23

آیت اللہ العظمی محمد علی علوی گرگانی کے حالات زندگی

  • News cod : 31478
  • 15 مارس 2022 - 22:24
آیت اللہ العظمی محمد علی علوی گرگانی کے حالات زندگی
حضرت آیت اللہ علوی نے ایرانی سال 1318 کے خرداد کے مہینے (20 جمادی الثانی 1359ھجری) میں نجف اشرف میں آنکھ کھولی۔ آپ کی پیدائش سے آپ کے والد گرامی بہت مسرور ہوئے کیونکہ اس وقت تک کئی بیٹے پیدا ہوئے تھے لیکن سب بچپن میں ہی دنیا سے رخصت ہوچکے تھے اور آپ نے امام علی(ع) کی روضہ اقدس میں توسل کرکےامامؑ سے ایک عالم اور نیک اولاد کی درخواست کی تھی۔

حضرت آیت اللہ علوی نے ایرانی سال 1318 کے خرداد کے مہینے (20 جمادی الثانی 1359ھجری) میں نجف اشرف میں آنکھ کھولی۔ آپ کی پیدائش سے آپ کے والد گرامی بہت مسرور ہوئے کیونکہ اس وقت تک کئی بیٹے پیدا ہوئے تھے لیکن سب بچپن میں ہی دنیا سے رخصت ہوچکے تھے اور آپ نے امام علی(ع) کی روضہ اقدس میں توسل کرکےامامؑ سے ایک عالم اور نیک اولاد کی درخواست کی تھی۔

خاندان

آپ کے والد گرامی، مرحوم آیت اللہ حاج سید سجاد علوی گرگانی، اپنے علاقے “گرگان اور دشت”کی سب سے بڑی علمی شخصیت تھے اور صوبہ مازندران کے مشہورترین علماء میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ ان کی شہرت کا چرچا گرگان، گنبد، کردکوی، علی آباد کتول اور دیگر شہروں تک پھیلا ہوا تھا اور مسلمان لوگ –شیعہ اور سنی- ان کے مرید اور تابعدار تھے اور اپنی دینی اور معاشرتی مشکلوں، اپنےعلاقائی اور قبایلی اختلافات کو حل کرنے نیز عام روزمرہ زندگی کے مسائل (عقد، نماز میت اور وجوہات شرعی اور دیگر احکام شرعی) کے سلسلے میں آپ کی طرف مراجعہ کرتے تھے۔

آپ سنہ 1322 ھجری میں گرگان کے مضافات میں “النگ” نامی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد آقا سید قاسم حسینی، تہجدگزار مؤمن اور دینی فرائض کی انجام دہی میں پابند ہوتے ہوئے ہمیشہ ذکر الہی میں مصروف رہتے اور لوگوں میں خاصی مقبولیت رکھتے تھے۔ آپ 60 سال کی عمر تک صاحب اولاد نہیں ہوئے اور مختلف دعاؤں اور توسل کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے یہ بیٹا ادھیر عمری میں آپ کو عطا فرمایااور چند سال کے بعد آپ کے والدین تین دن کے فرق سے دنیا سے رخصت ہوگئے اور آپ کی کفالت علاقے کے بزرگ عالم دین حاج ملا محمد ہاشم کبیر کے سپرد ہوگئے جنہوں نے آپ کو مقدمات اور علم نظامی کے علاوہ سطح کے کچھ مراحل کی تعلیم دی۔
سچا خواب
آپ کے والد –آیت اللہ حاج سید سجاد- ایک رات خواب کے عالم میں امیرالمؤمنین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور امام نے آپ کو بہت جلد ایک بیٹے کے باپ بننے کی بشارت دی اور فرمایا کہ اپنے بیٹے کا نام “علی
رکھنا۔ جب یہ بچہ پیدا ہوا، اس کا نام “محمد علی” رکھا گیا تا کہ مستحب پر بھی عمل کیا جا چکا ہو کہ بیٹے کا نام “محمد” رکھا جائے اور اپنے وعدے کو بھی پورا کیا جائے جو امیرالمؤمنین(ع) کو دیا تھا۔ آپ کے والدنے کئی بار آپ کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا:”محمد علی! تم اپنے دیگر بھائیوں سے مختلف ہوگے اور مستقبل میں بلند علمی مقامات حاصل کرو گے، کیونکہ تجھے امیرالمؤمنین(ع) سے توسل کرکے، اللہ تعالیٰ سے مانگا ہے”۔
معظم لہ، اپنے والدین (رحمۃ اللہ علیہما) کی گود میں پرورش پاتے ہیں اور اپنے والد سے دین کے کافی مسائل اور لکھنا پڑھنا اور عربی زبان میں گفتگو کرنا سیکھ لیتے ہیں۔ (ابھی بھی آپ فصیح عربی زبان میں گفتگو کرتے تھے)۔
تعلیم
حضرت آیت اللہ علوی، 7 سال کی عمر (1365ھجری) میں اپنے والد گرامی کے ساتھ ایران تشریف لائے اور ان کے پاس قران اور ریاضی اور گلستان اور اس کے بعد علم نظامی اور مغنی و مطول و لمعہ کی شرح کو تحصیل کیا۔ 16 سال کی عمر (1374ہجری) میں اپنے والد اور گرگان کے کچھ حاجیوں کے ساتھ، زیارات عراق، بیت اللہ الحرام، مدینہ منورہ، بیت المقدس، الخلیل (حضرت ابراہیم کا حرم) اور سوریہ کی زیارات کا شرف حاصل کیا اور سفر کے دوران دینی کتابوں اور زیارت کے اعمال کی کتب کا مطالعہ کرتے رہے۔ سفر حج سے واپسی پر جب قافلہ نجف اشرف پہنچا، مرحوم آیت اللہ العظمی حکیم آپ کے والد سے ملاقات کرنے آئے اور جب ان کے نجف میں قیام کے متعلق معلوم ہوا، ان سے فرمایا:”اگر آپ حوزہ علمیہ قم میں تحصیل علم کریں، تو بہتر ہے۔ کیونکہ قم کے حوزہ میں دو خصوصیات ہیں: تدریس کا فن اور سخنوری کا فن۔ جو شخص وہاں کے حوزہ میں علم حاصل کرے، ان دو علوم کو سیکھ لیتا ہے؛ درس بھی پڑھتا ہے اور درس بھی پڑھاتا ہے اور دین کی تبلیغ بھی کرتا ہے”۔
اسی بنا پر معظم لہ قم تشریف لے آئے اور حوزہ علمیہ قم میں سطوح عالیہ کی تعلیم میں مصروف ہوگئے اور حضرات آیات: شیخ مصطفی اعتمادی (مطوّل)، ستودہ (شرح لمعہ) ، میرزا محمد مجاہدی تبریزی (مکاسب) اور سید محمد باقر سلطانی طباطبائی(کفایہ) کے پاس پڑھنے لگے اور یہ دروس 4 سال میں مکمل کر لئے۔
اساتید
آپ نے اپنے تعلیم کے دوران حوزہ علمیہ قم میں علم و فقاہت کے عظیم ستون جیسے:
آیت اللہ العظمی بروجردی سے تین سال درس فقہ پڑھا (1377 -1380ہجری)۔ آپ اس کلاس میں سب سےکمسن طالبعلم تھے۔

آیت اللہ العظمی امام خمینی، جن سے 8 سال (1335 – 1343) اصول پڑھا اور اس کے بعد امام خمینیؒ 1343 میں ایران سے ترکی جلاوطن کر دیئے گئے۔ آپ ان دروس کو عربی زبان میں لکھتے تھے اور آپ کی کاپی تمام طالب علموں کے پاس گھومتی رہتی تھی اور جو کئی دن درس سے غیرحاضر رہا ہوتا، آپ کی کاپی سے درس کو نوٹ کر لیتا تھا۔ امام خمینی آپ کے والد سے اپنے تعلیمی دَور سے آیت اللہ حائری کے درس سے دوست تھے اور جب بھی آپ گرگان سے قم تشریف لاتے، امام خمینی سے ضرور ملاقات کرتے تھے۔
آیت اللہ سید محمد داماد جن سے آپ نے 12 سال فقہ اور اصول پڑھا۔
آیت اللہ حاج آقا مرتضی حائری یزدی سے آپ نے 15 سال فقہ پڑھا اور آپ کے دروس کو تحریر کیا جو استاد کی توجہ کا مرکز بنے اور استاد درس کے دوران آپ کی آراء اور نظریات کو بغور سُنا کرتے تھےاور استاد نے آپ کے اندر اجتہاد کی قابلیت کو داد دیتے ہوئے آپ کی علمی صلاحیت کی تایید کی اور آپ سے فرمایا: “آقائے علوی! اب ضرورت نہیں ہے کہ آپ میرے درس میں شرکت کریں، آپ خود درسِ خارج (پڑھانا) شروع کر دیں”۔
آیت اللہ العظمی سید محمد رضا موسوی گلپائیگانی، کئی سال آپ نے معظم لہ کے درس فقہ میں شرکت کی اور ان کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔
آیت اللہ العظمی حاج شیخ محمد علی اراکی، آپ نے نماز جمعہ کی بحث کو ان کے پاس پڑھا اور اپنے استاد کے دروس کو مکتوب کیا۔
آیت اللہ حاج شیخ عباس علی شاہرودی، آپ نے طہارت کی بحث کو اس استاد کے پاس پڑھا اور استاد کے دروس کو مکتوب کیا۔ آپ کے استاد آپ کی ذہانت اور یادداشت کی تعریف کرتے تھے اور فرماتے تھے: یہ (طالب علم) کلاس میں اپنے ساتھ کاغذ اور قلم نہیں لاتے تھے اور مستند احادیث کو ان کے حوالہ جات کے ساتھ زبانی پڑھا کرتے تھے۔
نجف کی طرف
حضرت آیت اللہ علوی گرگانی حوزہ علمیہ قم میں گرمیوں کی چھٹیوں میں، (7 سال) نجف اشرف کی طرف ہجرت فرماتے اور اپنے داماد مرحوم آیت اللہ حاج سید حبیب اللہ طاہری گرگانی کے گھر قیام پذیر ہوتےتھے اور نجف کے عظیم علمی ستون جیسے آیات عظام: خوئی، شاہرودی، مرزا باقر زنجانی اور اپنے استاد امام خمینی کی خدمت میں حاضر ہوتے اور درس کے دوران سب سے زیادہ سوال پوچھنے والوں (اہم نکات کو ڈھونڈ نکالنا) میں شمار ہوتے تھے۔
ایک دن آیت اللہ العظمی خوئی کے درس کے بعد، ایک روایت کے معنی جو اپنے استاد محقق داماد سے پڑھا تھا، کو بیان کیا؛ مرحوم آقائے خوئی نے پوچھا: آپ کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں اور کس کے درس میں شرکت کرتے ہیں؟

آپ نے جواب دیا: میں قم سے آیا ہوں اور آیت اللہ محقق داماد –آیت اللہ العظمی حاج شیخ عبدالکریم حائری کے داماد- کے درس میں شرکت کرتا ہوں اور یہ بات بھی اُن سے سیکھی ہے۔
آقائے خوئی نے فرمایا:آپ کے استاد حقیقی محقق ہیں۔اور مرحوم آیت اللہ شہید حاج مرزا احمد انصاری قمی جو کہ آپ کی زوجہ کے چچا بھی ہیں نے صحیح معنوں میں آپ کا تعارف آقائے خوئی کے پاس کیا کہ “یہ حوزہ علمیہ قم کے برجستہ استادوں میں سے ہیں اور سطوح عالیہ کی تدریس کرتے ہیں اور میرے بھائی حاج شیخ محمد علی انصاری کے داماد اور آیت اللہ حاج سید سجاد علوی گرگانی کے صاحبزادے ہیں”۔آیت اللہ خوئی نے آپ کو اپنے گھر دعوت دی اور وہاں پر آپ کو ایک قیمتی عبا تحفے میں دی۔
تدریس
حضرت آیت اللہ علوی گرگانی نے ، اپنی دینی تعلیم کے شروع سالوں سے ہی اپنے حاصل کردہ تعلیم کی تدریس شروع کر دی۔ انہوں نے کئی بار سیوطی اور مغنی اور مطول: شرح شمسیہ اور شرح نظام کی تدریس فرمائی اور اپنی جوانی کے ایام (17 سال کی عمر 1357ہجری) میں حاشیہ ملا عبداللہ کو “رفع کشف الغاشیہ عن وجہ الحاشیہ” کے نام سے تشریح فرمایا۔آپ، 1382ہجری سے سطوح (معالم، قوانین، شرح لمعہ و شرح تجرید) کی تدریس میں مصروف ہوگئے اور بہت جلد آپ کے درس “شرح لمعہ” –جو کہ مسجد اعظم کے اندر ہوتا تھا- حوزہ علمیہ قم کے پررونق ترین دروس میں شمار ہونے لگا اور رسائل اور مکاسب اور کفایہ کا درس –جو کہ حسینیہ ارک میں منعقد ہوتا تھا- حوزہ کی سب سےکثیر تعداد والی کلاس میں تبدیل ہوگئی۔ آپ دن میں کبھی چار درس پڑھاتے تھے اور اپنے استادوں کی کلاسوں میں بھی شرکت کرتے تھے۔

“معظم لہ کا حوزہ علمیہ کے سطوح عالیہ کے برجستہ استادوں میں شمار ہوتا ہے جو علم اور تقوا اور متانت اور بزرگواری سے آراستہ ہیں”۔

تالیفات

المناظر الناضرة فی احکام العترة الطاهرة (ج ۱، بخشی از کتاب طهارت)
این اثر مورد تشویق و تقدیر مرحوم آیت‌الله العظمی گلپایگانی قزاز گرفته بود و به اصرار ایشان به چاپ رسید.

لئالی لاصول (۶ج. مباحث الفاظ و اصول عملیه)
نور الهدی فی التعلیق علی العروة الوثقی
التعلیقة علی تحریر الوسیلة (۲ ج)
اجوبة المسائل (۲ ج) – پاسخ به استفتائات از طهارت تا دیات.
انوار اخلاقی یا ره توشه پارسایان (۳ ج) شرح وصایای پیامبر اکرم به امیر المؤمنین علیه السلام و ابوذر غفاری و عبدالله بن مسعود.
توضیح المسائل (به عربی و اردو ترجمه شده است).
مناسک حج (به عربی و اردو ترجمه شده است).
استفتائات و مناسک و ادعیه حج
احکام جوانان
احکام بانوان
کلید سعادت (احکام و استفتائات و نصایح اخلاقی ویژه بانوان). نوشته:سید مجتی فاطمی
گلچینی از درسهای اخلاق
مجموعه پیامها و بیانیه‌های به مناسبت‌های مختلف، مانند: ایام فاطمیه، ایام اعتکاف، ایام رمضان، ایام محرم الحرام.
احکام کسب و کار
استفتائات حج و عمره
احکام خمس
روزه سپر مؤمن
ب) آثار غیر چاپی:

۱- المناظر الناظرة (از جلد ۲ تا جلد ۲۰: شامل کتاب‌های: طهارت (۶ ج)، صلاة (۹ ج) و زکات (۵ ج).

۲- لئالی الاصول (۴ جلد مباحث: ادامه اصول عملیه، تعادل و ترجیح و اجتهاد و تقلید)

۳- القواعد الفقهیة (قاعده‌های: ضمان، لاضرر، تقیه، عدالت، میسور و اصالة الصحة)

۴- رساله در فروع علم اجمالی

۵- تعلیقه بر وسیلة النجاة

۶- تعلیقه بر منهاج الصالحین

۷-زبدة اللئالی – خلاصه لئالی الاصول.

کشف الغااشیة عن وجه الحاشیة – شرح حاشیه ملا عبدالله (اولین نوشتار معظم‌له در ۱۶ سالگی)
_طبقات الرجال (کتاب چاپ نشده است).
نورالبیان فی تفسیر القرآن
_ تقریرات درس فقه آیت‌الله العظمی بروجردی (بحث: طهارت و قضاء)
_ تقریرات درس فقه آیت‌الله محقق داماد (بحث: صلاة و حج)
_ تقریرات درس فقه آیت‌الله اراکی (بحث: صلاة الجمعة)
_ تقریرات درس فقه آیت‌الله حائری (بحث: طهارت و خمس)
_ تقریرات درس فقه آیت‌الله شیخ عباسعلی حائری (بحث طهارت)
_ تقریرات درس فقه اصول آیت‌الله العظمی امام خمینی (از مقدمه واجب تا آخر قطع وظن)
_ تقریرات درس فقه اصول آیت‌الله محقق داماد (دوره کامل)
_ اجوبة المسائل (ج ۳ و ۴)
۱۹_ مجموعه اجازات، اعلامیه‌ها و بیانیه‌ها.

ماندگار آثار

  • ارشاد الاذهان (کتابت: ۹۷۴ق)
  • شرایع الاسلام (کتابت: ۱۰۸۵ق)
  • مفتاح الفلاح ( — )
  • مواعد العوائد (۱۲۳۷ق)
  • شوارق الالهام (۱۲۲۴ق)
  • دیوان وفایی (۱۳۰۵ق)
  • کواشف الحجب (۱۲۵۵ق)
  • مصباح المتهجد (۱۰۹۰ق)
  • شرح لمعه (۱۲۶۱ق)
  • محرق القلوب (۱۲۳۵ق)
  • الفوائد الضیائیه (۱۲۴۳ق)
  • شرح مختصر النافع ( — )
  • مدارک الاحکام ( — )
  • شرایع الاسلام ( — )

اولاد

  •  سید محمد علوی (متولد: ۱۳۴۳ش / ۱۳۸۳ق)
  •  سید مهدی علوی (متولد: ۱۳۴۹ش).
  • سید محمود علوی (متولد: ۱۳۵۲ش)
  •  سید محسن علوی (متولد: ۱۳۵۹ش).
مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=31478