر میرا حافظہ غلطی نہیں کر رہا ہے تو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے سورۂ ہود کے بارے میں، اس آیت مبارکہ کے بارے میں جو کہتی ہے: “فَاستَقِم کَما اُمِرتَ وَمَن تابَ مَعَک.”(7) آپ خود بھی اس راہ پر ڈٹے رہیے اور استقامت کیجیے اور وہ لوگ بھی، جو آپ کے ساتھ خدا کی طرف بڑھے ہیں، استقامت کریں، مجھے ایسا لگتا ہے کہ -میں رجوع نہیں کر پایا- امام خمینی نے کہا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جو یہ فرمایا ہے کہ “شَیَّبَتنی سورَۃُ ھود”(8) اس آيت نے پیغمبر کو بوڑھا کر دیا۔ یہ اتنا زیادہ سخت ہے! فَاستَقِم کَما اُمِرت، اٹھ جائيے، ڈٹے رہیے، مضبوطی سے اسی راستے پر چلتے رہیے۔ تو دیکھیے کہ انقلابی ہونے اور انقلابی رجحانات رکھنے سے زیادہ مشکل، انقلابی بنے رہنا ہے۔ چاہے وہ ایک فرد ہو، معاشرہ ہو یا پھر پوری پارلیمنٹ ہو۔

اب سوال یہ ہے کہ انقلابی کسے کہتے ہیں؟ میں نے انقلابی رکن پارلیمنٹ کے لیے کچھ معیارات عرض کیے۔ آپ لوگ بحمد اللہ کامیاب ہیں، خداوند عالم نے آپ کو توفیق عطا کی ہے، آپ پارلیمنٹ میں ہیں، اچھے کام کر رہے ہیں۔ قالیباف صاحب کی یہ رپورٹ بھی میں نے سنی۔ البتہ باہر بھی یہ نمائش اور وہ تصاویر بھی ہم نے دیکھیں جو اس رپورٹ کی تشریح کرتی ہیں۔(9) اسی طرح پہلے جو رپورٹیں مجھ تک پہنچی ہیں، ان میں بھی ہم نے وہی دیکھا جو انھوں نے بیان کیا ہے، بحمد اللہ آپ کام کر رہے ہیں۔ لیکن پھر بھی یاددہانی اچھی چیز ہے۔ ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ اگر ہم انقلابی رکن پارلیمنٹ بنے رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں کیا کام کرنا چاہیے۔ میں نے کچھ نکات نوٹ کیے ہیں۔

سب سے پہلے سادہ زندگي گزارنا ہے۔ عیش و عشرت وغیرہ میں گرفتار نہ ہونا ہے۔ پارلیمنٹ میں آنے سے پہلے آپ کی ایک طرح کی زندگي تھی۔ اب آپ پارلیمنٹ میں آ گئے ہیں، یہ نہ سوچیے کہ اب جب ہم رکن پارلیمنٹ ہیں تو مثال کے طور پر ہمیں اس طرح زندگي گزارنی ہے۔ جی نہیں! سادگي سے زندگي گزارنا، وہی معمولی اور عام زندگي جو آپ کی تھی، اسی کو جاری رکھیے۔ دوسری چیز امانتداری ہے۔ امانتداری بہت اہم ہے۔ یہ آیت جو ہمارے اس محترم قاری نے یہاں پڑھی: اِنّا عَرَضنَا الاَمانَۃَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَ الاَرضِ وَ الجِبالِ فَاَبَینَ اَن یَحمِلنَھا وَ اَشفَقنَ مِنھا وَحَمَلَھَا الاِنسان(10) انسان نے امات کو قبول کیا، الہی امانت کو۔ اس الہی امانت کا ایک حصہ وہی ہے جو اس وقت آپ کے ہاتھ میں ہے، اس امانت کا ایک حصہ وہی ہے جو اس وقت آپ کے اختیار میں ہے! اس امانت کی بخوبی حفاظت کیجیے۔

ایک دوسری بات، ذمہ داری تسلیم کرنے کی ہے۔ آپ کوئي قانون منظور کرتے ہیں، اگر آپ کی نظر میں یہ قانون، اچھا قانون ہے اور اسے منظور ہونا چاہیے تھا تو مضبوطی سے کھڑے رہیے، کہیے کہ جی ہاں! میں نے اسے پاس کیا ہے۔ جی ہاں! ہم نے اسے منظور کیا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ہم کہیں کہ ہم اس قانون کو منظور کر رہے ہیں اور جانتے ہیں کہ نگراں کونسل اسے مسترد کر دے گي! تو اس کی ذمہ داری نگراں کونسل کے سر ڈال دیجیے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ قانون عملی شکل اختیار نہیں کر سکتا، بعض قوانین ایسے ہی ہیں۔ دیکھیے میں خود رکن پارلیمنٹ رہ چکا ہوں، میں پارلیمنٹ کو اندر سے جانتا ہوں، کبھی انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کے پاس جو وسائل ہیں، جو حالات ہیں ان کے ساتھ وہ اس قانون پر عمل نہیں کر سکتی۔ رکن پارلیمنٹ کہتا ہے کہ ٹھیک ہے، میں پاس کر دیتا ہوں، حکومت عمل نہ کرے، لوگ اس پر الزام لگائيں گے، اسے ذمہ دار ٹھہرائیں گے کہ کیوں عمل نہیں ہوا۔ نہیں! یہ ٹھیک نہیں ہے۔ ذمہ داری سے کام کرنے کا جذبہ ہونا چاہیے۔

دوسرا معیار عوامی ہونا ہے۔ عوامی ہونے کا کیا مطلب؟ عوامی ہونے کا مطلب ہے عام لوگوں کے درمیان گھل مل جانا، ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا، لوگوں کی باتیں بھی سننا اور انھیں حالات سے آگاہ رکھنے کے لیے صاف باتیں بھی کرنا۔ یہ کہ ہم لوگوں کے کسی اجتماع میں جائيں، ان کی کچھ باتیں ہیں، کچھ مطالبات ہیں، ان کی باتوں کو سنیں اور پھر کہیں کہ ہاں، آپ سو فیصد ٹھیک کہہ رہے ہیں اور جو لوگ بات نہیں مان رہے ہیں اور عمل نہیں کر رہے ہیں وہ ایسے ہیں، ویسے ہیں! نہیں! یہ کافی نہیں ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کے ذہن میں کوئي بات واضح نہیں ہوتی، کوئي گرہ ہوتی ہے، آپ کو اس گرہ کو کھولنا چاہیے۔ یہ جو بیان اور تشریح کے جہاد کی بات جو ہم نے عرض کی۔ (11) اس میں یہ چیزیں بھی شامل ہیں۔ کچھ مشکلات موجود ہیں۔ فرض کیجیے کہ کسی طبقے کا ایک مطالبہ ہے، آپ رکن پارلیمنٹ ہیں، ملک کی آمدنی اور خرچ سے مطلع ہیں، جانتے ہیں کہ یہ چیز عملی جامہ نہیں پہن سکتی۔ جب آپ کو معلوم ہے تو اس بات کے منتظر نہ رہیے کہ مثال کے طور پر حکومت یا عدلیہ کا کوئی رکن آئے اور کہے کہ ہم نہیں کر سکتے۔ نہیں، آپ کہہ دیجیے کہ نہیں ہو سکتا۔ مطلب یہ کہ لوگوں کی باتیں بھی سنیے اور ان کے ذہن کی الجھن کو بھی دور کیجیے۔ ممکن ہے کہ جو لوگ آپ کے سامنے ہیں، ان میں سے دو، تین یا دس لوگ یہ کہیں کہ “چھوڑو بھئي، اس نے بھی کوئي کام نہیں کیا!” انھیں کہنے دیجیے، آپ اپنی ذمہ داری پر عمل کیجیے۔ عوامی ہونے کا مطلب یہ ہے۔ یہ جو ہم کہتے ہیں عوامی ہونا، تو عوامی ہونا صرف یہ نہیں ہے کہ مثال کے طور پر ہم مسلسل عوام کی حمایت میں نعرے لگاتے رہیں۔ نہیں، ہمیں لوگوں کی مدد کرنی چاہیے۔ ‘مدد’ ان کی باتیں سننا بھی ہے، ان کے مطالبے کو عملی جامہ پہنانا بھی ہے اور ممکنہ صورت میں ان کے ذہن سے غلط فہمی اور الجھن کو دور کرنا بھی ہے۔

ایک اور بات ملک کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ مطلب یہ کہ حقیقت میں سب سے بنیادی مسائل کو دیکھیے، ان پر کام کیجیے۔ میں اس سے بہتر طور پر کہوں، ملک کے مسائل میں کچھ اصلی مسائل ہیں، کچھ ذیلی مسائل ہیں۔ جب تک اصلی مسائل ہمارے سامنے ہیں، تب تک ذیلی مسائل کی نوبت نہیں آتی۔ جب ہماری نظروں کے سامنے اصلی مسائل ہوں تو ذیلی مسائل کے چکر میں پڑنا، جائز نہیں ہے۔ بنیادی اور اصلی مسائل کو حل کرنے کے لیے کوشاں رہیے۔ موضوعات کو اصلی اور فروعی میں تقسیم کیجیے۔

اگلی بات، امتیازی سلوک اور بدعنوانی سے سنجیدگی سے اجتناب کی ہے۔ کبھی ہم کہتے ہیں کہ بدعنوانی کی سنجیدگي سے مخالفت، جی ہاں سبھی مخالف ہیں، ہم بھی مخالف ہیں۔ لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ یہ مخالفت دوسروں میں پائي جانے والی بدعنوانی کے بارے میں ہے، دوسروں میں پائے جانے والے امتیازی سلوک کے بارے میں ہے۔ لیکن ہمیں خود اپنی بھی نگرانی کرنی چاہیے، ہمیں خود بھی سنجیدگي سے کام کرنا چاہیے، فلاں اور فلاں کے اندر پائے جانے والے امتیازی سلوک اور بدعنوانی کے سلسلے میں بھی اور خود اپنے اندر پائے جانے والے امتیازی سلوک اور بدعنوانی کے بارے میں بھی۔

اگلی بات ملک کی انتظامیہ کے دیگر عہدیداروں کے ساتھ بھرپور تعاون کی ہے۔ ملک کی مشکلات میں سے ایک، عدم ہماہنگي رہی ہے۔ تینوں شعبوں اور تینوں محکموں کے ذمہ داروں کے درمیان عدم ہماہنگي۔ کبھی ذمہ داران، ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں، ایک ساتھ بیٹھتے ہیں اور اتفاق رائے پیدا کرتے ہیں لیکن خود ادارے کا ڈھانچہ اتفاق نہیں کرتا۔ یہ چیز ملک کا انتظام چلانے میں مشکل پیدا کر دیتی ہے۔ یہ ہمارا برسوں کا تجربہ ہے۔ آپس میں گہرا اور بھرپور تعاون ہونا چاہیے۔ ٹکراؤ نہیں ہونا چاہیے، فضول کا تصادم نہیں ہونا چاہیے۔ حکومت کے ساتھ، عدلیہ کے ساتھ، دوسروں کے ساتھ، ہر اس کے ساتھ جو کسی نہ کسی طرح کام کر رہا ہے، بھرپور تعاون ہونا چاہیے۔ تعاون کرنا چاہیے تاکہ ملک کے کاموں میں پیشرفت ہو۔ البتہ اگر انسان کو کسی فریق میں کوئي غلطی نظر آئے تو اسے صریحی طور پر یاد دہانی کرا دینی چاہیے۔ لیکن جہاں واقعی تعاون کی جگہ ہے، وہاں تعاون کرنا چاہیے۔

انقلابی رکن پارلیمنٹ کا ایک اور معیار یہ ہے کہ وہ عام لوگوں کے ساتھ، عوام الناس کے ساتھ ہوتا ہے، تاہم عوام زدہ نہیں ہوتا۔ میں آپ سے عرض کروں کہ کبھی بھی ماحول سے متاثر نہ ہوں۔ ان برسوں کے دوران ہماری بعض مشکلات کی وجہ یہ تھی کہ ہم ماحول سے متاثر ہو گئے۔ فرض کیجیے کہ ہم ایک میٹنگ میں ہیں، ملک کے اعلی رتبہ حکام -یہ وہ چیزیں ہیں جو ہو چکی ہیں اور میں نے اسی وقت اعتراض بھی کیا تھا- ایک نشست میں بیٹھے ہوئے تھے، مثال کے طور پر یونیورسٹی کے پروفیسر بھی وہاں موجود تھے، کسی نے کوئي چیز کہی، ان میں سے ایک نے فورا ایک بڑی سہولت، جس کی مصلحت بھی نہیں تھی، اسی وقت اپنی تقریر میں، میٹنگ میں موجود لوگوں کو دی، یہ ماحول سے متاثر ہونا ہے! اس کا کوئي فائدہ نہیں ہے، یہ نقصان دہ ہے۔ لوگوں کے ساتھ ہونا، عوام زدگي اور ماحول اور شور شرابے سے متاثر ہونے سے الگ چیز ہے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی ایک اہم خصوصیت یہی تھی۔ اگر ان کی کوئي رائے ہوتی تھی اور سب اس کے مخالف ہوتے تھے لیکن انھیں لگتا تھا کہ یہ رائے، الہی، شرعی اور صحیح را ئے ہے تو وہ ڈٹ جاتے تھے۔ کہتے تھے کہ اگر پوری دنیا بھی میری مخالف ہو تو ہو! قرآن مجید بھی پیغمبر اکرم کو یہی حکم دیتا ہے: وَ اِن تُطِع اَکثَرَ مَن فِی الاَرضِ یُضِلّوکَ عَن سَبیلِ اللَہ(12) یہ چیز قرآن میں کئي بار دوہرائي گئي ہے۔ انقلابی رکن پارلیمنٹ وہ ہے جو ماحول سے متاثر نہیں ہوتا۔ آپ نے ایک قانون پاس کیا، آپ کی نظر میں وہ صحیح قانون تھا، کچھ لوگوں نے مخالفت کر دی، البتہ کام کی ماہیت یہ ہے کہ آپ دیکھیے کہ یہ مخالفین ہیں یہ صحیح کہہ رہے ہیں یا نہیں؟ اگر ان کا استدلال صحیح ہو تو آپ مان لیجیے، اگر ان کی بات صحیح نہ ہو تو پھر آپ ڈٹ جائيے۔ کہیے کہ ہاں میں نے یہ قانون پاس کیا ہے، اس پر قائم بھی رہوں گا۔ یہ جو ویب سائٹوں پر، سوشل میڈیا وغیرہ میں ہمارے خلاف، ہماری پارلیمنٹ کے خلاف، اس سیٹ اپ کے خلاف، اس قانون کے خلاف ہنگامہ آرائي کرتے ہیں، یہ آپ کو جھکا نہ دے۔ انقلابی رکن پارلیمنٹ کی ایک خصوصیت یہ ہے۔

ایک اور بات، آئين کی پاسداری کی ہے۔ پارلیمنٹ کے کام میں ایک انتہائی اہم بات، آئین کی پاسداری کی ہے۔ جن جگہوں پر آئين نے ذمہ داری طے کر دی ہے، ان کی قطعی طور پر پابندی کی جانی چاہیے۔ آئين سے ذرہ برابر بھی انحراف نہیں ہونا چاہیے۔ البتہ کسی بل یا قانون کے آئين کے مطابق ہونے کے تعین کی ذمہ داری نگراں کونسل کی ہے لیکن آپ خود بھی بعض جگہوں پر جائزہ لے سکتے ہیں۔ اس کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ انقلابی رکن پارلیمنٹ کی، کہ ہم بھی انقلابی اراکین پارلیمنٹ کو خلوص دل سے چاہتے ہیں اور آپ کے انس رکھتے ہیں، کچھ نشانیاں یہ ہیں۔

ایک چیز جو انقلابی رکن پارلیمنٹ کی نشانی نہیں ہے، پروگراموں کے درمیان گرج کر اعتراض آمیز تقریر کرنا ہے۔ یہ تقریریں جو حضرات کرتے ہیں تو ایک شخص وہاں کھڑا ہو کر اعتراض کرنا شروع کر دے، یہ انقلابی ہونے کی قطعی علامت نہیں ہے۔ انقلابی ہونے کی علامتیں یہی ہیں جو ہم نے عرض کیں اور اسی طرح کی دوسری چیزیں۔ اعتراض کرنا اور غصہ دکھانا وغیرہ انقلابی ہونے کی علامتیں نہیں ہیں۔

البتہ پارلیمنٹ نے پچھلے دو برسوں میں گرانقدر کام انجام دیے ہیں۔ وہی جن کی طرف محترم اسپیکر جناب قالیباف نے اشارہ کیا، بہت ہی گرانقدر کام ہیں۔ ان میں سے بعض کے بارے میں ہمیں پوری تفصیل سے آگاہی ہے، بعض کے بارے میں سرسری اطلاعات ہیں، تفصیلات نہیں معلوم ہیں۔ وہاں، اس کاریڈور میں ان میں سے ہر ایک کی تفصیلات ایک کاغذ پر رقم تھیں جن پر میں نے ایک نظر ڈالی۔ یہ بہت گرانقدر ہیں۔ البتہ قانون سازی کے سلسلے میں میری کچھ گزارشات ہیں، جنھیں میں عرض کرتا ہوں۔

ایک گزارش یہ ہے کہ قانون جامع اور طویل المدت نظریے کے ساتھ بنائیے۔ جیسے ہی کوئي بات ہوتی ہے، چھوٹی یا اوسط درجے کی کوئی بات ہم فورا اس کے لیے ایک قانون بنانے میں لگ جائيں جس کے لیے حکومت کی تجویز بھی نہیں ہے، تجویز دینی پڑے گي! اس کے بارے میں بھی میں کچھ عرض کروں گا، اس کام کا نتیجہ یہ ہے کہ قانونوں کا انبار لگ جائے گا، قانونوں کی بہتات ہو جائے گی اور قوانین کی یہی مشکلات پیش آئيں گي۔ ان دو برسوں میں آپ نے قوانین کو چھانٹنے کے سلسلے میں اچھے کام کیے ہیں، قانونوں کو چھانٹنے کی ضرورت پیش آئے گي، مطلب یہ کہ قانونوں کا ڈھیر لگ جانا، کوئي آئيڈیل چیز نہیں ہے۔ جب پارلیمنٹ کوئي قانون بنانا چاہتی ہے تو اس طویل المدت نظریے کے ساتھ بنانا چاہیے، جامع نظریے کے ساتھ بنانا چاہیے۔ ہر چھوٹے اور جزوی مسئلے پر قانون بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ایک بات ہوئي۔

دوسری بات یہ ہے کہ ان قوانین کو اہمیت دی جانی چاہیے جو جنرل پالیسیوں میں نہاں ہوتے ہیں۔ آئين کے مطابق جنرل پالیسیاں تینوں اداروں کے سربراہوں یعنی تینوں اداروں کو بھیجی جاتی ہیں۔ اسلامی نظام کی یہ جنرل پالیسیاں حکومت، پارلیمنٹ اور عدلیہ کو بھیجی جاتی ہیں جن میں سے ہر ایک کی، ان کے سلسلے میں کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ پارلیمنٹ کی ذمہ داری یہ ہے کہ قانون سازی، ان پالیسیوں کے تناظر میں انجام دے۔ ان پالیسیوں سے متصادم نہ ہو۔ تو یہ بہت اہم ہے۔ اس پر توجہ دیجیے۔ اس وقت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مثال کے طور پر الیکشن کی جنرل پالیسیز -میرے خیال سے قالیباف صاحب نے بھی اس کی طرف ایک اشارہ کیا- اس وقت پانچ چھے سال ہو چکے ہیں، ان پالیسیز کا نوٹیفکیشن جاری ہوئے(13) لیکن ابھی تک اس سے متعلق قانون کی تدوین نہیں ہوئي ہے۔ یہ کام انجام پانا چاہیے۔ یا قانون سازی کی جنرل پالیسیاں(14) کہ اس کی بھی کچھ پالیسیاں ہیں، ان پالیسیوں کا جائزہ لیا گيا ہے۔ ان پر کام کیا گيا ہے، ان پر غور و خوض کیا گیا ہے۔ اس کا نوٹیفکیشن بھی میرے خیال سے دو تین سال ہو گئے کہ جاری ہو چکا ہے لیکن ان پالیسیوں کی بنیاد پر اب تک کوئي قانون نہیں بنایا گيا۔ تو یہ بھی ہماری ایک گزارش ہے۔

ایک دوسری گزارش، تجویز یا پلان کے سلسلے میں ہے۔ آپ ایک خلا محسوس کرتے ہیں، حکومت نے کوئي تجویز نہیں دی ہے یا اس کے پاس تجویز نہیں اور وہ نہیں دے رہی ہے۔ جیسا کہ ہو چکا ہے۔ اب سے کچھ سال پہلے ایک پارلیمنٹ کو تشکیل پائے کچھ عرصہ گزر چکا تھا، اراکین پارلیمنٹ حقیر کے پاس آئے اور انھوں نے شکایت کی، کہا کہ حکومت کوئی بل ہی پیش نہیں کر رہی ہے، پچھلے پانچ چھے مہینوں میں ایک بھی بل نہیں آيا ہے۔ تو پارلیمنٹ کی ذمہ داریوں میں سے ایک یہی تو ہے نا۔ اگر کوئي ضروری مسئلہ موجود ہو اور اس کی تجویز یا بل نہ ہو تو وہ خود بل تیار کرے، یہ اس کے حقوق میں سے ہے، پارلیمنٹ کے حقوق میں سے بھی ہے اور اس کی ذمہ داریوں میں سے بھی ہے کہ تجویز پیش کرے۔ البتہ ان شرائط کے ساتھ جن کا ذکر آئين میں ہوا ہے۔ لیکن میری گزارش یہ ہے کہ ان بلز کو زیادہ بڑھنے نہ دیجیے۔ مطلب یہ کہ زیادہ تجویر دی جائے، زیادہ بل تیار کیے جائيں تو اس میں پرابلم ہے اور میں نے سنا ہے، مجھے رپورٹ دی گئي ہے -میں قالیباف صاحب سے پوچھ نہیں پایا ہوں- کہ اس پارلیمنٹ میں بہت زیادہ، پچھلی پارلیمانوں سے زیادہ تجاویز پیش کی گئي ہیں اور بل تیار کیے گئے ہیں۔ یہ کام قابل تعریف نہیں ہے۔ جب آپ کوئي بل پیش کرتے ہیں، اس کے بعد مان لیجیے کہ وہ پاس ہو جاتا ہے، حکومت کے اختیار میں چلا جاتا ہے، مثال کے طور پر حکومت کہتی ہے کہ اس بل پر عمل نہیں کیا جا سکتا اور کسی بھی وجہ سے وہ اس پر عمل نہیں کر سکتی۔ اس صورت میں آپ کی ذمہ داری کا دائرہ بڑھ جاتا ہے۔ انسان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ حکومت سے کہے کہ اس نے اس قانون پر عمل کیوں نہیں کیا یا پارلیمنٹ سے کہے کہ اس نے کیوں ایسا قانون منظور کیا جس پر عمل نہیں ہو سکتا۔

یا تجاویز اور بلوں کا انبار۔ ان بلز کی ایک مشکل یہ ہے کہ عام طور پر جب بھی نئي پارلیمنٹ تشکیل پاتی ہے تو وہ پچھلی پارلیمنٹ کے باقی بچے بلوں کو الگ رکھ دیتی ہے۔ یہاں تک کہ بڑے اہم بلوں کو بھی، فوری اہمیت کے لحاظ سے پہلے اور دوسرے درجے کے بلوں کو بھی کنارے رکھ دیا جاتا ہے! مطلب یہ کہ جب نئي پارلیمنٹ تشکیل پاتی ہے تو وہ بل جسے پچھلی پارلیمنٹ نے بیٹھ کر، غور کر کے، کام کر کے پاس کیا تھا یا جو منظوری کے عمل میں بھی آ گيا تھا، اسے کنارے رکھ دیا جاتا ہے۔ اتنی زحمت، اتنا غور و فکر، اتنا وقت سب برباد ہو جاتا ہے۔ پھر جب بل زیادہ ہو جاتے ہیں تو ان کے بارے میں فیصلہ کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ اتنے سارے بلوں کے بارے میں اگر آپ کو مہارت کے لحاظ سے کام کرنا ہو تو یہ بہت مشکل کام ہے۔ یہ بھی ایک مسئلہ ہے۔

ایک دوسرا مسئلہ، بجٹ کا ہے جس کی طرف قالیباف صاحب نے اشارہ کیا۔ نہیں، انصاف سے کہا جائے تو بجٹ میں سدھار نہیں ہوا ہے۔ یعنی بجٹ کے غلط انضمام کا مسئلہ ٹھیک نہیں کیا گيا ہے کہ اس میں سے ایک حصہ حکومت سے متعلق ہے اور ایک حصہ پارلیمنٹ سے۔ میری اس بات کا خطاب زیادہ تر حکومت سے ہے اور میں یہ بات پہلے بھی کہہ چکا ہوں، ان شاء اللہ آگے بھی کہتا رہوں گا۔ لیکن اس میں آپ کا بھی کردار ہے۔ بجٹ کے سلسلے میں پارلیمنٹ جو کام کر سکتی ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ بجٹ کے خسارے میں اضافہ نہ کرے۔ یعنی وہ اخراجات جو ان کی آمدنی کا صحیح حساب کیے بغیر اور یہ معلوم کیے بغیر کہ اس آمدنی اور اس کا یہ منبع موجود ہے، طے کیے جاتے ہیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بجٹ کے سورسز، حقیقی نہیں خیالی ہوتے ہیں۔ ادھر خیالی سورسز کے مقابلے میں حقیقی اخراجات ہیں۔ یہ چیز بجٹ کے خسارے کو بڑھا دیتی ہے۔ بجٹ کا خسارہ برائیوں کی جڑ ہے۔ ہماری بہت سی معاشی مشکلات کا سبب، بجٹ کا خسارہ ہے۔ یہ بھی ایک مسئلہ تھا۔

ایک اور بات یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی مہارت کی بنیادوں کو مستحکم کیجیے۔ میں نے دو تین سال پہلے تحقیقات کے مرکز کے سلسلے میں گفتگو کی تھی اور اس کی تعریف کی تھی۔(15) تحقیقاتی مرکز بہت اہم ہے۔ جتنا ممکن ہو سکے، تحقیقاتی مرکز کی تقویت کیجیے۔ پارلیمنٹ کے تحقیقاتی مرکز میں بھی اور اسپیشل کمیشنز میں بھی، مہارتی سطح کا کام بہت مضبوطی سے انجام پائے۔ یعنی پارلیمنٹ کی مہارت کی بنیاد مزید مضبوط ہونی چاہیے۔ یہ بہت اہم کام ہے۔ مجھے پوری طرح سے یاد نہیں ہے لیکن تحقیقاتی مرکز سے حال ہی میں ہمارے پاس جو رپورٹیں آتی ہیں وہ بہت مسرت بخش نہیں ہیں۔

ایک اور اہم بات، ساتویں ترقیاتی منصوبے کی ہے جس کی تدوین آپ کو کرنی ہے۔ ساتواں ترقیاتی منصوبہ یعنی ملک کے اگلے پانچ برس کا پروگرام طے کیجیے۔ ساتواں منصوبہ ایک سال تاخیر کا بھی شکار ہے، یعنی پچھلے سال اسے مکمل ہو جانا چاہیے تھا لیکن نہیں ہوا۔ ان پانچ سالہ منصوبوں میں اور مروجہ اصطلاح کے مطابق ترقیاتی منصوبوں میں -میں اس “ترقیاتی” لفظ سے زیادہ متفق نہیں ہوں لیکن بہرحال رائج اصطلاح یہی ہے- عمومی اور کلی نکات کو بیان کرنے کا فائدہ نہیں ہے۔ کبھی کبھی ان ترقیاتی منصوبوں میں ایسے عموم نکات ہوتے ہیں کہ ان میں ہر ذوق کے اور ہر طرح کے اقدامات کو شامل کیا جا سکتا ہے۔ اس کا کوئي فائدہ نہیں ہے۔ منصوبے کو واضح طور پر راستہ دکھانا چاہیے اور حکومتی اداروں کے سامنے پیش کرنا چاہیے، ملک کے تمام ذمہ داروں کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔ ہمارے خیال میں اس کا راستہ یہ ہے کہ ساتویں منصوبے کو، مسئلوں پر مرکوز کیجیے۔ ساتویں منصوبے میں جو چیزیں اہم ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اسے ہر مسئلے پر مرکوز ہونا چاہیے۔

البتہ یہ بھی حکومت کی ذمہ داریوں میں سے ہے یعنی حکومت کو اس بات پر توجہ دینی چاہیے۔ ان شاء اللہ ہم حکومت والوں کو بھی یاد دہانی کرائيں گے، آپ بھی توجہ دیجیے۔ مثال کے طور پر کانکنی کے مسئلے کو لیجیے۔ ہم اس میدان میں بہت پیچھے ہیں۔ ہماری بنیادی مشکلات میں سے ایک، کانکنی ہے۔ ملک میں اتنی بڑی تعداد میں گرانقدر کانیں موجود ہیں اور ملک ان کی آمدنی سے، ان کے فائدوں سے، اب میں سو فیصد نہیں کہتا لیکن نوے فیصد تو محروم ہے ہی۔ بعض کانیں غیر استعمال شدہ ہی رہ جاتی ہیں، بعض ایڈیڈ ویلیو کے بغیر ہی ہاتھ سے نکل جاتی ہیں۔ کان میں موجود معدنیات پر کام ہوئے بغیر ہی وہ باہر نکل جاتی ہے۔ تو اب مثال کے طور پر کانکنی کے مسئلے کے لیے -یہ ملک کا ایک مسئلہ ہی ہے نا- ایک دستاویز تیار کیجیے۔ جیسے کانکنی سے متعلق دستاویز، صنعتوں سے متعلق دستاویز۔ ملک کے صنعت کار حضرات جو یہاں اکٹھا ہوئے تھے(16) میں نے ان سے کہا کہ ملک کی صنعتی دستاویز کیا ہے؟ ہم اگلے کچھ برسوں میں صنعت کے بارے میں کیا کام کرنا چاہتے ہیں؟ وہ جنرل دستاویز جو یہ بتائے کہ صنعت کے بارے میں ہماری اسٹریٹیجی کیا ہے، وہ دستاویز کہاں ہے؟ ایسی کوئي دستاویز ہمارے پاس نہیں ہے۔ زراعت کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ ملک کے وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ دستاویزیں تیار ہونی چاہیے، مختلف مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے، زمین سے استفادے کی منصوبہ بندی کے مسائل، جب زمین سے استفادے کی منصوبہ بندی پر توجہ نہیں دی جاتی تو پھر ہم مثال کے طور پر کسی کارخانے کو ایک ایسی جگہ پر کھڑا کر دیتے ہیں، جہاں اسے نہیں ہونا چاہیے تھا۔ یا کسی چیز کی زراعت کسی ایسے مقام پر کرتے ہیں، جہاں ہمیں نہیں کرنی چاہیے تھی۔ ایسا ہی تو ہے۔ تو ہماری کانوں کی صورتحال بھی اس شکل میں سامنے آتی ہے۔ بنابریں پانچ سالہ منصوبے کو مسائل پر مرکوز کرنا کہ یہ دستاویز، علمی و سائنسی بھی ہو، زمین سے استفادے کی منصوبہ بندی پر توجہ کے ساتھ بھی ہو، ملک کے وسائل پر توجہ کے ساتھ بھی ہو، یہ پانچ سالہ منصوبے کو فائدہ مند بنانے کا ایک راستہ ہے۔

ہماری ایک دوسری سفارش میڈیا کے ذریعے تشریح کی ہے۔ اب آپ کہیں گے کہ قومی نشریاتی ادارہ! ٹھیک ہے، قومی نشریاتی ادارے کی ایک ذمہ داری ہے، کبھی وہ انجام دیتا ہے، کبھی ممکن ہے کہ انجام نہ دے لیکن خود آپ کی بھی ذمہ داری ہے۔ آپ ایک قانون تیار کرتے ہیں، اس پر کام کرتے ہیں، مطالعہ کرتے ہیں، ہنگامے اور شور کے ساتھ اسے منظور کرتے ہیں لیکن لوگوں کے سامنے اس کی وضاحت اور تشریح نہیں کرتے کہ یہ قانون کیا ہے اور کیوں پاس ہوا ہے۔ تو جب آپ وضاحت نہیں کرتے تو کچھ لوگوں کو اس قانون کے خلاف بات کرنے، ماحول کھڑا کرنے اور اس کے خلاف شور مچانے کا موقع مل جاتا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ آپ کو اس قانون کی منظوری پر پچھتانے پر مجبور کر دیں۔ ایسا ہی ہے نا؟ بنابریں میڈیا میں قوانین کی تشریح بھی ان کاموں میں سے ایک ہے جنھیں خود آپ اراکین پارلیمنٹ کو انجام دینا چاہیے۔

ایک دوسرا مسئلہ جس پر میری توجہ ہے، سپریم آڈٹ کورٹ کامسئلہ ہے اور بحمد اللہ ان حالیہ برسوں میں آڈٹ کورٹ چست، فعال اور بہتر ہو گيا ہے۔ یعنی بجٹ سیٹلمینٹ کی رپورٹ اپنے وقت پر بہت جلدی اور اچھی طرح تیار ہوتی ہے، یہ بہت اچھی چیز ہے اور حال میں سرکاری کمپنیوں کی آڈٹنگ بھی کی گئي ہے۔ اسے جاری رہنا چاہیے۔ کچھ سرکاری کمپنیوں پر آڈٹ کورٹ کی توجہ ہے لیکن اگر یہ کام تمام سرکاری کمپنیوں کے ساتھ کیا جائے – میری ایک رائے ہے جسے میں بیان کر رہا ہوں، اس پر غور ہونا چاہیے- اور اگر یہ کام ہو جائے تو میری نظر میں یہ آپ کی پارلیمنٹ کے بڑے کارناموں میں سے ایک ہوگا۔

ایک سفارش تاکید کے ساتھ کرنا چاہتا ہوں۔ البتہ قالیباف صاحب نے، جب ہم اندر آ رہے تھے تو مجھ سے کہا کہ آپ نے کچھ عرصے قبل اس سلسلے میں کچھ بات کہی تھی(17) کہ اراکین پارلیمنٹ پوسٹوں پر تعیناتی وغیرہ میں مداخلت کرتے ہیں تو میرے رفقائے کار ناراض ہو گئے۔ میں آپ کی ناراضگي بالکل نہیں چاہتا اور اسے پسند نہیں کرتا لیکن میں آپ کو بھی بہت پسند کرتا ہوں اور آپ کی مصلحت کا خواہاں ہوں۔ واقعی آپ کو تعیناتی میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے! جی ہاں، انھوں نے کہا کہ بعض دوستوں کو یہ بات پسند نہیں آئي۔ نہیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے، آپ فرض کیجیے کہ جب آپ فلاں ڈائریکٹر جنرل، فلاں گورنر حتی متعلقہ وزیر وغیرہ کے بارے میں تجویز دیتے ہیں یا شاید خدانخواستہ دباؤ ڈالتے ہیں تو یہ اس بات کا موجب بنتا ہے کہ اگر اس شخص نے صحیح سے کام نہیں کیا تو انسان کو معلوم نہیں ہوتا کہ کس سے مؤاخذہ کرے۔ نہ لوگوں کو معلوم ہوتا ہے نہ عدلیہ کو معلوم ہوتا ہے۔ اس وزیر سے مؤاخذہ کیا جائے کہ کیوں اسے تعینات کیا یا اس رکن پارلیمنٹ سے پوچھے کہ اس نے کیوں دباؤ ڈالا۔ آپ یہ کام کیوں کریں؟ آئین کے اہم مسائل میں سے ایک یہی اداروں کی علیحدگي (Separation of powers) ہے۔ یعنی آپ اسے اپنا کام کرنے دیں اور خود اپنا کام کریں۔ اگر کوئي غلطی ہے تو مناسب اور ضروری شکل میں اس غلطی کی نشاندہی کیجیے۔ البتہ حکومتی عہدیداروں سے بھی میری ہمیشہ یہی گزارش رہی ہے۔ میں نے پہلے بھی ہمیشہ سفارش ہی ہے، اب بھی کر رہا ہوں کہ اراکین پارلیمنٹ کی آراء سے فائدہ اٹھائيے۔ رکن پارلیمنٹ اس شہر کا ہے، اس شہر کا نمائندہ ہے، اس جگہ کو جانتا اور پہچانتا ہے، یہاں کے مسائل کو جانتا ہے، لہذا رکن پارلیمنٹ سے مشورہ کرنا بہتر ہے۔ اسے یہ کام کرنا ہی چاہیے، اس کے جواب میں آپ بھی اسی طرح کام کیجیے۔ میرے خیال میں یہ اہم ہے۔

ایک اور مسئلہ لوگوں کی عزت کی حفاظت کا ہے۔ لوگوں کی عزت کا خیال رکھیے۔ کبھی انسان دیکھتا ہے کہ پارلیمنٹ میں کسی گفتگو میں، کسی تقریر میں -مجلس کا پلیٹ فارم، کسی ویب سائٹ اور سوشل میڈیا سے الگ ہے، یہ ایک اہم ذمہ دار مرکز ہے- اس پلیٹ فارم سے کسی وقت، کسی شخص کے بارے میں کچھ کہا جاتا ہے جس کی تحقیق اور تصدیق نہیں ہوئي ہے! اس کام کا بوجھ اور وبال، ختم ہونے والا نہیں ہے۔ آپ کس طرح اس کے بوجھ اور وبال کو ختم کرنا چاہتے ہیں؟ بعد میں اگر آپ کے لیے یہ بات ثابت ہو گئی کہ یہ بات حقیقت کے برخلاف تھی تو، انسان اس کی تلافی کس طرح کرے گا؟ بہت مشکل ہے۔ تلافی تو ممکن ہے لیکن بہت سخت ہے۔ خیال رکھیے کہ یہ کام نہ ہو۔

میری آخری بات یہ ہے کہ برادران عزیز، خواہران عزیز! آپ ذمہ دار ہیں۔ انسان کی ذمہ داری جتنی زیادہ ہوتی جاتی ہے، پروردگار عالم کی بارگاہ میں اس کا گڑگڑانا اور توسل بھی اتنا زیادہ ہونا چاہیے۔ عبادت کو، گڑگڑانے کو، دعا کو، اللہ کی بارگاہ میں توسل کو، قرآن مجید کی تلاوت کو مت بھولیے۔ یہ واجب اور ضروری کاموں میں سے ہیں، یہ آپ کی مدد کریں گے، یہ آپ کو خداوند عالم کے سامنے اور خدا کے بندوں کے سامنے سرفراز کریں گے۔ خداوند متعال سے مدد چاہیے، خداوند عالم سے توسل کیجیے، ا‏ئمہ ہدی علیہم السلام کو شفیع بنائیے، ائمہ کے وسیلے سے خداوند متعال سے درخواست کیجیے، مانگيے، خداوند عالم آپ کو برکت عطا کرے گا۔ یہ کام، آپ کے کام کی برکت میں اضافہ کرے گا۔ امید ہے کہ خداوند عالم آپ سب کو توفیق عطا کرے گا۔

اے پروردگار! تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ ہمیں اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ کر دے۔ ہمیں اپنی ذمہ داریوں پر عمل کی توفیق دے۔ اے پروردگار! یہ باتیں جو ہم نے کہیں اور سنیں، اس کہنے اور سننے کو اپنے لیے اور اپنی راہ میں قرار دے اور اسے ہمارے کام میں پیشرفت کا ذریعہ بنا دے۔ اے پروردگار! امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی روح مطہر، عزیز شہدائے کی ارواح طیبہ اور پرسوں شہادت کے درجے پر فائز ہونے والے اس شہید رضوان اللہ علیہ کی روح مطہر کو، جو میانہ کے رہنے والے تھے، پیغمبر کے ساتھ محشور کر اور ان کے درجات میں روز بروز اضافہ کر۔

والسلام علیکم و رحمۃ ‌اللہ و برکاتہ

(1) اس ملاقات کے آغاز میں مجلس شورائے اسلامی کے اسپیکر جناب ڈاکٹر محمد باقر قالیباف نے ایک رپورٹ پیش کی۔

(2) گوریلا جنگوں کا ہیڈکوارٹر

(3) سورۂ صف، آيات 10 سے 13، اے ایمان لانے والو! کیا میں تمھیں وہ تجارت بتاؤں جو تمھیں دردناک عذاب سے بچا دے؟ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے جہاد کرو کہ یہ (ایثار) تمھارے لیے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔ اللہ تمھارے گناہ معاف کر دے گا اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی اور تمھیں ابدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھر عطا فرمائے گا اور یہ خود ایک بڑی کامیابی ہے۔ اور وہ دوسری چیز، جسے تم پسند کرتے ہو وہ بھی تمھیں دے گا، اللہ کی طرف سے نصرت اور جلد ہی حاصل ہو جانے والی فتح …۔

(4) سورۂ آل عمران، آیات 194 اور 195، اے پروردگار! جو وعدے تو نے اپنے رسولوں کے ذریعے کیے ہیں، اُن کو ہمارے سلسلے میں پورا کر اور قیامت کے دن ہمیں رسوائی میں نہ ڈال، بے شک تو اپنے وعدے کے خلاف کرنے والا نہیں ہے۔ تو ان کے رب نے جواب میں فرمایا: “میں تم میں سے کسی کا بھی عمل ضائع کرنے والا نہیں ہوں خواہ وہ مرد ہو یا عورت، تم سب ایک دوسرے کے ہم جنس ہو …۔

(5) مصباح المتہجّد و سلاح المتعبّد، جلد 2، صفحہ 844، (دعائے کمیل) اے رب! اپنی خدمت کے لیے میرے اعضاء و جوارح کو مضبوط کر دے اور اپنی طرف رخ کرنے کے لیے میرے ارادہٴ دل کو مستحکم بنا دے۔ اپنا خوف پیدا کرنے کی کوشش اور اپنی مسلسل خدمت کرنے کا جذبہ عطا فرما تاکہ تیری طرف سابقین کے ساتھ آگے بڑھوں اور تیز رفتار افراد کے ساتھ قدم ملا کر چلوں ۔ مشتاقین کے درمیان تیرے قرب کا مشتاق شمار ہوں۔

(6) فردوسی کے شاہنامے میں رستم اور اسفندیار کی جنگ کی طرف اشارہ کہ اسفندیار کا واحد کمزور پہلو اس کی آنکھیں تھیں، کمزور پہلو کی طرف اشارہ

(7) سورۂ ہود، آيت 112

(8) المیزان فی تفسیر القرآن، جلد 6، صفحہ 388 (سورۂ ہود نے مجھے بوڑھا کر دیا۔)

(9) گيارہویں پارلیمنٹ کے اراکین کی خدمات کی ایک نمائش، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ امام بارگاہ میں منعقد ہوئي۔

(10) سورۂ احزاب، آيت 72، ہم نے اس (الہی) امانت کو آسمانوں، زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو وہ اُسے اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوئے اور اس سے ڈر گئے، مگر انسان نے اسے اٹھا لیا …۔

(11) حضرت فاطمہ زہرا کے یوم ولادت باسعادت پر مدح اہلبیت کرنے والے بعض مداحوں سے ملاقات میں تقریر، 23/1/2022

(12) سورۂ انعام، آيت 116، اور اے پیغمبر! اگر آپ ان لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلیں گے، جو اس سرزمین میں بستے ہیں، تو وہ آپ کو اللہ کے راستے سے بھٹکا دیں گے۔

(13) 15/10/2016

(14) 28/9/2016

(15) مجلس شورائے اسلامی کے اراکین سے ورچوئل ملاقات میں تقریر، 12/7/2020

(16) کاروباریوں اور اقتصادی میدان میں سرگرم افراد سے ملاقات کی طرف اشارہ، 31/12/2021

(17) مجلس شورائے اسلامی کے اراکین سے ورچوئل ملاقات میں تقریر، 27/5/2021

(18) کرنل حسن صیاد خدائي، اتوار، 22/5/2022 کو اپنے گھر کے سامنے انقلاب مخالف اور عالمی سامراج کے دہشت گرد پٹھوؤں کی فائرنگ میں پانچ گولیاں کھا کر درجۂ شہادت پر فائز ہوئے۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=34584

ٹیگز