23

حکیم الامت کے محضر میں

  • News cod : 4052
  • 16 نوامبر 2020 - 13:26
حکیم الامت کے محضر میں
حوزه ٹائمز | وہ انسان جو اپنی صلاحتیوں کو نکھارنے کے ساتھ ساتھ، دوسروں کے بارے میں بھی ایسا ہی سوچے، اور عملی طور ان کی صلاحتیوں کو پروان چڑھانے میں ان کا ساتھ دے، ایسا انسان خراجِ تحسین کا مستحق ہے، ایسا فرد معاشرے میں تحفہ خداوندی ہوتا ہے، اور اس کا باطن آئینے سے زیادہ صاف و شفاف ہوتا ہے

وہی جہاں ہے ترا —- جس کو تو کرے پیدا
یہ سنگ و خشت نہیں، جو تری نگاہ میں ہے
سنگ و خشت: اینٹ اور پتھر۔
انسان کو ربِ قدیر نے مختلف صلاحیتوں سے نوازا ہے، ان صلاحتیوں کو بروئے کار لا کر، انسان نہ صرف خود کامیاب ہو سکتا ہے، بلکہ معاشرے کی ترقی اور پیش رفت میں بھی اہم کردار ادا کر سکتا ہے، ان صلاحتیوں سے بھر پور استفادہ کرنے کے لئے – اولاً – تو ضروری ہے، کہ انسان کو اس بات کا پتہ ہو، کہ وہ ایک با استعداد مخلوق ہے، دوسرا یہ کہ: وہ اپنے لئے ایک مقصد کا تعین کر لے، البتہ یہ مقصد عظیم ہو، تیسرا یہ کہ: اپنی صلاحتیوں سے صحیح استفادہ کرنے لئے، جُہدِ مسلسل کو اپنا شعار بنا لے، اور صبر و تحمل، عزم و ہمت، اور پختہ ارادے کے ساتھ اپنی منزل کی طرف عازمِ سفر رہے، چوتھا یہ کہ: حالات چاہے کتنے ہی سخت کیوں نہ ہو، کبھی بھی نا امیدی اور مایوسی کا احساس نہیں ہونا چاہیے، اور شکست کو کبھی بھی اپنے تصور میں جگہ نہیں دینی چاہیے، اور ان سے اہم یہ کہ اللہ تعالی کی ذات پر بے پناہ توکل، مکمل یقین، اور پکا ایمان ہونا چاہیے، کیونکہ ہر کامیابی، فتح و نصرت، اور جیت اسی کی بارگاہ سے ملتی ہے۔
اور وہ انسان جو اپنی صلاحتیوں کو نکھارنے کے ساتھ ساتھ، دوسروں کے بارے میں بھی ایسا ہی سوچے، اور عملی طور ان کی صلاحتیوں کو پروان چڑھانے میں ان کا ساتھ دے، ایسا انسان خراجِ تحسین کا مستحق ہے، ایسا فرد معاشرے میں تحفہ خداوندی ہوتا ہے، اور اس کا باطن آئینے سے زیادہ صاف و شفاف ہوتا ہے۔ خدا کے برگزیدہ بندے ایسے ہی انسانوں کی تربیت کرنے آئے تھے، انبیاء کرام (علیہم السلام) جہاں معاشرے میں کفر وشرک کے اندھیرے ختم کرکے توحید کا نور پھیلانے آئے تھے، وہاں وہ ایسے معاشرے کی تشکیل کے لئے کوشاں رہے، جس کا ہر فرد انسان ساز اور ملت ساز ہو، جو انفرادی کامیاب سے زیادہ اجتماعی کامیابی کے لئے تگ و دو کرے، جو خود بھی ربِ ذو الجلال تک پہنچے، اور ساتھ خلقِ خدا کو بھی خالق تک پہنچانے کے لئے کوشش کرے، اور انسان کے اندر تخلیقی صلاحتیوں کو نکھار کر، اسے معاشرے کا کامیاب فرد بنائے۔ اور یہ بات ذہن نشین رہے، کہ جب انسان اپنی استعداد کی طرف متوجہ ہوتا ہے، اور اس بات کا یقین کر لیتا ہے کہ خدا نے اسے بیکار پیدا نہیں کیا ہے، تو وہ کبھی بھی نقالی اور تقلید کو پسند نہیں کرے گا، بلکہ ہمیشہ ایجاد، ابتکار، اور تخلیقی کام کے لئے پر عزم رہے گا، اور ہمیشہ تولیدی کام کرے گا۔
حضرت علامہ مسلم معاشرے کو اس اہم صفت کی طرف متوجہ کرنے لئے مسلسل کوشاں رہے، آپ کے تصور میں تخلیق کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، آپ کے نزدیک نقالی، دوسروں کی اندھی تقلید، اور غیر کی اتباع وقت کا ضیاع، اپنی صلاحتیوں کو ناکارہ کرنا، اور بے سود کام ہے، پیامِ مشرق میں آپ کا ایک منفرد، الہامی اور لا زوال قطعہ ہے، جس میں آپ اسی تناظر میں کہتے ہیں:
تراش از تیشۂ خود، جادۂ خویش
براہِ دیگران — رفتن عذاب است
گر از دستت ——– کارِ نادر آید
گناہی ہم اگر باشد — ثواب است
(اپنا راستہ اپنے تیشہ سے خود بنا ؛ دوسروں کے بنائے ہوئے راستے پر چلنا (دوسروں کی اندھی تقلید کرنا) عذاب ہے۔ اگر تیرے ہاتھ سے کوئی نادر کام ہو جائے ، اگر وہ گناہ ہے تو بھی تجھے اس کا ثواب مل جائے گا)
یہ ہرگز نہ سمجھنا کہ علامہ یہاں گناہ کی دعوت رہے ہیں، ہر گز نہیں، بلکہ وہ امتِ مسلمہ کو دعوت دے رہے ہیں، کہ وہ کوئی تخلیقی، کوئی نیا کام انجام دے، کب تک مسلمان دوسروں کی تقلید کرتے رہیں گے؟! کب تک؟! آخر کب تک!؟؟
مندرجہ بالا شعر بھی اسی تناظر میں کہا گیا ہے، اور اس میں عجیب دعوتِ فکر ہے، علامہ صاحب ہمیں مخاطب کرکے کہتے ہیں کہ تم یہ سمجھتے ہو، کہ یہ جو چاند تارے، زمین و آسمان، اور صحرا اور سمندر تمہارے سامنے ہیں، تم اس کو اپنی دنیا سمجھتے ہو؟ یہ تمہاری دنیا کب سے ہوئی؟ تمہاری دنیا تو وہ ہے جسے تو اپنی محنت سے پیدا کرے۔ دوسرے لفظوں میں گویا کہہ رہے ہیں، کہ اے دورِ حاضر کے مسلمان، تم کب تک دوسروں کے بنائی ہوئی دنیا میں رہو گے؟! کب تک تم دیگر اقوام کی اندھی تقلید کرو گے؟! کب تک مغربی تہذیب تمہاری آنکھوں کو خیرہ کرتی رہے گی؟! یہ ملحد اور بے دین کب تک تمہاری تقدیر کے فیصلے لکھیں گے، اٹھو، اور اپنے عزم و حوصلے، انتھک محنت، مسلسل جدوجہد، اور پختہ ارادے سے ایک نئے جہاں کی تخلیق کرو، ایک نئی فضا قائم کرنے کی کوشش کرو، ایسی فضا جہاں توحیدِ خدا حاکم ہو، جہاں عدل و انصاف کا نور ہو، جہاں انسان عزیز اور ظالم سرنگوں اور خوار ہو۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=4052