13

تمام امت پر امام کی اطاعت و اتباع واجب ہے، حجت الاسلام والمسلمین فدا علی حلیمی

  • News cod : 43934
  • 10 فوریه 2023 - 21:52
تمام امت پر امام کی اطاعت و اتباع واجب ہے، حجت الاسلام والمسلمین فدا علی حلیمی
حجت الاسلام والمسلمین فدا علی حلیمی نے کہاکہ منبر پر عموماً ہماری کوشش یہ ہوتی ہے کہ ہم بولنا سیکھ جائیں اور اسی وجہ سے ہمیں بولنا تو آجاتا ہے لیکن کیا بولنا ہے کیوں بولنا ہے کب اور کہاں بولنا ہے اس کی طرف توجہ نہیں ہوتی حالانکہ بولنے کے ساتھ ساتھ ان چیزوں کو بھی سیکھنے کی ضرورت ہے۔

وفاق ٹائمز کے نامہ نگار کی رپورٹ کے مطابق، مدرسہ امام المنتظر قم میں جشن ولادت با سعادت حضرت امام علی علیہ السلام سے خطاب میں حجت الاسلام والمسلمین فدا علی حلیمی نے کہاکہ منبر پر عموماً ہماری کوشش یہ ہوتی ہے کہ ہم بولنا سیکھ جائیں اور اسی وجہ سے ہمیں بولنا تو آجاتا ہے لیکن کیا بولنا ہے کیوں بولنا ہے کب اور کہاں بولنا ہے اس کی طرف توجہ نہیں ہوتی حالانکہ بولنے کے ساتھ ساتھ ان چیزوں کو بھی سیکھنے کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے انسان کامیاب ہوجاتا ہے کیونکہ اگر فقط بولنا سیکھ لیں تو لوگوں کو مجلس میں روکنے کے لئے تو اچھا ہے مگر آگے بڑھانے کے لئے یہ طریقہ موثر نہیں ہے کیونکہ فقط بولنا کافی نہیں ہے
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ہمیشہ کوشش کی جائے کہ واقعی منظم ، مرتب ، مستند اور علمی گفتگو کی جائے اور خیالی گفتگو سے پرہیز کیا جائے کیونکہ انسان کو اس گفتگو سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔

مناسبت کے حوالے سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک فرمان پیش خدمت ہے “ان وصیی و خلیفتی من بعدی علی بن ابی طالب” میرے بعد میرا وصی اور جانشین علی بن ابی طالب ہوگا۔ علی بن محمد بن قمی الخزاز کہ جو معروف اصحاب میں سے ہیں اور شیخ مفید کے ہم عصر تھے اور ان کے بارے میں نجاشی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں “انہ ثقة من اصحابنا کان فقیها وجیها” یہ ہمارےاصحاب میں سے موثق فقیہ اور وجیہ انسان تھے اس بزرگوار نے ایک کتاب لکھی ہے بنام “الکفایۃ فی النصوص عن عدد الآئمہ اثنی عشر” کہ جس میں ٹوٹل ۱۸۸ روایات کو نقل سلسلہ سند کے ساتھ نقل کیا ہے اور ان میں سے ۱۲۵ روایات رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہیں۔ وہ روایت کہ جس کو سر نامہ کلام میں ذکر کیا وہ عبد اللہ بن عباس رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل فرماتے ہیں۔اسی طرح ایک روایت جناب سلمان فارسی سے ہے کہ جس میں تمام آئمہ کا نام ذکر کرنے کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں۔ اولھم و سیدھم علی بن ابی طالب ان میں سے اول اور سردار علی بن ابی طالب ہی اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ امامت کیا ہے؟ اور دوسرا سوال کیا ہے کہ امام کون بن سکتا ہے؟

انہوں نے کہاکہ ارباب معاجم نے امام کا معنی اس طرح بیان کیا ہے”کل من ائتَمَّ به قومٌ” وہ شخص جس کی اقتدا میں چلا جائے وہ شخص جو رہبر اور پیشوا ہو اور دوسروں کی رہنمائی کرے۔ امام کا اصطلاحی معنی کیا ہے اس کے لئے سب سے پہلے مکتب اہل سنت کے علماء کی گئی تعریفات کو بیان کرتے ہیں۔1) قاضی عبد الجبار معتزلی اپنی کتاب شرح اصول خمسہ میں لکھتے ہیں”اسم لہ ولایۃ علی امۃ وتصرف فی امورھم علی وجہ لا یکون فوق یدہ ید”ایسا شخص جس کے پاس امت کا اختیار ہو اور ان پر امور پر تصرف بھی حاصل ہو اس طرح سے کہ اس منصب کے اوپر کوئی منصب نہ ہو۔

2) قاضی عز الدین اپنی کتاب المواقف میں لکھتے ہیں
الامامۃ ریاسۃ فی امور الدین والدنیا
امامت دین اور دنیا کے امور میں سرپرستی کا نام ہے

3) سید میر شریف کتاب المواقف کی شرح میں لکھتے ہیں
خلافۃ رسول فی اقامۃ الدین و حفظ نوع الملۃ بحیث یجب اتباعہ علی کافۃ الامۃ
دین کے اجراء اور نوع انسانیت کی حفاظت میں رسول کی جانشینی کو امامت کہتے ہیں اس طرح سے کہ تمام امت پر اس کی اتباع واجب ہو۔

4) تفتازانی اپنی کتاب شرح المقاصد میں لکھتے ہیں
ھی ریاسۃ عامۃ فی امر الدین و الدنیا خلافۃ عن النبی
امامت دین اور دنیا کے امور میں نبی کی جانشینی میں ملے عمومی ریاست کو کہتے ہیں

5) کتاب عقائد نسفیہ کہ جو تدریسی کتاب شمار ہوتی ہے اس کے مصنف لکھتے ہیں
نیابۃ عن الرسول فی اقامۃ الدین بحیث یجب علی الامم اتباعہ
دین کے اجراء میں رسول کی نیابت کو امامت کہتے ہیں اس طرح سے کہ تمام امتوں پر اس کی اتباع واجب ہے

6) ابو الحسن کتاب الاحکام السلطانیہ میں لکھتے ہیں
الامامۃ موضوعۃ للخلافۃ النبوۃ فی حراسۃ الدین و سیاسۃ الدنیا
امامت نبوت کی جانشینی میں وضع کیا گیا منصب ہے دین کی حفاظت اور دنیا کی سیاست میں

اب اہل تشیع کے مکتب سے کچھ علماء کی تعریف کو بیان کرتے ہیں

1) شیخ مفید اپنی کتاب میں اس طرح لکھتے ہیں
الامام ھو الانسان الذی لہ ریاسۃ عامۃ فی امور الدین والدنیا نیابۃ عن النبی
امام اس شخص کو کہا جاتا ہے کہ جس کے پاس عمومی ریاست ہوتی ہے دین اور دنیا کے امور میں نبی کی جانشینی کے عنوان سے

2) علامہ حلی اپنی کتاب باب حادی عشر میں لکھتے ہیں
الامامۃ ریاسۃ عامۃ فی امور الدین والدنیا نیابۃ عن النبی لشخص من الاشخاص
امامت عمومی ریاست کو کہتے ہیں دین اور دنیا کے امور میں نبی کی جانشینی کے عنوان سے لوگوں میں سے کسی بھی فرد کے لئے

3) شیخ محمد حسن اپنی کتاب دلائل الصدقمیں لکھتے ہیں
هي خلافة الرسول في إقامة الدين ، بحيث يجب اتّباعه على كافّة الأمّة

انہوں نے مزید کہاکہ امامت رسول کی جانشینی کا نام ہے دین کے اجراء میں اس طرح سے کہ تمام امت پر امام کی اطاعت و اتباع واجب ہے۔ اہل سنت کی تعریفات تو بہت اچھی ہیں لیکن عملی طور پر وہ ان تعریفات پر عمل پیرا نہیں ہیں۔ ان تمام تعریفات کو دیکھا جائے تو خلاصہ یہ ہے کہ امامت یعنی رسول کی جانشینی و استمرار میں ایک مقام و منصب کا نام ہے یعنی رسول جسے منصوب کریں تو وہ امام ہے لیکن جسے ہم منصوب کریں تو وہ رسول کا نہیں بلکہ ہمارا نمائندہ ہے اسی وجہ سے ابتداء میں خلفاء کو خلیفہ المسلمین کہا جاتا تھا پھر آہستہ آہستہ خلیفہ الرسول کا عنوان غالب آگیا

انہوں نے کہاکہ اس کے بعد جسے امام بننا ہے تو وہ دین کی حفاظت کرسکتا ہو دین کا اجراء کرسکتا ہو اور اس کے لئے دین کا مکمل جاننا ضروری ہے ورنہ وہ شخص جو جاھل ہو یا ناقص علم رکھتا ہو تو وہ امام نہیں بن سکتا۔اس کے علاوہ امام دنیا کے امور کی مدیریت بھی کرسکتا ہو لیکن اگر اس میں یہ صلاحیت موجود نہ ہو تو وہ امام نہیں بن سکتا۔ اس کے علاوہ امام اس شخص کو کہا جاتا ہے کہ جس پر تمام امت کی اتباع واجب ہوجاتی ہے چاہے امت کے لوگ پڑھے لکھے ہوں یا جاہل ، مرد ہوں یا عورت جو بھی طبقہ ہو اس پر امام کی پیروی کرنا واجب ہے تو یہ وجوب اطاعت امام کہاں سے پیدا ہوگا اس کا منشا کیا ہے حالانکہ ہمارے برداران کی کتابوں میں موجود ہے کہ اگر ایک شخص ظالمانہ طریقے سے حکومت پر آ جائے تو بھی اس کی اطاعت واجب ہوجاتی ہے تو اب اس اطاعت کا منشاء کیا ہے چونکہ وقت ختم ہوگیا ہے بقیہ گفتگو انشاء اللہ اگلی فرصت میں کریں گے۔

 

 

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=43934