9

امام زمان عج کی غیبت کےاسباب قسط 9

  • News cod : 45118
  • 17 مارس 2023 - 19:12
امام زمان عج کی غیبت کےاسباب قسط 9
مسعودی ” اثبات الوصیتہ” میں تحریر کرتے ہیں: امام نقیؑ سوائے چند خواص کے اکثر اپنے محبین سے دوری اختیار کرتے تھے۔ اور جب امامت امام عسکریؑ کے پاس آئی تو آپ پشت پردہ خواص وغیرہ سے کلام فرماتے تھے مگر یہ کہ جب سلطان کے محل کی طرف جانے کے لیے سواری پر سوار ہوتے تھے تو منظر عام پر آتے تھے۔

امام زمان عج کی غیبت کےاسباب
درس 9: امام نقی اور امام عسکری علیہم السلام کے شیعوں کو غیبت کے لیے تیار کرنے کے اقدامات
استاد محترم آغا علی اصغر سیفی

ترتیب و پیشکش: سعدیہ شہباز

خلاصہ:

اقدامات:
1 ۔ نبیؐ کریمؔ سے لیکر امام حسن عسکریؑ تک تمام معصومین نے غیبت کو بیان کیا۔

2۔ امام نقی ؑ کے دور سے لیکر بعد کے ادوار تک آئمہ ؑ کا رابطہ لوگوں سے کم ہوگیا تھا۔ اگرچہ اس کی بنیادی وجہ حکومت کی سختی تھی۔ اور امام علی رضاؑ کے بعد کے آئمہ ؑ نظر بند رہے۔
آئمہؑ بہت کم لوگوں سے ملتے تھے اور پردے کے پیچھے سے گفتگو کرتے تھے۔
اور دوسری وجہ یہ تھی کہ آئمہ چاھتے تھے کہ لوگوں کو غیبت کی عادت پڑے۔

مسعودی ” اثبات الوصیتہ” میں تحریر کرتے ہیں: امام نقیؑ سوائے چند خواص کے اکثر اپنے محبین سے دوری اختیار کرتے تھے۔ اور جب امامت امام عسکریؑ کے پاس آئی تو آپ پشت پردہ خواص وغیرہ سے کلام فرماتے تھے مگر یہ کہ جب سلطان کے محل کی طرف جانے کے لیے سواری پر سوار ہوتے تھے تو منظر عام پر آتے تھے۔

یعنی حکومت کی سختیاں اپنی جگہ تھیں اور آئمہ ؑ نے اس سے فائدہ یہ اٹھایا کہ زمانہ غیبت کے لیے لوگوں کی تربیت شروع کر دی۔

3۔ انجمن وکالت:
ایک اور موضوع جس پر آئمہ ؑ نے توجہ فرمائی، وہ وکالت کی تنظیم تھی۔ امام ؑ کی جانب سے امام کا ایک شاگرد ہر شہر میں بطور وکیل ہوتا تھا۔ جو لوگوں کے مسائل کو امام تک پہنچاتا تھا اور لوگوں کے مسائل کا جواب امامؑ سے لے کر لوگوں کو پہنچاتا تھا۔ امام باقرؑ اور امام صادقؑ کے زمانہ سے کہ جب مملکت اسلام دور دور تک پھیل چکی تھی تو اس وقت انجمن وکالت ایک ناگریز ضرورت تھی۔ کیونکہ ایک طرف تو لوگ مسائل دین اور مالی امور میں امام ؑ کی راہمنائی کے محتاج تھے اور دوسری جانب سب لوگوں کے لیے مدینہ میں حاضر ہونا اور براہ راست امامؑ کی خدمت میں شرفیاب ہونا ناممکن تھا۔
اور یہی وکلاء کی تنظیم زمانہ غیبت کبریٰ میں فقہا کی شکل میں سامنے آگئی۔ جس طرح لوگ آئمہ ؑ کے دور میں وکلاء آل محمدؑ سے رجوع کرتے تھے اسی طرح فقہاء سے آج کے دور میں رجوع کرتے ہیں۔

روایت ہے کہ : (غیبت طوسیؒ)
احمد بن اسحاق جو کہ قم میں خاص شیعوں میں سے تھے کہتے ہیں کہ ایک دن امام ھادی ؑ کی خدمت میں پہنچا اور عرض کی: میں کبھی یہاں ہوں اور کبھی دور دراز ہوں اور پھر آپ سے شرعی مسائل نہیں پوچھ سکتا اور جب یہاں بھی ہوں تو ہمیشہ آپ کی خدمت میں حاضر نہیں ہو سکتا تو اس وقت کس کی بات کو قبول کروں اور کس سے حکم لوں؟
امام ؑ نے فرمایا۔ یہ ابو عمرو (عثمان بن سعید عمری) مؤثق اور امین شخص ہیں وہ میرے مورد اعتماد اور اطمینان ہیں ۔ جو کچھ بھی تم سے کہیں میری طرف سے کہتے ہیں اور جو کچھ پہنچاتے ہیں میری طرف سے پہنچاتے ہیں۔ اور جب امام نقی ؑ شہید ہوگئے تو ایک دن میں ان کے فرزند امام حسن عسکریؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور وہی سوال جو امام نقی ؑ سے کیا تھا وہی ان کی خدمت میں عرض کیا اور امام ؑ کے وصی نے امام نقی ؑ کی مانند جواب تکرار کیا اور فرمایا۔ یہ ابو عمرو (عثمانبن سعید عمری) گزشتہ امام کے مورد اعتماد اور اطمینان تھے ، نیز یہ میری زندگی میں اور میری موت کے بعد بھی میرے مورد اعتماد ہیں جو کچھ بھی کہیں گے میری جانب سے کہیں گے اور جو کچھ ان سے تم تک پہنچے گا وہ میری جانب سے پہنچے گا۔

مالی امور بھی وکلاء کے سپرد کرتے تھے: (غیبت طوسیؒ)
شیخ طوسی ؒ لکھتے ہیں : عثمان بن سعید عمری نے امام عسکریؑ کے حکم کی بناء پر یمن کے شیعوں کے ایک گروۃ کا لایا ہوا مال وصول کیا تو کچھ لوگوں نے کہا کہ اس کام سے جناب عثمان بن سعید کی اہمیت اور احترام بڑھا ہے تو امام نے جواب میں فرمایا: جی ہاں گواہ رہیں کہ عثمان بن سعید عمری میرے وکیل ہیں اور ان کا بیٹا محمد بھی میرے بیٹے مہدی کے وکیل ہوں گے ۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=45118