36

مختصر تعارف جامعہ مخزن العلوم الجعفریہ ملتان(قسط 1)

  • News cod : 21634
  • 30 آگوست 2021 - 19:35
مختصر تعارف جامعہ مخزن العلوم الجعفریہ ملتان(قسط 1)
برصغیر پاک و ہند کی تقسیم سے چھ برس پہلے کی بات ہے کہ عظیم تاریخی شہر ملتان کے مغرب میں واقع بستی شیعہ میانی کے مومنین نے اپنے مرشد کامل، عالم ربانی، یکتائے روز، پیکر زہد و تقوی، سید العلماء حضرت علامہ سید محمد باقر نقوی کی خدمت عالیہ میں درخواست کی کہ انہیں ایک عالم دین کی اشد ضرورت ہے جبکہ آپ کے شاگرد رشید مولانا گلاب علی شاہ نقوی البخاری اعلی اللہ مقامہ امتحان سے فارغ ہوچکے تھے اور اپنے عظیم و مہربان اور شفیق استاد کے حکم پر ملتان کی اس پسماندہ لیکن اخلاص ے پر بستی میں تشریف لائے۔

جامعہ مخزن العلوم الجعفریہ ملتان
برصغیر پاک و ہند کی تقسیم سے چھ برس پہلے کی بات ہے کہ عظیم تاریخی شہر ملتان کے مغرب میں واقع بستی شیعہ میانی کے مومنین نے اپنے مرشد کامل، عالم ربانی، یکتائے روز، پیکر زہد و تقوی، سید العلماء حضرت علامہ سید محمد باقر نقوی کی خدمت عالیہ میں درخواست کی کہ انہیں ایک عالم دین کی اشد ضرورت ہے جبکہ آپ کے شاگرد رشید مولانا گلاب علی شاہ نقوی البخاری اعلی اللہ مقامہ امتحان سے فارغ ہوچکے تھے اور اپنے عظیم و مہربان اور شفیق استاد کے حکم پر ملتان کی اس پسماندہ لیکن اخلاص ے پر بستی میں تشریف لائے۔ امام جمعہ و جماعت کی حیثیت سے تشریف لانے والے اس برگزیدہ عالم دین کو ترویج علوم محمد و آل محمد کی محبت نے چین سے نہ بیٹھنے دیا۔ آپ کی زبردست ذہانت اور محنت طلبی نے آپ کو نشر علوم اسلامی پر آمادہ کیا چنانچہ آپ نے بے سروسامانی کے عالم میں درس و تدریس کا آغاز کردیا۔ اس طرح علم و عمل کے عظیم مرکز اور مادر علمی جامعہ مخزن العلوم الجعفریہ کی 1941ء میں بنیاد رکھی گئی۔
اخلاص و محبت سے چلائی گئی اس شمع سے آج تک محبان آل محمد علیہم السلام کے ہزاروں نوجوان فیضیاب ہوکر اندرون و بیرون ملک دینی مدارس، مساجد، امام بارگاہوں، یونیورسٹیوں، اسکول، کالجز اور دیگر مذہبی اداروں میں نیز تحریر و تقریر کے میدان میں گرانقدر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس مملکت خداداد میں شاید ہی کوئی ایسی دینی درسگاہ ہوگی جس کے علماء نے بالواسطہ یا بلاواسطہ اس مادر علمی سے فیض حاصل نہ کیا ہو۔ اس عظیم دینی درسگاہ جامعہ علمیہ سے فارغ التحصیل ہونہار، محنتی، بے لوث، مخلص ، مایہ ناز اور دیانتدار علماء تحریر و تقریر ، درس و تدریس کے میدان میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے ہیں۔
مدرسہ کی سنگ بنیاد
توکل خدا پر شروع کی جانے والی اس عالیشان درسگاہ کی دس برس تک اپنی کوئی باقاعدہ عمارت نہ تھی۔ خانہ خدا اور محلہ وڈا تھلہ کے امام بارگاہ میں بیٹھ کر استاذ العلماء نے یہ مقدس سلسلہ جاری رکھا۔
بالآخر 1951 ء میں شیعہ میانی کے با وفا اہل ایمان اور علاقہ کے مخیر حضرات کے تعاون سے جامعہ کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھاگیا۔ تعمیرات کا سلسلہ شروع ہوا جو مرحلہ وار 1985ء تک جاری رہا۔
جامعہ کی خدمات کا مختصر جائزہ
استاذ العلماء علامہ السید گلاب علی شاہ نقوی نے اپنی عملی زندگی کا آغاز جامعہ کی تاسیس سے کیا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب قیام پاکستان کی تحریک آزادی اپنے عروج پر تھی۔ اس میں شک نہیں کہ انگریز کے ظالمانہ تسلط کے خلاف مسلمانوں کا متحد ہونا اور راہ جہاد میں کسی قربانی سے دریغ نہ کرنا صرف اور صرف دین اسلام کی بدولت تھا۔ ہندووں اور انگریزوں کی غلامی سے ہماریی آزادیی کا مقصد فقط یہ تھا کہ ہم اپنے ایمان اور عقیدہ کے مطابق اسلام کے عادلانہ اجتماعی نظام کے سایہ تلے با عزت زندگی بسر کریں مگر یہ منزل نہیں مل سکتی جب تک دین کا نور بصیرت عام نہ ہوجائے اور کافی تعدد میں ایسے تربیت یافتہ افراد مہیا نہ ہوجائیں جو قرآن حکیم اور سنت طیبہ معصومین علیہم السلام کے مبداء و حی سے سیراب ہوچکے ہوں تاکہ انگریز استعمار کے شیطانی نظام کو مسمار کرکے اسلام کا آفاقی عادلانہ اجتماعی نظام برپا کیاجا سکے۔ یہی قیام پاکستان کا مقصود تخلیق تھا، ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
چنانچہ استاذ العلماء نے اسلامی علوم کی تعلیم کے لئے عظیم درسگاہ کا آغاز کیا۔ تعجب ہے کہ مادی وسائل بالکل صفرتھے۔ یہ آپ کا اخلاص ، توکل اور مسلسل جدوجہد تھی اور شیعہ میانی کے انتہائی با ایمان، مخلص اور وفادار شیعیان اہل بیت علیہم السلام کا بے دریغ ایثار اور تعاون تھا کہ تائید ایزدی شامل حال ہوئی اور جامعہ مخزن العلوم جعفریہ اسلام اور تشیع کا ایک ایسا عظیم الشان اور پر وقار مرکز بن کر دنیا کے نقشہ پر آیا کہ جس سے رشد و ہدایت کی روشنی ہر طرف بکھرنے لگی اور آفاق جگمگا اٹھا۔


ملت جعفریہ کی قیادت کی سنگین ذمہ داری
جامعہ علمیہ نے اپنے بلند ترین مقاصد و اہداف کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا اور ہر سطح پر قوم وملت کی ہدایت و رہنمائی کا فریضہ انجام دینے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی عظیم قربانیوں کے نتیجے میں انگریزی سامراج نے منہ کی کھائی، ان کی براہ راست حکمرانی کا سورج غروب ہوا لیکن جو طاغوتی نظام انہوں نے تشکیل دیا تھا وہ جوں کا توں باقی رہا اور اس نظام کے سایہ میں پلنے والے حکمرانوں نے اپنے ان غیر ملکی آقاؤں کی آشیرباد حاصل کرنے کے لیے ان کے مذموم مقاصد کو جاری رکھنے کی ٹھان لی “تقسیم کرو اور حکومت کرو” کے باطل اور نجس مفروضے کو عملی جامہ پہنانے میں کوشاں رہے نتیجتا فرعون مصر کی پالیسی اپنا کر ایک طبقہ کو دبانے اور دوسرے کو شہ دینے و بھڑکانے کا نا پسندیدہ کھیل کھیلا جانے لگا چنانچہ اہل تشیع کی جن کا تحریک پاکستان اور اس کی بنیادوں میں کلیدی کردار رہا ہے انہیں دبانے اور ان کے حقوق پامال کرنے کی ناکام کوششیں کی جانے لگی تو علامہ سید محمد دہلوی کی قیادت میں شیعہ مطالبات کے لیے جدوجہد شروع ہوئی استاد العلماء علامہ سید گلاب علی شاہ نقوی نے اس تحریک کی مکمل پشت پناہی اور علامہ سید محمد دہلوی کی کھلم کھلا اور بھرپور حمایت کا صریحا اعلان کیا اور آخر تک ساتھ رہے جب انقلاب اسلامی ایران برپا ہوا تو امریکہ نے پاکستانی معاشرہ پر پڑنے والے اسلامی انقلاب کے اثرات کو روکنے کے لیے جنرل ضیاء الحق کی حکومت کو استعمال کیا اور امریکی اسلام کا ڈھونگ رچا یا جو درحقیقت فرقہ پرستی اور سامراج نوازی کی بدترین صورت کا نام تھا چنانچہ شیعہ اور مکتب جعفریہ مذھب کو بالکل نظر انداز کرکے اکثریت کو اقلیت پر مسلط کرنے کی مذموم سازش کی گئی استاد علماء نے سب سے پہلے اس کی مزاحمت کی اور اپنے قلم سے اس سازش کو بے نقاب کیا اپریل 1979ء میں تاریخی بکھر کنونشن منعقد ہوا اس کنونشن میں ملت نے متفقہ طور پر علامہ مفتی جعفر حسین کو قائد تسلیم کیا اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کا قیام عمل میں آیا۔
استاد العلماء اور کثیر تعداد میں اسی جامعہ کے تربیت یافتہ علمائے کرام نے علامہ مفتی جعفر حسین کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کر دیا اور ہر مرحلے پر ان کا ساتھ دیا.
قائد ملت جعفریہ علامہ مفتی جعفر حسین کی وفات حسرت آیات کے بعد شہید قائد علامہ سید عارف حسین الحسینی کا انتخاب ہوا.
اس بار نام نہاد حکومت کی خفیہ ایجنسیوں نے ملت جعفریہ کے خلاف ریشہ دوانیاں شروع کردی اور نفرت و تفرقہ پھیلانے کے لئے پروپگنڈا شروع کر دیا اس مشکل مرحلے میں استاد العلماء اور آپ کے لائق شاگردوں نے دشمن کو آڑے ہاتھوں لیا اور شہید علامہ عارف حسین الحسینی کی شجاعانہ قیادت کا دفاع علی اعلان کرتے رہے یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اگر جامعہ مخزن العلوم الجعفریہ کی طرف سے علامہ سید عارف حسین الحسینی کی حمایت نہیں کی جاتی تو بیگانوں کی کینہ پروری اور اپنوں کی سرد مہری نے ایسے مخدوش حالات پیدا کر دیے تھے جس سے قیادت اور تحریک جعفریہ کے وجود کو خطرہ لاحق ہو گیا تھا علامہ سید عارف حسین الحسینی کی مظلومانہ شہادت کے بعد ملت جعفریہ پاکستان کی قیادت جامعہ مخزن العلوم الجعفریہ کے مایہ ناز بطل جلیل اور استاد العلماء کے لائق ترین شاگرد قائد ملت جعفریہ علامہ علامہ سید ساجد علی نقوی کے مضبوط ہاتھوں میں آئی.
آپ کی سیاسی تدبر اور جرات شہامت سے ملت جعفریہ کے حقوق کی آواز ملک کے دروبام میں بلند ہوتی رہی اس وقت سے لے کر اب تک ایوانوں کو لرزہ براندام کیے ہوئے ہیں اور دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ مرد قلندر اپنے عظیم جوش و ولولہ کے ساتھ میدان عمل میں ہے.


انقلاب اسلامی ایران کے تعارف و ترویج میں کردار
ایران کا عظیم الشان اسلامی انقلاب جو کئی صدیوں پر محیط اسلامی تاریخ کا ایک انوکھا باب ہے اس انقلاب کی کامیابی کے لئے امام خمینی اور ان کے شاگرد، دوستوں اور عقیدت مندوں نے جو اہم کردار ادا کیا ہے یقینا ان کو رہتی دنیا تک بھولائے نہیں بھولا جاسکتا۔ استاد العلماء علامہ سید گلاب علی شاہ نقوی کا امام خمینی سے اس وقت رابطہ ہوا جب آپ نجف اشرف میں تھے تو خط و کتابت کا سلسلہ بھی جاری رہا. امام خمینی نے علامہ موصوف کی حسن کارکردگی کے بارے میں سن کر ان کو اپنا وکیل قرار دیا. جب انقلاب زوروں پر تھا تو جامعہ کے اساتذہ اور طلبہ نے انقلاب کی بھرپور حمایت کی استادالعلماء ایران میں شاہ کے ہاتھوں شہید ہونے والوں کے بارے میں تعزیتی ٹیلی گرام امام خمینی اور مراجع عظام کے نام بھیجتے رہے۔
جامعہ کے طلباء انقلاب اسلامی کے حق میں مظاہرے بھی کرتے رہے ہیں غرض یہ کہ جامعہ، اسلامی جمہوریہ ایران کے مجاہد و جاں نثاروں اور ایرانی عوام کی خوشی و غم میں برابر کا شریک رہا جب انقلاب اسلامی ایران کو کامیابی حاصل ہوئی تو استادالعلماء ایک وفد کے ہمراہ امام خمینی کو خراج تحسین پیش کرنےکے لیے ایران تشریف لے گئے اور امام خمینی سے خصوصی ملاقات کرکے انہیں ہدیہ تبریک پیش کی۔ انقلاب اسلامی کی کامیابی سے لے کر اب تک متعدد شخصیات جامعہ تشریف لا چکی ہیں اور انقلاب اسلامی سے قبل بھی حضرت آیت اللہ العظمی سید محسن الحکیم رحمۃ اللہ علیہ کے دور میں جب استاد العلماء ان کے وکیل مطلق برائے پاکستان تھے۔
ایک معظم وفد نے آیت اللہ محمد علی الحکیم کی قیادت میں پاکستان کا دورہ کیا تو کئی دن تک جامعہ میں تشریف فرما رہے بعد ازاں شہید مہدی الحکیم اور دیگر مراجع کے متعدد وفود جامعہ کو مہمان نوازی کا شرف بخشتے رہے۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=21634