17

پاکستان میں کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بن سکتا، مولانا فرحان علی کی وفاق ٹائمز سے خصوصی گفتگو

  • News cod : 37913
  • 12 سپتامبر 2022 - 20:21
پاکستان میں کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بن سکتا، مولانا فرحان علی کی وفاق ٹائمز سے خصوصی گفتگو
اگر کوئی قانون پارلیمنٹ سے قرآن و سنت کے خلاف بنتا ہے، تو فیڈرل شریعت کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے اور فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلے کے مطابق اسے کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے

مولانا فرحان علی جامعۃ الکوثر کا سابق طالبعلم ہے اور انہوں نے ابتدائی دینی تعلیم مدرسہ مظہر الایمان سے شروع کی. جب جامعۃ الکوثر میں تھا اس وقت انٹرنیشنل یونیورسٹی، الشریعۃ القانون میں داخلہ لیا وہاں شریعہ اور قانون کے تقابلی جائزہ پر ایک 5سالہ کورس مکمل کیا جس کو بی اے ایل ایل بی بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں بنیادی طور پر قانون اور فقہ حنفی اور فقہ تشیع پر ایک تقابلی جائزہ سٹڈی کیا جاتا ہے۔
وفاق ٹائمز نے فرحان علی سے قانون پاکستان اور عدالتی نظام کے بارے میں گفتگو کی ہے جو کہ قارئین کرام کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔
سوال: پاکستان کے آئین کے مطابق یہاں قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بن سکتا، کیا آئین کی اس شق پر عمل ہوتا ہے؟
سب سے پہلے یہ ہے کہ 1973 کے آئین کی شق 227 میں یہ کہا گیا ہے کہ پاکستان میں کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بن سکتا اگر وہ بنتا ہے تو رد کیا جائے گا۔
اس حوالے اگر دیکھا جائے تو فیڈرل شریعت کورٹ کو اسٹبلیش کیا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ اسلامی نظریاتی کونسل کو اسٹیبلیش کیا گیا تا کہ اسلامی نظریاتی کونسل پارلیمنٹ کو مشاورت دے سکے۔ اسکے علاوہ فیڈرل شریعت کو اسی لئے بنایا گیا تا کہ وہ یہ دیکھیں کہ آیا یہ جو قانون بن رہاہے قرآن و سنت کے مطابق ہے یا نہیں۔ اگر کوئی قانون پارلیمنٹ سے قرآن و سنت کے خلاف بنتا ہے، تو فیڈرل شریعت کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے اور فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلے کے مطابق اسے کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے۔
تو اس حوالے سے اگر دیکھیں تو پہلے صدر کے بہت اختیارات ہوا کرتے تھے اس کے پاس بہت پاور تھی لیکن جب اس آرٹیکل پر عمل شروع ہوا تو یہاں پر ہم دیکھتے ہیں کہ قصاص کے حوالے سے وہ اختیارات صدر سے لے لئے گئے ہیں. اب قتل کیس میں قاتل کو معاف کرنے کا حق فقط مقتول کے ولی کو ہی حاصل ہے۔
اسی طرح سود کے بارے میں فیڈرل شریعت کورٹ نے کچھ ہی دنوں پہلے یہ فیصلہ دیا تھا کہ پاکستان میں جو سود کا نظام ہے وہ قرآن و سنت کے مخالف ہے اور اسے کالعدم قرار دے دیا تھا۔
تو اس حوالے سے مذہب کی شقیں تھیں پاکستان کے فوجداری قوانین میں توہین مذہب کے حوالے 295 سے لیکر 298 تک؛ اس کو بھی فقہ حنفی کے ایک سکول آف تھاٹھ کے مطابق اسلامی قالب میں ڈالنے کی کوشش کی گئی اور وہاں پر بھی کوشش کی گئی کہ ان شقوں کو بالکل قرآن و سنت کے مطابق قرار دیا جائے۔
اگر ہم 1973 سے لیکر ابھی تک اس شق کا مطالعہ کریں تو کافی حد تک اس پر عمل کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور کافی حد تک اقدامات کئے گئے ہیں جس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس آرٹیکل پر کافی حد تک عمل درآمد ہو رہا ہے۔
سوال: آپ کے شعبے کی کیا خصوصیات ہیں اور آپ نے کیوں اسے خاص طور پر انتخاب کیا؟
سب سے پہلے خصوصیات تو یہ ہیں کہ ایک مدرسہ میں جو اصول فقہ کا طالبعلم ہے، وہ کچھ عرصہ جب اصول فقہ پڑھتا ہے تو اس کے اندر خود بخود قانون سے لگاؤ پیدا ہوتا ہے، وہ کسی بھی قانون کو چاہئے اسلامی ہو یا کوئی اور، اس کے پیچھے جو وجوہات ہوتی ہیں، دلائل ہوتی ہیں، انکی طرف جانے کی کوشش کرتا ہے تو اسی وجہ سے شوق پیدا ہوا اور موقع بھی میسر ہوا تو اس وجہ سے اس شعبہ کا انتخاب کیا۔
اس کے ساتھ ساتھ جب آپ نے اپنی فقہ کو پڑھا ہو اور آپ کو موقع ملے کہ فقہ حنفی کو پڑھیں اور ان کے درمیان تقابلی جائزہ کے حوالے ایک ڈگری تھی اس وجہ سے بھی کافی شوق پیدا ہوا کہ اس شعبہ کو انتخاب کروں۔
تو یہ وجوہات تھیں جس کی وجہ سے مدارس کے طلاب کو اس شعبہ کا انتخاب کرنا چاہئے تا کہ ان کو جدید تصورات کا بھی پتہ چلے، معاشرہ میں کون کونسے جدید موضوعات جنم لے رہے ہیں اور ان کو یہ بھی پتہ چلے کہ آج کے دور میں جو قانون بن رہا ہے اس میں اصول فقہ کا کیا کردار ہوسکتا ہے؟
تو ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ دنیا میں جو قانون بن رہا ہے اس کے مقابل میں ہماری فقہ و اصول کہاں پر کھڑی ہے۔
سوال: وہ طلاب کہ جو دینی مدارس میں علم فقہ پڑھتے ہیں اگر چاہیں تو کیسے اس فیلڈ میں وارد ہوسکتے ہیں؟ آپ انہیں کیا مشورہ دیتے ہیں؟
میرے خیال میں جو طلاب اصول الفقہ میں وارد ہوں اور انہیں شوق ہو، انہیں لازما اس فیلڈ میں جانا چاہئے۔
فقط اس لئے نہیں کہ آج کے طالبعلم نے اس فیلڈ کو پروفیشنل طور پر استعمال کرنا ہے بلکہ آپ اگر فقہ کو ماسٹر قوانین کی روشنی میں دیکھنا چاہتے ہیں ، اگر آج دنیا کے قوانین کے حوالے سے اپنی فقہ کو دیکھنا ہو اور جائزہ لینا چاہتے ہوں، تو ہمیں اس فیلڈ میں لازما جانا چاہیئے۔
اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ ایچ ایس سی ٹیسٹ لیتی ہے اور اس کے بعد آپ ادارہ میں جاتے ہیں اور وہاں پر میرٹ لیست بنتی ہے۔
طلاب کو اس حوالے سے میرا مشورہ یہ ہے کہ ہمیں ضرور اس فیلڈ میں جانا چاہئے۔
سوال: پاکستان میں لوگ عدالتوں کا زیادہ رخ نہیں کرتے، وہ عدالتوں سے انصاف کی توقع نہیں رکھتے، عالمی تحقیقات میں بھی پاکستانی عدالتیں بہت پیچھے ہیں۔ آپ کیا سمجھتے ہیں؟ اس کی وجوہات کیا ہیں؟
اسکی وجوہات اگر ہم دیکھیں تو سب سے پہلی وجہ تو یہ ہے کہ پاکستان میں آپ کی جو عدالتیں ہیں انہوں نے اس قانون کے مطابق چلنا ہے جو قانون پارلیمنٹ سے پاس ہوتا ہے۔
ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے جو قانون ساز ادارے ہیں وہ پراپر سے وقت کے مطابق قانون سازی نہیں کرتے یا ان کے نزدیک قانون سازی میں جو ترجیحات ہیں وہ بالکل مختلف ہیں اور عدالتی جو قوانین ہیں جن کے مطابق عدالتیں چلتی ہیں دور جدید کے مطابق انہیں قانون نہیں بنانا آرہا، جس کی وجہ سے عدالتوں میں انصاف کے بہت لمبے پروسز ہیں جس کی وجہ سے لوگ اکتا جاتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ عدالتوں میں نہ جائیں۔ اسلئے کہ اکثر ابھی تک برطانیہ کے قانون کے مطابق عدالتیں چل رہی ہیں تو اس وجہ سے عدالتوں میں ڈیلے کا پروسز ہوتا ہے اور لوگوں کو انصاف ملنے میں بہت دیر ہوجاتی ہے۔
یہ مین وجہ ہے کہ پراپر قانون سازی نہیں جس کی وجہ سے عدالتوں میں یہ مشکلات ہیں اور لوگ عدالتوں میں جانا پسند نہیں کرتے۔
اس کے ساتھ ساتھ ایک امپورٹنٹ وجہ یہ بھی ہے کہ خود عدالتوں میں فعالیت نہ ہونے کے برابر ہے اسکی کافی ساری وجوہات ہوسکتی ہیں. لیکن مین وجہ یہ ہے کہ آپ کی جو بڑی عدالتیں ہیں جیسے ہائی کورٹ، سپریم کورٹ اب اس میں کسی بھی جج کے تعیین کا مسئلہ ہے۔ چونکہ اس میں پولیٹیکل سیاسی گورنمنٹ ان ہوتی ہے جسکی وجہ سے عدالتوں میں سیاسی اثر و رسوخ زیادہ پیدا ہوتا ہے اور عدالتیں سیاسی اکھاڑے کی صورتحال اختیار کر جاتی ہیں۔
اسکے علاوہ بجٹ کا مسئلہ بھی ہے، پاکستان کے مسائل بہت زیادہ ہیں اور عدالتوں کے لئے جو بجٹ دی جاتی ہے، وہ بہت کم ہوتی ہے جسکی وجہ سے ایک ایک عدالت پہ بہت زیادہ وزن ہوتا ہے۔ عدالتوں میں کیسز بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے پراپر سے ججز مقدمات نہیں سن پاتے ہیں یا ایک مقدمہ کے لئے تاریخیں بہت لگتی ہیں. تو یہ سارے اس وجہ سے ہیں کہ مقدمات بہت زیادہ ہوتے ہیں اور اسی سے انصاف ملنے کیلئے بہت دیر ہوجاتی ہے۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=37913