مغربی دنیا کا فلسطین کی حمایت میں قیام مذہبی نہیں، نظریاتی ہے، علامہ امین شہیدی
انہوں نے کہا کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی کے حوالہ سے شاید دنیا کو بہت سے حقائق کا علم نہیں۔ وہ کوئی افسانوی کردار نہیں، البتہ انہیں کسی ناول کے ایمان دار، بے خوف اور بہادر ہیرو کی حقیقی شکل ضرور قرار دیا جاسکتا ہے۔ وہ مردِ مجاہد کہ جس کی ہیبت کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ ٹیلی فونک گفتگو کے دوران عراق کے صدر جلال طالبانی کے ساتھ شہید حاج قاسم کی موجودگی کا سن کر امریکی صدر پر سکتہ طاری ہوگیا۔
انہوں نے کہا کہ سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلہ میں اللہ کا نظام ہے جو بنی نوع آدم کو حقیقی انسان بنانے کے لئے متعارف کیا گیا ہے۔ ان دونوں نظاموں کے درمیان جنگ جاری ہے. پاکستان میں قومیت، لسانیت اور فرقہ واریت کے نام پر سرمایہ دارانہ نظام نے اپنی پالیسیز کو نافذ کیا۔
علامہ امین شہیدی نے کہا کہ ہمارے ہاں فکری اور نظریاتی تربیت کا فقدان ہے لہذا ہمیں اس طرف زیادہ متوجہ رہنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے نوجوان مضبوط ہوں۔ نوجوانوں کو تنظیمی بنانے سےزیادہ تربیت یافتہ بنانے کی ضرورت ہے، یعنی تربیت کے نتیجہ میں ایسے نوجوان سامنے آئیں جو حقیقی معنوں میں موحد بھی ہوں اور علیؑ کے شیعہ بھی۔
علامہ امین شہیدی نے کہا کہ عبودیت کے اصل فلسفہ کو سمجھنے کے بعد ہی انسان کمال کے مرتبہ کو حاصل کر سکتا ہے۔ محض کثرتِ سجدہ اور داڑھی انسان کی پرہیزگاری کو ثابت نہیں کرتے۔ عبودیت انسان کی طلب ہے، اس کی انجام دہی میں کوتاہی انسان کو بے چین و مایوس رکھتی ہے
علامہ امین شہیدی نے شہادت کے مفہوم کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ شہید ظاہری طور پر اپنا لہو بہاتا ہے لیکن معنوی طور پر وہ مقامِ بلند اور شعور کی اعلی منزل تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔ عام طور پر ایک انسان کی تربیت و تزکیہ کے حوالہ سے کہا جاتا ہے کہ ہمارے معاشرہ میں ایسے پاکیزہ اور تربیت یافتہ لوگوں کا پایا جانا ممکن نہیں جو عملی طور پر اہل بیت اطہار علیہم السلام یا اولیاء اللہ جیسی زندگی گزار سکیں۔
علامہ امین شہیدی نے ملک کے موجودہ تعلیمی نظام پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے تعلیمی نظام، نصاب اور اس کے ڈھانچہ کو بھی مغرب نے تشکیل دیا ہے اور اسی نصاب کے ذریعہ دیسی لبرلز تیار کیے جاتے ہیں۔ دیسی لبرلز کی مثال "کوا چلا ہنس کی چال، اپنی بھی بھول گیا" جیسی ہے جن کو نہ سرمایہ ملتا ہے اور نہ خدا و رسولؐ۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں سب سے بڑا چیلنج دین بیزاری کا ہے۔
انہوں نے سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کے مصائب پر محزون ہونے اور گریہ کرنے کی وجوہات و اثرات پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ تاریخِ انسانی ظلم کی داستانوں سے بھری پڑی ہے، یہاں تک کہ کئی انبیاء کو ان کی امت کے افراد نے دردناک طریقہ سے قتل کیا، لیکن ان کے قتل پر ہم گریہ و ماتم نہیں کرتے؛ تو پھر امام حسین علیہ السلام پر گریہ کرنے کی وجہ کیا ہے،
اگر حکومت، اسٹیبلشمنٹ، بیوروکریسی، سیاستدان، مفتی اور ملا میں سے کوئی بھی اس ظلم و بربریت پر خاموش ہے تو وہ اس جرم میں برابر کا شریک اور قاتلوں کا ساتھی ہے۔ ان قاتلوں کو سیاسی، مذہبی اور اخلاقی طور پر سپورٹ کرنے والا اسلام اور وطن کا دشمن و غدار ہے۔