11

آخر کب تک ہمارے بہتے ہوئے خون کو دیکھ کر صرف مذمتی بیانات پر اکتفا کیا جائیگا، علامہ امین شہیدی

  • News cod : 30748
  • 06 مارس 2022 - 16:42
آخر کب تک ہمارے بہتے ہوئے خون کو دیکھ کر صرف مذمتی بیانات پر اکتفا کیا جائیگا، علامہ امین شہیدی
اگر حکومت، اسٹیبلشمنٹ، بیوروکریسی، سیاستدان، مفتی اور ملا میں سے کوئی بھی اس ظلم و بربریت پر خاموش ہے تو وہ اس جرم میں برابر کا شریک اور قاتلوں کا ساتھی ہے۔ ان قاتلوں کو سیاسی، مذہبی اور اخلاقی طور پر سپورٹ کرنے والا اسلام اور وطن کا دشمن و غدار ہے۔

امت واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے کوچہ رسالدار کی جامع مسجد و امام بارگاہ میں ہونے والے خودکش بم دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ امت واحدہ پاکستان کی طرف سے جاری کردہ اعلامیہ میں انہوں نے کہا کہ سانحہ پشاور، شیعہ نسل کشی کا تسلسل ہے، جو گذشتہ چالیس برسوں کے دوران ریاستی اداروں کی انوالومنٹ اور چند عرب ممالک کی مدد سے ہوتی رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں بتایا گیا تھا کہ دہشت گردی کے حوالہ سے ریاست کی پالیسیاں تبدیل ہوچکی ہیں، لیکن عملاً ایسا نہیں ہے۔ تمام خودکش حملہ آور پیدا کرنے والے افراد، گروپس اور جماعتیں اب بھی فعال ہیں اور سیاسی میدان میں موجود ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سے وابستہ افراد اب بھی یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ ہم ان دہشت گرد قاتلوں کو مین سٹریم لائن میں لاکر پولیس، ایف سی اور دیگر حکومتی اداروں میں بھرتی کرنا چاہتے ہیں، تاکہ ان کو روزگار ملے اور یہ لوگ دہشت گردی ترک کر دیں۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ جو لوگ پاکستان و اسلام دشمن قوتوں کے ہاتھوں کھلونا بن کر اپنے مسلمان بھائیوں کے خون سے ہولی کھیلنے کے عمل کو عادت بنا لیں، وہ کبھی بھی پیار کی زبان نہیں سمجھ سکتے۔

ٹی ٹی پی، داعش، سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی یہ سب ایک ہی ماں کی جنی ہوئی تنظیمیں ہیں، جو نہ ملک کی وفادار ہے اور نہ اسلام کی، لیکن ہماری ریاست ہر بار اس ماں پر ہاتھ ڈالنے کی بجائے اس خودکش حملہ آور کا ماتم کرتی ہے، جو واصلِ جہنم ہو جاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہماری ریاست کو ان لوگوں کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے، جو مذہب کے شیلٹر میں تکفیری نعرے لگاتے ہیں اور دوسرے مسالک کے افراد کے خلاف آج بھی فتویٰ دیتے ہیں کہ وہ خارج از اسلام اور واجب القتل ہیں۔ ایسے لوگ خواہ مدرسہ میں ہوں یا مذہب کے نام پر بننے والی جماعتوں کا حصہ ہوں، وہ اس طرح کے تمام واقعات کے ذمہ دار ہیں۔ اگر ریاست ان معاملات کو کنٹرول کرنے میں سنجیدہ ہے تو ریاست کا رویہ بدلنا چاہیئے۔ پاکستان کو اس صورتحال سے نکالنے کے لئے ضروری ہے کہ جن دہشت گرد جماعتوں نے گذشتہ چار دہائیوں میں گھروں کو اجاڑا، مساجد کو تباہ کیا، علماء کو قتل کیا؛ حتی کہ پولیس اور فوج کو بھی نہ بخشا، ان کو عبرتناک سزا دی جائے اور ان لوگوں سے بھی سختی سے نمٹا جائے، جو منبر و محراب یا مدرسہ کے درس کے ذریعے لوگوں کے اذہان کو نفرت کے زہر سے آلودہ کرکے انہیں اپنے ہم وطن و ہم مذہب مسلمان بھائیوں کے قتل پر اکساتے ہیں، خواہ وہ ڈھال کوئی بھی استعمال کرتے ہوں۔ بعض اوقات نعرے بڑےخوبصورت ہوتے ہیں، لیکن ان کے پس پردہ عزائم بڑے نجس اور خطرناک ہوتے ہیں۔ جب تک تکفیری عناصر کا قلع قمع نہیں کیا جاتا، یہ سلسلہ تھمنے والا نہیں۔

اگر حکومت، اسٹیبلشمنٹ، بیوروکریسی، سیاستدان، مفتی اور ملا میں سے کوئی بھی اس ظلم و بربریت پر خاموش ہے تو وہ اس جرم میں برابر کا شریک اور قاتلوں کا ساتھی ہے۔ ان قاتلوں کو سیاسی، مذہبی اور اخلاقی طور پر سپورٹ کرنے والا اسلام اور وطن کا دشمن و غدار ہے۔ پوری قوم صدر، وزیراعظم اور آرمی چیف سے سوال پوچھتی ہے کہ آپ لوگ کب تک ہمارے بہتے ہوئے خون کو دیکھ کر صرف مذمتی بیانات پر اکتفا اور اگلے سانحہ کا انتظار کریں گے۔؟ حال ہی میں کوئٹہ میں تین شیعہ شخصیات کو ٹارگٹ کیا گیا۔ یعنی تکفیریوں کا سب سے آسان ٹارگٹ شیعہ ہے۔ یاد رکھئے! اگرشیعہ جوان بھی اسی راہ پر چل پڑے، جسے ضیاء الحق کے دور کے دہشت گردوں اور ان کی باقیات نے اپنائے رکھا ہے تو پھر اس ملک میں امن نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہے گی۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ دہشت گردی، بربریت اور حیوانیت کو روکیں اور ریاست اور عدالتیں بھی اپنا کردار ادا کریں۔ اس وقت بھی جیلوں کے اندر سزائے موت پانے والے بہت سے ایسے قیدی موجود ہیں، جن کا تعلق لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ سے تھا اور جو قتلِ عام کے مرتکب ہوئے۔ ان کی سزا پر اب تک عملدرآمد نہیں ہوا۔

بنوں اور ڈی آئی خان جیلوں سے ریاست کے سائے میں سینکڑوں خونخوار درندے دیواریں پھاند کر چلے گئے اور جاتے جاتے شیعہ قیدیوں کے گلے بھی کاٹے۔ ہم بھولے نہیں ہیں۔ یہ واقعات انڈیا یا امریکہ نے نہیں کیے بلکہ یہ واقعات ہمارے ملک کے ریاستی اداروں کے سائے میں ہوئے ہیں، اس لئے ہم خوش فہمی کا شکار نہیں ہوسکتے۔ ہمیں شدید تکلیف ہے اور ہم سانحہ پشاور پر شدید احتجاج کرتے ہیں۔ قوم کی بیداری کا یہی موقع ہے؛ تمام لوگ بھرپور طریقے سے اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں اور بتائیں کہ ہم قتل ہو رہے ہیں، لیکن حوصلہ نہیں ہارے؛ آج بھی میدان میں کھڑے ہیں اور ان نجس عزائم کے حامل لوگوں کی راہ میں دیوار بن کر آخری وقت تک کھڑے رہیں گے۔ ان شاء اللہ! ہم جانتے ہیں کہ یہ آخری واقعہ نہیں تھا اور آئندہ بھی ہم امید رکھتے ہیں کہ شیعہ مدارس، مساجد، امام بارگاہیں اور شخصیات غیر محفوظ رہیں گی۔حکومت اور ریاستی اداروں نے قوم کو اس حوالہ سے مکمل طور پر مایوس کر دیا ہے۔اس مایوسی سے قوم کو نکالنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ دہشت گردوں کو حقیقی معنوں میں آہنی ہاتھوں سے روکا جائے اور انہیں روکنے کے لئے ضروری ہے کہ ریاستی ادارے اپنی پالیسی بدلیں اور دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والے عناصر چاہے وہ کسی بھی شکل اور لباس میں ہوں یا ان کا تعلق کسی بھی شعبہ زندگی سے ہو، خواہ پگڑی پہنے ہوئے ہوں یا وردی، ان کو الگ کرکے نشانہ بنانے کی ضرورت ہے۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=30748