9

محسن ملت علامہ سید صفدر حسین نجفی ؒ کا قم میں طلاب سے آخری خطاب (قسط 1)

  • News cod : 25991
  • 02 دسامبر 2021 - 13:37
محسن ملت علامہ سید صفدر حسین نجفی ؒ کا قم میں طلاب سے آخری خطاب (قسط 1)
میں سمجھتا ہوں کہ خواہش کرنا کسی اچھے منصب کی کوئی بری بات نہیں ہے البتہ اگر کوئی کسی منصب کا اہل نہیں ہے اس کا اپنے اندر استعداد پیدا کئے بغیر اس کے حصول کے لئے غلط طریقے انتخاب کرنا یہ اچھا نہیں ہے ۔

محسن ملت علامہ سید صفدر حسین نجفی ؒ کا قم المقدس میں طلاب سے آخری خطاب (قسط 1)

أَمَّا بَعْدُ! قَالَ أَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ ؑ: الدِّیْنُ ھُوَ التَّعْظِیْمُ لِأَمرِ اللہِ.
عزیزان گرامی جیسا کہ آپ حضرات کو معلوم ہے کہ یہ جلسہ انقلاب اسلامی ایران کی دسویں سالگرہ کے سلسلے میں منعقد کیا گیا ہے ظاہر ہے کہ خالق کائنات نے جس کرہ میں ہمیں خلق کیا ہے ہمیں اسی کے حالات ہی معلوم نہیں صحیح طور پر عموما لوگوں کا خیال ہے کہ یہ کروڑ ہا ،ارب ہاکرات جو کائنات میں موجود ہیں جو کشف ہوچکے ہیں ۔یہ غیر آباد بیکار سے پڑے ہوئے ہیں ظاہر ہے کہ ایک عام شخص جو کسی چیز کا مالک ہو وہ بھی اگر اپنی مملوکہ اور موروثہ زمین کو آباد رکھنے کی قدرت رکھتا ہو تو وہ کبھی اسے فضول نہیں چھوڑے گا ۔اسی شخص کی جائیداد یا مالکیت غیر آباد ہوگی جو قدرت نہ رکھتا ہو یا قدرت رکھتے ہوئے تنبل اور سست ہو ورنہ ظاہر ہے آبادی اچھی چیز ہے اور بربادی بری چیز ہے اور کوئی بھی صاحب عقل و خرد برباد کو آبادی کی نسبت پسند نہیں رکھتا تو جس نے عقل و خرد دی ہے کائنات کو ،تو اسی کے متعلق کیسے تصور کیا جاسکتا ہے ساری کائنات بیکار پڑی ہوئی ہے ۔آئمہ معصومین ؊ کے ارشادات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ کرات جو ہمیں نظر آتے ہیں یہاں بھی مخلوقِ خدا بستی ہے ،رہتی ہے یہ آباد ہیں یہاں بھی تمہارے شہروں کی طرح شہر ہیں تو بہرحال ہمارا تعلق اس چھوٹی سے زمین کے ساتھ ہے ۔خالقِ کائنات نے بزم ملائکہ میں اعلان کیا تھا کہ میں اس زمین کو آباد کرنا چاہتا ہوں اور اس میں میں اپنا جانشین بھیجنا چاہتا ہوں ۔
آپ جانتے ہیں کہ منصب چھوٹا سا ہی کیوں نہ ہواس کے لیے انسان کیا کچھ نہیں کرتا ۔معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے جو معصوم مخلوق تھی ، جو خواہشات نفسانیہ سے مبرا و منزہ تھے منصب کی بلندی اتنی جچی ان کی نگاہوںمیں کہ دبے لفظوں میں وہ بھی خواہاں ہوئےکہ خالقِ کائنات یہ منصب ہمیںدے دے لہٰذا ایسے موقع پر جو طریقہ اختیار کیا جاتا ہے آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے وہی طریقہ کار ملائکہ نے اپنایا تھا اور کہا :
اَتَجْعَلُ فِيْہَا مَنْ يُّفْسِدُ فِيْہَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ.
﴿البقرة: ٣٠﴾
میں سمجھتا ہوں کہ خواہش کرنا کسی اچھے منصب کی کوئی بری بات نہیں ہے البتہ اگر کوئی کسی منصب کا اہل نہیں ہے اس کا اپنے اندر استعداد پیدا کئے بغیر اس کے حصول کے لئے غلط طریقے انتخاب کرنا یہ اچھا نہیں ہے ۔
اس میں عموما ہم طالب علم اور مولوی صاحبان کافی مبتلا ہوتےہیں جب ہمیں کوئی حجۃ الاسلام کہے جب ہمیں کوئی سرکار علامہ کہے( اب تو ماشاء اللہ آہستہ آہستہ آگے بھی قدم بڑھتا جارہا ہے ہمارے ملک میں ) تو ہم خوش ہوتے ہیں ۔سید مرتضیٰ علم الھدیٰ اعلی اللہ مقامہ کے حالات میں لکھا ہوا ہے کہ ان کے زمانے میں جو وزیر تھا بیمار ہوگیا تو اس نے عالم خواب میں امیر المومنین ؑ کو دیکھا تو آپ نے فرمایا کہ علم الھدیٰ سے کہو کہ وہ تمہارے لئے دعا کرے ،کہاحضور وہ علم الھدیٰ کون ہے( کیونکہ اس وقت سید کا یہ لقب نہیں تھا) فرمایا کہ سید مرتضیٰ ،چنانچہ اس وزیر نے خط لکھا سید مرتضیٰ کو اور یہ لقب علم الھدیٰ بھی لکھا ۔جہاں میں نے پڑھا ہے وہاں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ جب وہ خط سید مرتضیٰ کو ملا تو انہوں نے وزیر کو لکھا کہ یہ تو نے کیا کہا ہے میں اس کا اہل نہیں ہوں تو انہوں نے کہا حضور میں نے یہ خود سےنہیں لکھا بلکہ مجھ سے کہا گیا ہے تب میں نے لکھا ہے ۔عموما ہم لوگ کافی جہل مرکب کا شکار ہوتے ہیں اگر کوئی شخص ترقی کی منزلیں طے کرنا چاہتا ہے تو اس کی پہلی شرط یہ ہے کہ وہ جہل مرکب کا شکار نہ ہو اپنی حیثیت کو وہ سمجھتا ہو ،دنیا میں جن لوگوں نے ترقی کی ہے کام کیا ہے وہ وہی تھے جو اپنی حیثیت کو سمجھتے تھے ،امام خمینی مدظلہ ایک مقام پر لکھا ہے کہ خدا نہ کرے کہ کسی شخص کا عمامہ وقت سے پہلے بڑا ہوجائے اور اس کی داڑھی جلدی سفید ہوجائے اور وہ لوگوں کی توجہ کا مرکز بن جائے اس لئے کہ اگر وہ ابھی ترقی کی منازل طے نہیں کرپایا اور لوگوں نےاس کی طرف توجہ کرنے شروع کردی ہے تو آہستہ آہستہ وہ انسان اپنے آپ کو بڑا سمجھنے لگ جائے گا اور نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ ترقی ختم ہوجائے گی ۔
چنانچہ اس کے ضمن میں انہوں نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ شیخ الطائفہ شیخ طوسی جو حوزہ علمیہ نجف اشرف کے بانی ہیں اورانہوں نے ہی حوزہ علمیہ نجف اشرف کی بنیاد رکھی ہے انہوں نے لکھا ہے کہ شیخ کی ۲۵ سال کی عمر تھی جب انہوں نے یہ تہذیب الاحکام لکھی تھی جو حدیث کی کتاب ہے اور ساٹھ سال کی عمر تک وہ سید مرتضیٰ علم الھدیٰ کے درس میں جایا کرتے تھے اتنی اس شخص میں ریاضت تھی ،تو اس کا نتیجہ کیا ہوا کہ دوسو سال تک جتنے لوگ اور علماء پیدا ہوتے رہے سب کے سب انہیں کے فتوے پر عمل کرتے رہے چنانچہ آپ حضرات نے شاید کتب اصول میں دیکھا ہو کہ ان دوسو سال کے اجماعات کو ترجیح نہیں دی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ اجماع نہیں ہے یہ نقل فتوی ہے اصل میں تو وہ فتوی شیخ طوسی کا ہے اسی لئے وہ شیخ الطائفہ ہیں ۔گویا شیخ بمعنی استاد یعنی پوری ملت کے استاد تھے۔
تو عزیزو!انسان کو اپنی حیثیت کو سمجھنا چاہیے اور محنت زیادہ سے زیادہ کرنی چاہیے تاکہ انسان واقعاً اسی مقام کا اہل ہوجائے جسے وہ حاصل کرنا چاہتا ہے لہٰذا تفتازانی کے متعلق ہے کہ اس سے کسی سے پوچھا کہ تم کتنا علم حاصل کرو گے کہنے لگا کہ جتنا امام جعفر صادق ؈ کا علم ہے کہا گیا کہ وہ تو امام تھے فرزند رسول تھے۔تو اس کو بھی بہرحال علم تھا وہ کہنے لگا کہ جب نگاہ اتنی بلند ہوگی تو کہیں تو جاکر ہم پہنچیں گے اگر نگاہ پہلے ہی سے پست ہوگی تو پھر کیا بنے گا ۔
اس لئے عزیزو!اپنی نگاہوں کو بلند رکھیں اور عظیم سے عظیم شخصیت کو نمونہ بنائیں ایک آیت :
لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ ……﴿الأحزاب: ٢١﴾
کو میں نے ایک مرتبہ عنوان کلام قرار دیاتھا خدا فرمارہا ہے کہ تمہاری نگاہ میں اور تمام کمالات میں نمونہ میرا رسول ہونا چاہیے جو کہ ہر لحاظ سے کامل و اکمل ہے تو اگر ان جیسی ہستیوں کو اپنے لئے نمونہ عمل بنایا جائے تو یقینا انسان ترقی کرسکتا ہے ،تو انقلاب کے سلسلے میں ایک عقلی تجزیہ یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص انقلاب کرنا چاہتا ہے تو اس کے پانچ درجے ہیں پانچ مرتبے ہیں ۔سب سے پہلا درجہ یہ ہے کہ خود سازی سے شروع کرے ،عموما یہ ہوتا ہے کہ ہم غیر ساز ہوتے ہیں خود ساز نہیں ہوتے،ہمیں یہ درد کھائے جارہا ہے کہ ساری دنیا مسلمان ہوجائے اگر میں ہی مسلمان نہ ہوا تو ساری دنیا مسلمان ہوجائے تو مجھے کیا فائدہ ۔تو پہلی منزل یہ ہے کہ خود سازی کی جائے اور یہ کوئی آسان کام نہیں ہے خود سازی،کیونکہ شیطان اتنا بڑا تجربہ کار ہے ۔اس نے ساری دنیا کو بنتے دیکھا ہے ،گویا ساری دنیا اور پوری نوع انسانی اس کے سامنے بنی ہے ،وہ دیکھتا ہےکہ کسے میں نے کس طرح روکنا ہے لہٰذا ہم عموما اسی میں الجھے رہتے ہیں ۔ابن طاووس کے متعلق ہے کہ حکومت بنی عباس نے قضاوت کی انہیں پیشکش کی کہ آپ قاضی بن جائیں تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ ( معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت اس کی عمر پچاس سال تھی)جو شخص پچاس سال کے عرصے میں اپنے نفس کے درمیان فیصلہ نہ کر سکا تو وہ دوسروں کا کیا فیصلہ کرے گا ۔
لہٰذا میرے عزیزو!پہلی منزل خود سازی ہے اب تو یہ بعد میں کہا گیا ہے کہ یہ دینی تعلیم ہے یہ دنیاوی تعلیم ہے ۔ورنہ تعلیم و تربیت لازم و ملزوم تھی اور اگر آپ آئمہ اہل بیت ؊ کے ارشادات اور قرآن مجید ،نہج البلاغہ،صحیفہ سجادیہ اور اس قسم کی چیزوں پر نگاہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اتنا زور تعلیم پر نہیں دیا گیا ہے جتنا تربیت پر ۔ٹھیک ہے کہ تربیت بغیر تعلیم کے نہیں ہوسکتی قرآن مجید میں علم حاصل کرنے کی آیات آپ کو گنی چنی نظر آئیں گی جب کہ وہ آیات جو تربیت انسانی کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اگر دیکھا جائے تو ہزاروں کی تعداد میں ہیں تو بعید نہیں لہٰذا پہلی منزل یہ ہے کہ نفس کی تربیت کی جائے ،خود اپنی تربیت کی جائے۔میرے جیسے لوگ جو امام مدظلہ سے متاثر ہوئے ہیں میں سمجھتا ہوں بہرحال ہر شخص کی الگ الگ فکر ہے کہ جتنی کام کی لگن مجھے ان سے پیدا ہوئی ہے اتنی لگن کسی شخص سے پیدا نہیں ہوسکی۔میں نے باقاعدہ تراجم کا سلسلہ امام کی توضیح سے شروع کیا تھا ۔ہم جس سے عقیدت عموما رکھتے ہیں تو اپنی نادانی اور جہالت کی وجہ سے یہ کوشش کرتے ہیں کہ اس کی عقیدت لوگوں پر ٹھونسیں ۔ظاہر ہے کہ محبت ہوجاتی ہے کی نہیں جاتی ،اور جہاں کمال ہو اس میں خود کشش موجود ہوتی ہےکہ وہ اپنی طرف کھینچے آج تو ماشاء اللہ پاکستان میں سب لوگ انقلابی ہیں ایک وقت تھا کہ کوئی سر زمین پاکستان میں یہ اعلان کرنے کے لئے تیار نہیں تھا کہ امام خمینی بھی مجتہد ہیں۔
چنانچہ جب آقای آیت اللہ العظمیٰ آقای حکیم مرحوم کی وفات کی مجالس ہورہی تھیں تو میں نے چند ایک احباب علمائے کرام جو لاہور میں تھے ان سے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ اس مجلس میں اعلان کروں کہ امام مدظلہ کی تقلید کی جائے تو کہنے لگے کہ یار ٹھر جاؤ دیکھیں ایرانی کیا کرتے ہیں۔میں نے کہا نہیں جب ایک شخص کو اہل سمجھا ہے تو ایرانی کہیں نہ کہیں کیا ہوتا ہے لہٰذا میں نے موچی دروازہ کی مسجد میں سب سے پہلے اعلان کیا کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اور ہماری یہ سمجھ ہے کہ ان کے اعلی کلمہ حق اور ان کے زہد و تقوی کی بناء پر ان کی تقلید کی جائے ،قرآن کا یہ وعدہ ہے ہم محبت جعل کرتے ہیں ۔جعل کی اصطلاح میرا خیال ہے آپ لوگ زیادہ جانتے ہوں گے ۔تو جو کسی میں کمال ہو بشرطیکہ ضمیر مردہ نہ ہو خواہشات نفسانی درمیان میں حائل نہ ہوں تو پھر قہراً محبت و مودت پیدا ہوجاتی ہے یقین جانیے ہمیں اس وقت تک ان کا نام معلوم نہیں تھا ،صرف آقای خمینی کوئی شخص ہے ،جنہوں نے اللہ کے لئے قیام کیا ۔بس اس کے علاوہ ہم یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ کہاں کے رہنے والے ہیں یہ بھی ہمیں پتہ نہیں تھا کہ خمین بھی کوئی شہر ہے ۔بس اتنا سنا تھا کہ وہ ایک شخصیت ہیں کہ جنہیں آقای خمینی کہا جاتا ہے چنانچہ جب میں نے چاہاکہ خط لکھوں تو وہاں نیوکیمپس یونیورسٹی میں ایرانی طالب علموں سے ان کا نام پوچھا ۔بہرحال اس کا معنی یہ ہے کہ نام کوئی حیثیت نہیں رکھتا فقط کام ہی ہے۔
حالانکہ اس زمانے میں اور اس وقت کے مراجع حضرات تھے ان کے نام ہم نے سنے ہوئے تھے لیکن امام کا نام نہیں سنا ہوا تھا ان کی حیثیت ایک مدرس کی تھی ،لیکن جب وہ خود سازی کی منزلیں طے کرچکے تو پھر افراد سازی ہوئی ۔دوسری منزل ہے افراد سازی بدقسمتی سے اس معاملے میں بھی ہم صفر ہیں خدا یہ کہتا ہے کہ :
قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَہْلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ ……﴿التحريم: ٦﴾
ہم لوگوں کی چھان بین کرتے ہیں گھر والوں کو تبلیغ کم کرتے ہیں جیسا کہ عموما آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہمارے مولوی صاحبان جب تقریریں کرتے ہیں کہ طالب علم بننا چاہیے اور دین کی طرف آنا چاہیے اور دھوئیں دار تقریریں کریں گے لیکن یہ کہ ہماری اولاد کا لجوں میں پڑھے گی تو یہیں سے پتہ چل جاتا ہے کہ دین اور علم کی اہمیت ہمارے دلوں میں کیا ہے کہ ہماری اولاد تو پڑھے کالجوں میں اور لوگوں کی اولاد آکر پڑھے مدرسوں میں اگر واقعا علم دین اچھی چیز ہے اور یقینا ً اچھی چیز ہے تو پھر افراد کے انتخاب میں بھی ہمیں اپنے گردوپیش اور جن کے ساتھ زیادہ تعلق ہے ان کو زیادہ اس طرف لگانا چاہیے اور یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اسلام ﷺ کو اسلام میں چالیس (۴۰) سال اپنا کردار ایک معاشرے کے سامنے پیش کرنا پڑا جو انتہائی نامساعد معاشرہ تھا ۔عموما طالب علم تنگ آجاتے ہیں مسئولین ہمارے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے ہمارا شہریہ پورا نہیں ہوتا ،جی یہ نہیں ہوتا جی وہ نہیں ہوتا تو پھر عزیزو معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں علم کی محبت نہیں ہے ۔یہ تو مجبوری ہے کہ زبردستی ماں باپ نے مدرسہ دینیہ میں داخل کردیا تھا لہٰذا الٹے سیدھے کسی نہ کسی طرح سے قم میں آگئے ۔وقت گزارنا ہے اب کچھ مدت یہاں وقت گزار لیا ہے تو باقی وقت جاکر پاکستان میں گزاریں گے ۔ہم میں جو تڑپ اور جذبہ ہونا چاہیے وہ نہیں ہے کہ واقعا علم کے ساتھ لگاؤ ہو کسی بزرگ کے متعلق ملتا ہے کہ جب وہ رات میں مطالعہ کرتے تھے اور وہ کسی علمی مطلب کو حل کرتے تھے تو یہ کہتے تھے کہ (أَیْنَ الْمَلُوْکُ وَأَبْنَاءُ الْمَلُوْکِ ) وہ لذت وہ لطف جو انہیں مسائل دینیہ کے حل کرنے میں حاصل ہوتا تھا وہ پھر کہتے تھے کہ وہ لذت ان کو کیسے حاصل ہو سکتی ہے اور اب یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی کیونکہ ہم اس وادی کے شہسوار ہی نہیں ہیں اس سے ہمارا تعلق ہی نہیں ہے ورنہ اس میں حسن ہے کمال ہے کہ سارے کمال جس کے مقابلے میں ہیچ ہیں آل محمد ﷺ نے خصوصاً امیر المومنین ؑ نے فرمایا:
رَضِينَا قِسْمَةَ الْجَبَّارِ فِينَا
لَنَا عِلْمٌ وَ لِلْجُھَّالِ مَالٌ
ترجمہ:خدا کی تقسیم پر راضی ہیںہمارے لئے علم اور جاہلوں کے لئے مال۔
ایک صاحب حضرت رسالت مآب کی خدمت میں حاضر ہوئے تو گفتگو کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا (وَاللہِ مَاوَرَّثَکَ اللہُ…… ) خدا کی قسم اللہ نے تمہیں قرآن کے ایک حروف کا بھی وارث نہیں بنایا اس گفتگو کا سبق طرز یہ بتاتا ہے کہ ہم وارث علم الکتاب ہیں ۔تو بہرحال اگر ہمیں علم کی لذت حاصل ہوہمیں علم سے محبت ہو ،علم سے پیار ہو تو ہم ترقی بھی جلدی کریںاور باقی جتنی مشکلات ہیں تو جب انسان کسی چیز سے محبت کرتا ہے تو جب وہ مل جائے تو اس کی راہ میں جتنی مادی مشکلات ہوں گی وہ برداشت کرے گا آپ کبھی ”مُنْیَۃُ الْمُرِیْد“ کا یا ان کتابوں کا بھی مطالعہ کریں جو علم کے بارے میں لکھی گئی ہیں ۔مجھے شرم آتی ہے ،میں اس کا اہل نہیں ہوں کہ آپ کو وعظ و نصیحت کروں ،نہ یہ زبانی کہہ رہا ہوں حقیقت یہ ہے کہ جو کہتے ہیں کہ جو دل سے بات نکلتی ہے وہ اثر رکھتی ہے جو زبان سے نکلتی ہے وہ زبان پر اثر رکھتی ہے ۔ہمیں علم سے عشق پیدا کرنا چاہیے اور جب ہمیں علم سے عشق پیدا ہو گا اور اس کی ہم بقا چاہیں گے تو وہ امیر المومنین ؑ کا ارشاد معالم کے ابتداء کی احادیث میں ہے کہ جب علم آتا ہے تو وہ عمل کو پکارتا ہے اگر عمل لبیک کہے تو وہ علم رہتا ہے اور اگر عمل لبیک نہ کہے تو وہ علم رخصت ہوجاتا ہے ۔علم روشنی ہے جہالت ایک تاریکی ہے تو حقیقی علم جیسے گذشتہ مجلس میں میں نے عرض کیا تھا لازم و ملزوم ہے تقوی و خوف خدا عموما بوگس باتیں ہیں یعنی جھوٹ موٹ اس کو ڈنڈی مار ، اس کو یہ کر اس کو وہ کر تو مایوسی ہوتی ہے کہ اگر یہی لیل ونھار رہے تو ہم لوگ کیا کریں گے ۔ہم دین کی خدمت کیا کرسکیں گے یہ تو بعد کی بات ہے ہم پہلے اپنے اندر کی بات نہیں کہہ سکتے اپنے درس کو خدا اور رسول کے احکام کے تابع نہیں کرتے دوسروں کے لئے ہم کیا خاک کریں گے ۔۔۔۔۔

 

جاری ہے۔۔۔۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=25991