14

اخلاقی جرائم کی وجہ اللہ، قیامت اور موت کو بُھلانا ہے، خواتین کے خلاف جرائم تشویشناک ہیں، آیت اللہ حافظ ریاض نجفی

  • News cod : 1866
  • 12 سپتامبر 2020 - 14:10
اخلاقی جرائم کی وجہ اللہ، قیامت اور موت کو بُھلانا ہے، خواتین کے خلاف جرائم تشویشناک ہیں، آیت اللہ حافظ ریاض نجفی

حوزہ ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدرآیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی نے کہا ہے کہ اخلاقی جرائم […]

حوزہ ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدرآیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی نے کہا ہے کہ اخلاقی جرائم کی کثرت کی اہم وجہ اللہ، قیامت اور موت کو بُھلادیا جانا ہے۔ہم قبرستان جاتے ہیں لیکن عبرت حاصل نہیں کرتے۔خواتین اور بچوں،بچیوں کے خلاف سنگین جرائم نہایت تشویشناک ہیں۔میڈیا تشہیر کا انداز بھی غلط ہے۔سرکشی کا نتیجہ جرائم کی شکل میں نکلتا ہے۔مال کی افراط جب اللہ کو بھلانے کا سبب بنے تو جرائم سر زد ہوتے ہیں۔حتیٰ کہ ناجائز مال اگر نیکی کے کاموں پر خرچ کیا جائے تب بھی کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ناجائز آمدنی کا مسجد، دینی مراکز یا دیگر اچھے کاموں پر خرچ کرنے کا کوئی اجر و ثواب نہیں ملے گا کیونکہ قرآن مجید میں واضح حکم ہے کہ اللہ تعالیٰ فقط صاحبانِ تقویٰ کے کام قبول کرتا ہے۔سفیان ثوری نامی عابد نما شخص نے ایک دکان سے انار اٹھا کر کسی مریض اورنادار کو دیئے تو امام جعفر صادق علیہ السلام نے اعتراض کیا،اُس نے جواب میں دلیل دی کہ ایک گناہ کے بدلے ایک بُرائی اور ایک اچھائی کے عوض ایک نیکی ملتی ہے۔اس کام سے میں نے دو برائیاں انجام دیں لیکن دو اچھائیوں کے بدلے20 نیکیاں حاصل کی ہیں۔امام نے فرمایا نیکی فقط تقویٰ و پرہیزگاری کے کام پر ملتی ہے۔ چوری کے مال کو اچھے کاموں پر خرچ کرنے کا کوئی اجر نہیں ۔جامع علی مسجد جامعتہ المنتظر میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے حافظ ریاض نجفی نے کہا کہ آج 130 کروڑ مسلمان بے چارگی و بے بسی کا نمونہ بنے ہوئے ہیں۔اپنے ہی جیسے لوگوں سے ڈرتے ہیں۔اکثر مسلمان حکمران امریکہ اور اسرائیل کے آگے سرنگوں ہیں۔فلسطین ، کشمیر اور دیگر مظلوم مسلمانوں کی کسی کو کوئی فکر نہیں۔انہوں نے تشویش کا اظہار کیا کہ وطنِ عزیز کومسلسل فرقہ وارانہ مسائل کی آماجگاہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اہل بیت علیہم السلام کے مقابلہ میں صحابہ کو پیش کیا جا تا ہے جبکہ صحابہ خود کو نہ اس قابل سمجھتے تھے اور نہ اس طرح کے تقابل پر راضی تھے۔بڑے معروف صحابہ دعا کرتے تھے کہ اللہ کرے اُن پر کوئی ایسی مشکل نہ آئے جب علی موجود نہ ہوں کیونکہ وہ جانتے تھے کہ علی ہی وہ واحد ہستی ہیں جو آغوشِ رسالت کی پروردہ ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ کبھی اہل بیتؑ کے ماننے والوں کو مسلمان نہیں مانا جاتا اوراب نوبت یزید لعین کی حمایت تک آ پہنچی ہے۔یہ فقط وہی لوگ کر رہے ہیں جن کی فکر و کردار میں یزیدیت ہے۔اگر صحابہ کے ماننے والے مسلمان ہو سکتے ہیں تو اہل بیتؑ کے ماننے والے اُن سے بہترمسلمان ہیں۔اہل بیت کے پیروکاروں کے خلاف متعصبانہ فکر، اسلام کی ابتدائی صدیوں میں نہ تھی بلکہ بعد میں چند مفسد و ں نے انتشار کا بیج بویا۔

حافظ ریاض نجفی نے کہا کہ منبرِ حسینی کی اصلاح او ربہتری کی ضرورت سے انکارممکن نہیں ۔مجالس و محافل میںفقط کربلاءیا صرف تین معصومین ؑ کے ذکر تک محدود رہنے کی بجائے 14 معصومین علیہم السلام کے تذکرے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاءکرامؑ اس لئے بھیجے کہ انسانوں کو اُس کے قریب کریں پس جس کا جتنا خُدا سے زیادہ رابطہ ہو گا۔ وہ اتنا ہی کامیاب ہوگا اور جو خدا سے جتنا دور ہوگا،اُتنا ہی ناکام ہوگا۔سورہ مبارکہ الفرقان میں انبیاءؑ پرغلط لوگوں کے ایک الزام کا ذکر کیا گیا ہے کہ وہ جھوٹے ہیں۔اس طرح کے الزامات کے جواب میں انبیاءؑ صبر سے کام لیتے رہے اور دلائل کے ساتھ اللہ کا پیغام پہنچاتے رہے۔ان کا کہنا تھاکہ گذشتہ زمانوں کے لوگوں کے اِس طرح کے جرائم ہوں یادیگر ادوار کے غلط کار لوگوں کے کرتوت ہوں، ان سب کی سزا مرنے کے بعد قبر سے ہی شروع ہو جاتی ہے۔انسان تدریجی طور پر،آہستہ،آہستہ اپنے انجام اور عذاب کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہے۔قبر کے بعد قیامت کے سخت ترین عذاب کا سامنا ہو گا۔مجرموں کو طوق و زنجیر میں باندھ کر آگ میں ڈالا جائے گا تب اُسے اپنی بداعمالیوں، غلط کاریوں کا احساس ہو گامگر اس کا کوئی فائدہ نہ ہو گا۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=1866