8

آج مہدوی ابحاث پر کام کرنے کی ضرورت ہے خصوصاً پاکستان میں ان ابحاث کی سخت ضرورت ہے، حجت السلام علی اصغر سیفی

  • News cod : 44806
  • 09 مارس 2023 - 17:42
آج مہدوی ابحاث پر کام کرنے کی ضرورت ہے خصوصاً پاکستان میں ان ابحاث کی سخت ضرورت ہے، حجت السلام علی اصغر سیفی
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں لَوْ أَدْرَکْتُهُ لَخَدَمْتُهُ أَیامَ حَیاتِی اگر میں ان کو پالیتا تو اپنی تمام عمر ان کی خدمت کرتا۔ آئمہ علیہم السلام امام زمانہ(عج) کی نسبت اس طرح کے احترام کے قائل تھے اور یہی احترام ان کے شاگردوں میں منتقل ہوا۔

وفاق ٹائمز کی رپورٹ کئ مطابق، مدرسہ امام المنتظر ع قم میں ولادت امام زماں ع  کی مناسبت سےجسن کا اہتمام کیا گیا جس سے حجت السلام علی اصغر سیفی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ  آج کا دن بہت بابرکت دن ہے اور آج اس ہستی کی ولادت کا دن ہے کہ شرق و غرب جس کے اختیار میں ہیں اور وہ ایک دن اس زمین سے ظلم و ستم کو ختم کرکے اسے جنت کا ٹکڑا بنا دے گا دعا ہے کہ خداوند متعال ہمیں وہ دن اپنی آنکھوں سے دیکھنا نصیب کرے
انہوں نے کہا کہ آج کے دن جہاں جہاں پر بھی ان کے ماننے والے موجود ہیں ایک چشن کا اہتمام ہے ہر گلی و محلہ میں چراغاں ہے فضائیں مہدی(عج) کی خوشبو سے معطر ہیں اور شعراء حضرات اپنے انداز میں ان کی مدح سرائی کررہے ہیں شعراء سے تو آئمہ علیہم السلام خاص لگاؤ رکھتے تھے خاص محبت کرتے تھے اور انہیں نذرانے بھی دیا کرتے تھے زمین و آسمان کے مالک وہی ہیں ہم تو ان کے غلام ہیں خدا کرے کہ جلد وہ دن آئے جب خود ان محافل میں امام موجود ہوں اور ہم ان کی خدمت میں مشغول ہوں
انہوں نے مزید کہا کہ آج مہدوی ابحاث پر کام کرنے کی ضرورت ہے خصوصاً پاکستان میں ان ابحاث کی سخت ضرورت ہے اور ان پر تحقیقی کام کرنے کی ضرورت ہے
امام زمانہ کی معرفت ہم پر واجب قرار دی گئی ہے ہمیں ان کی معرفت حاصل کرنی چاہیے اور ان کے ظہور کے لئے راہ ہموار کرنی چاہیے اور یہ موضوع بہت حساس موضوع ہے اور اس پر خود آئمہ علیہم السلام بھی تاکید کرتے تھے جیسے ایک روایت میں امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں
لَوْ أَدْرَکْتُهُ لَخَدَمْتُهُ أَیامَ حَیاتِی اگر میں ان کو پالیتا تو اپنی تمام عمر ان کی خدمت کرتا۔ آئمہ علیہم السلام امام زمانہ(عج) کی نسبت اس طرح کے احترام کے قائل تھے اور یہی احترام ان کے شاگردوں میں منتقل ہوا۔
امام رضا علیہ السلام کے ایک شاگرد تھے دعبل خزاعی کہ جو بہت بڑی شخصیت تھے اور شاعر اہل بیت شمار ہوتے تھے ان کی ولادت 148 ہجری میں ہوئی اور 246 ہجری میں شہادت ہوئی 98 سال ان کی عمر تھی اور اپنی عمر میں ایک دن ایسا نہیں گزرا کہ جس میں انہوں نے محمد و آل محمد کے دفاع میں شاعری نہ کرو انہیں ہمیشہ جان کا خطرہ رہتا تھا اور خود ان کا بیان ہے کہ میں نے پچاس سال سے اپنے دوش پر پھانسی کے پھندے کو اٹھایا ہوا ہے
امام رضا علیہ السلام ان سے بہت محبت کرتے تھے ایک بار امام نے ہدیہ کے طور پر انہیں اپنا لباس عنایت کیا کہ جسے یہ کسی کو بھی نہیں دیتے تھے لیکن آخر جب قم میں آئے تو لوگوں نے ان سے وہ لباس چھین لیا اور بطور تبرک لے گئے
یہ اھواز میں شہید ہوئے اور شوش میں دفن ہوئے
ان کا ایک مشہور قصیدہ ہے کہ جسے قصیدہ مدارس آیات کہا جاتا ہے اس قصیدے کے آخر میں انہوں نے امام زمانہ(عج) کے متعلق گفتگو کی ہے

فَلَو لا الّذي أرجوهُ في اليَومِ أو غَدٍ
تَقَطَّعُ نَفسي إثرَهُم حَسَراتٍ

خُروجُ إمامٍ لامَحالَةَ خارِجٌ يَقومُ عَلى اسمِ اللَّهِ والبَرَكاتِ

يُمَيِّزُ فينا كُلَّ حَقٍّ و باطِلٍ ويَجزي عَلى النَّعماءِ والنَّقِماتِ

فَيا نَفسُ طيبي ثُمَّ يا نَفسُ فَأبشِري
فَغَيرُ بَعيدٍ كُلُّ ما هوَ آتٍ

ولا تَجزَعي مِن مُدَّةِ الجَورِ إنَّني أرى قُوَّتي قَد آذَنَت بِثَباتِ

فَإن قَرَّبَ الرَّحمَنُ مِن تِلكَ مُدَّتي وأخَّرَ مِن عُمري ووَقتِ وَفاتي

شَفَيتُ ولَم أترُك لِنَفسي غُصَّةً ورَوَّيتُ مِنهُم مُنصُلي وقَناتي
اس کا ترجمہ یہ ہے
اگر میرے دل میں ان کے آج یا کل آنے کی امید نہ ہوتی تو میں حسرت سے مر جاتا
بالاخرہ اس نے ہر صورت آنا ہے نام خدا سے برکتوں کے ساتھ
جب وہ ظہور کرے گا تو حق و باطل کو واضح کردے گا اور اپنی برکات کو ظاہر کرے گا
اے میری جان تو خوش رہے میں بشارت دیتا ہوں کہ اس کے آنے کا کوئی فاصلہ نہیں رہ گیا
اے میرے نفس تو اس ظلم و ستم کو دیکھ کر بے تاب نہ ہو کیونکہ میں ایسی طاقت کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ بعید نہیں ہے
اگر رحمن نے اس کے آنے کی مدت کو نزدیک کردیا اور میری موت میں تاخیر ڈال دی اور اگر وہ میری زندگی میں ظاہر ہوگیا تو اپنے مصیبت زدہ نفس کو شفا دوں گا اور اپنی تلوار اور نیزے کو دشمنان کے خون سے سیراب کردوں گا
تاریخ میں ہے کہ جب دعبل نے اپنے شعر کا دوسرا مصرع پڑھا تو امام رضا علیہ السلام پر ایک خاص حالت طاری ہوگئی اور وہ کھڑا ہوگئے اور سر کو جھکا کر اپنا دایاں ہاتھ سر پر رکھ لیا اور فرمایا اللھم عجل فرجہ و سھل مخرجہ و انصرہ نصرا عزیزا
یہاں پر مولا یہ بتا رہے تھے کہ جب قائم کا نام آئے تو کس طرح سے ان کا ادب و احترام کیا جائے۔
جب بھی کوئی زائر امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں آتا تھا تو امام انہیں قائم کی طرف متوجہ کرتے تھے اور کہتے تھے کہ میرے مہدی کو یاد رکھنا
اور دعائے غیبت پڑھنا
دعائے غیبت وہی دعائے معرفت ہے کہ جو امام صادق علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے
امام صادق علیہ السلام کے اصحاب عرض کرتے تھے کہ ہم تو آپ کی صبح و شام زیارت کرتے ہیں لیکن وہ زمانہ کہ جس میں امام پردہ غیبت میں ہوگا تو اس وقت شیعوں کو کیا کرنا چاہیے تو امام علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اس وقت دعائے معرفت کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کریں دعائے غیبت کہ جسے دعائے معرفت بھی کہا جاتا ہے امام خمینی کے استاد آیت اللہ ملکی جواد تبریزی فرمایا کرتے تھے کہ ہر نماز کے بعد اس دعا کی تلاوت کی جائے تاکہ فتنوں سے نجات حاصل ہو دعائے غیبت یہ ہے
اَللّهُمَّ عَرِّفْنى نَفْسَكَ، فَاِنَّكَ اِنْ لَمْ تُعَرِّفْنى نَفْسَكَ، لَمْ اَعْرِف نَبِيَّكَ؛ اَللّهُمَّ عَرِّفْنى رَسُولَكَ، فَاِنَّكَ اِنْ لَمْ تُعَرِّفْنى رَسُولَكَ، لَمْ اَعْرِفْ حُجَّتَكَ؛ اَللّهُمَّ عَرِّفْنى حُجَّتَكَ، فَاِنَّكَ اِنْ لَمْ تُعَرِّفْنى حُجَّتَكَ، ضَلَلْتُ عَنْ دينى.
اے اللہ مجھے اپنے نفس کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر مجھے نفس کی معرفت حاصل نہیں ہوگی تو میں تیرے نبی کی معرفت حاصل نہیں کرسکتا اے اللہ مجھے اپنے رسول کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر مجھے رسول کی معرفت حاصل نہیں ہوگی تو میں تیری حجت کی معرفت حاصل نہیں کرسکتا اے اللہ مجھے اپنی حجت کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر مجھے حجت کی معرفت حاصل نہیں ہوگی تو میں اپنے دین سے گمراہ ہو جاؤں گا
خداوند متعال ہمیں ان تین معرفتوں کے حصول کی توفیق عطا فرمائے آمین

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=44806