5

حضرت ابرہیمؑ کے زمانے میں شرک اپنے عروج پر تھا اور لوگ بتوں کی پوجا کرتے تھے، علامہ سید تطہیر حسین زیدی

  • News cod : 35981
  • 09 جولای 2022 - 8:00
حضرت ابرہیمؑ کے زمانے میں شرک اپنے عروج پر تھا اور لوگ بتوں کی پوجا کرتے تھے، علامہ سید تطہیر حسین زیدی
یہ کوئی شرط نہیں ہے کہ قربانی کے مخصوص سات یا دس حصے بنائے جائیں اور زیادہ کی گنجائش نہیں بلکہ ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق اپنا حصہ قربانی میں ڈال کر اپنا مستحب عمل بجا لا سکتا ہے

جامع مسجد علی جامعتہ المنتظر میں خطبہ جمعہ سے خطاب کرتے ہوئے حجة الاسلام علامہ سید تطہیر حسین زیدی نے کہا حضرت ابراہیم ؑ نے ذات پروردگار کو تین امتحانات دیئے۔ ان میں سے ایک عقیدہ کا امتحان تھا۔ عقیدہ بہت مہم چیز ہے۔ عقیدہ کو درست کرنا بہت ضروری ہے۔ اگر اس دنیا میں عقیدہ درست نہ کیا اور قبر میں چلے گئے تو خسر الدنیا و الآخرہ بن جائیں گے۔ انہوں نے کہا عمرہ اور حج کے دوران منیٰ میں جو قربانی دی جاتی ہے۔ اس کے سوا جتنی بھی جس ملک میں بھی قربانی کی جاتی ہے وہ مستحب عمل ہے، کہ جس پر بہت زیادہ ثواب ملتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جانور کو مسلمان ذبح کرے اگر کوئی غیر مسلم ہزار تکبیریں پڑھ کر بھی اسے ذبح کرے، قربانی شمار نہیں ہوگی۔ یہ کوئی شرط نہیں ہے کہ قربانی کے مخصوص سات یا دس حصے بنائے جائیں اور زیادہ کی گنجائش نہیں بلکہ ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق اپنا حصہ قربانی میں ڈال کر اپنا مستحب عمل بجا لا سکتا ہے۔ ہزار آدمی بھی ایک قربانی میں شریک ہو سکتے ہیں اور چوتھا یہ کہ اگر انسان استطاعت رکھتا ہو تو مکمل جانور خریدے اور خود ذبح کرے یا اپنے ہاتھوں کا پالا ہوا ہے تو کوئی اور ذبح کرے اور اگر مکمل جانور خریدنے کی طاقت نہیں رکھتا تو قربانی میں شریک ہو جائے اگر اس کی قدرت بھی نہ رکھتا ہو تو قربانی کے جانور کو گھاس کھلا دے یا پانی پلا دے اگر یہ بھی نہ کر سکے تو اسے چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرے کہ ذات پرودگار اسے بھی آئندہ سال اپنی قربانی کرنے کی توفیق عطا فرمائے، مذکورہ طریقوں سے وہ قربانی کا ثواب حاصل کر سکتا ہے۔
حجت الاسلام علامہ سید تطہیر زیدی نے کہا حضرت ابرہیمؑ کے زمانے میں شرک اپنے عروج پر تھا اور لوگ بتوں کی پوجا کرتے تھے، آپ نے خالص توحید پہنچانے کیلئے مشرکین کو دعوت توحید دی اور ان کے عقائد درست کرنے کی کوشش کرتے رہے، یہ قوم جس میں حضرت ابراہیمؑ بھیجے گئے تھے۔ ستارہ پرست، بت پرست اور شاہ پرست بھی تھی۔ تینوں قسم کے شرک اس قوم میں موجود تھے۔ اس لئے حضرت ابراہیم ؑ نے ان کو توحید سے روشناس کرانے کیلئے ستارے کو دیکھا تو فرمایا کہ” کیا اسے میرا رب کہتے ہو؟ پھر جب وہ ڈوب گیا تو فرمایا کہ” میں ڈوبنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ یعنی جس میں ایسے تغیرات ہو رہے ہیں وہ خدا نہیں ہو سکتا۔ پھر اس کے بعد آپ نے چاند کو چمکتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کیا اسے میرا رب کہتے ہو؟ پھر جب وہ ڈوب گیا تو فرمایا اگر مجھے میرے رب نے ہدایت نہ دی ہوتی تو میں بھی گمراہ لوگوں میں سے ہو جاتا۔ اس میں اس قوم کو تنبیہ ہے کہ جو چاند کو معبود مانتے تھے، انہیں آپ نے گمراہ قرار دیا اور خود کو ہدایت پر۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ آپ کی یہ باتیں ان کو رد کرنے کیلئے ہی تھیں۔ چاند کے معبود نہ ہونے پر بھی آپ نے یہی دلیل بیان فرمائی کہ اس کا ایک حال سے دوسرے حال کی طرف منتقل ہونا قابلِ فنا ہونے کی دلیل ہے۔ پھر اس کے بعد آپ نے سورج کو جگمگاتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ” کیا اسے میرا رب کہتے ہو؟ یہ تو ان سب سے بڑا ہے، پھر جب وہ بھی ڈوب گیا تو فرمایا: اے میری قوم! میں ان چیزوں سے بیزار ہوں جنہیں تم اللہ کا شریک ٹھہراتے ہو۔ یوں حضرت ابراہیمؑ نے ثابت کردیا کہ ستاروں میں چھوٹے سے بڑے تک کوئی بھی رب ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا ،ان کا معبود ہونا باطل ہے اور قوم جس شرک میں مبتلا ہے آپ نے اس سے بیزاری کا اظہار کر دیا۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=35981

ٹیگز