5

تشیع کا سیاسی نظریہ (۵)

  • News cod : 4436
  • 28 نوامبر 2020 - 10:41
تشیع کا سیاسی نظریہ (۵)
حوزہ ٹائمز|اسلام دشمنی اور غربی استعماری آقاؤں کی خوشنودی کے لیے رضا خان نے کئی نئے اقدامات کیے اور اسلامی تعلیمات کا مقابلہ کرنے کے لئے مختلف منصوبے اور حربے جنم دیئے

استعمار کا اثر و رسوخ
مغربی استعمار نے برطانوی استعمار کے ساتھ مل کر تین ممالک ایران ، ترکی اور افغانستان میں غربی ثفافت اور دین و سیاست کی جدائی کے نظریے کو پھیلانے کے لئے بڑے پیمانے پر تمام وسائل کے ساتھ ایک جال بچھایا اور ان ممالک میں اپنے مامور مقرر کئے:
۱۔ ایران میں رضا خان
۲۔ ترکی میں کمال اتاترک
۳۔ افغانستان میں امان‌ الله خان۔
ان تین افراد نے استعماری پشت پناہی سے اسلام اور اسلامی افکار و نظریات کو شدید نقصان پہنچایا۔
کمال اتاترک ترکی میں لادین حکومت کا بانی قرار پایا اور اس کی نافذ کردہ لادینیت کی تاریکی میں آح بھی ترکی ڈوبا ہوا ہے۔
امان اللہ خان کو افغانستان میں لا دینی حکومت کا بانی قرار دیا گیا اور اس نے حکومت کی تشکیل کے ذریعے افغانستان کی سرزمین پر اسلام کا نام و نشان مٹانے کی حتی الامکان کوشش کی۔
لیکن اس کی حکومت زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکی اور مسلمانوں نے مسلسل مقاومت کر کے اس کی حکومت کو گرا دیا۔
ایران میں یہی کام رضا خان کے ذریعے انجام دیا گیا جس نے اپنی ڈکٹیٹر شپ قائم کر کے ایران میں غیر اسلامی قوانین اور طور طریقے رائج کیے۔
رضا خان نے اپنی حکومت قائم کرنے کے بعد مرکز تشیع ایران میں ۱۷ دی سال ۱۳۱۴ ق کو حجاب پر قانونی طور پر مکمل پابندی عائد کر دی۔
رضا خان کے بعد اس کا بیٹا محمد رضا پہلوی آیا۔
اسلام دشمنی اور غربی استعماری آقاؤں کی خوشنودی کے لیے اس نے کئی نئے اقدامات کیے اور اسلامی تعلیمات کا مقابلہ کرنے کے لئے مختلف منصوبے اور حربے جنم دیئے۔ اس دوران علماء کرام کی خاص تعداد نے مبارزہ آرائی شروع کر دی اور اسلام مخالف قوتوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کیا۔ رضا خان نے مد مقابل مخالفین کو برے طریقے سے کچلا اور ظلم و تشدد کی داستان رقم کرتے ہوئے اس سرزمین کو خاک و خون میں ڈبو دیا۔ اسی اثناء میں امام خمینی کی قیادت سامنے آئی جن کا بھر پور ساتھ عوام الناس نے دیا یہاں تک کہ رضا خان نے اسلامی بنیادوں پر ہونے والے عوامی قیام اور انقلاب کے سامنے گھٹنے ٹیکے دیئے اور ملک سے فرار اختیار کیا۔
رضا خان کے فرار کے بعد یہاں حکومت اسلامی تشکیل پا گئی اور اس طرح ایران کی سرزمین ترکی اور افغانستان کی نسبت ایک محکم حکومتی نظام اور بھر پور قیادت سے ہمکنار ہوئی جس کی وجہ سے استعماری قوتوں کے ساتھ ابھی بھی جنگ جاری ہے۔ آج بھی اس مبارزہ آرائی میں مغرب زدہ افراد دین اور سیاست کی جدائی کا نعرہ لگا کر حکومتِ اسلامی اور ولایت فقیہ کو سبکدوش کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کے ان شیطانی عزائم کے سامنے با بصیرت مخلص طبقہ بھر پور قوت کے ساتھ اپنے قدموں پر کھڑا ہے اور دن بدن قوی سے قوی تر ہوتا جا رہا ہے۔
ان مقدماتی نکات کے بعد اب دینی نصوص اور دیگر جہات سے جائزہ لیتے ہیں کہ دین کا سیاست سے کس قدر گہرا تعلق ہے:
{مرتب:فیاضی}

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=4436