3

والدین کی اطاعت کرتے ہوئے بیوی کو مارنا جائز نہیں ہے، حجۃ الاسلام آغا علی اصغر سیفی

  • News cod : 43348
  • 28 ژانویه 2023 - 13:26
والدین کی اطاعت کرتے ہوئے بیوی کو مارنا جائز نہیں ہے، حجۃ الاسلام آغا علی اصغر سیفی
انہوں نے کہاکہ والدین کی اطاعت سے کسی کی زندگی خراب نہ ہو والدین کی اطاعت سے بیوی کے حقوق پائمال نہ ہوں اسی طرح بیوی یا کسی اور کی وجہ سے والدین کے حقوق پائمال نہ ہوں صرف اصلاح کی کوشش کی جائے کی  والدین کی اطاعت کرتے ہوئے بیوی کو مارنا جائز نہیں ہے۔

وفاق ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، حجۃ الاسلام والمسلمین علی اصغر سیفی نے  مجلس ترحیم سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ سورہ لقمان میں ارشاد رب العزت ہے: وَ وَصَّیۡنَا الۡاِنۡسَانَ بِوَالِدَیۡہِ ۚ حَمَلَتۡہُ اُمُّہٗ وَہۡنًا عَلٰی وَہۡنٍ  قرآن میں والدین کے لئے پروردگار نے بہت سے مقامات پر وصیت فرمائی ہے اور یہ آیات ہر انسان سے مخاطب ہیں چاہے وہ کوئی بھی دنیاوی منصب کا مالک ہو یا اخروی منصب یعنی نبی یا امام کا درجہ رکھتا ہو سورہ عنکبوت میں ارشاد ہے وَ وَصَّیۡنَا الۡاِنۡسَانَ بِوَالِدَیۡہِ حُسۡنًا ؕ  یعنی اپنے والدین کے ساتھ بہترین رویہ ہونا چاہیے سورہ اسراء میں ہے أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَ بِالْوالِدَيْنِ إِحْساناً یعنی رب کی عبادت کے بعد والدین کے ساتھ احسان کا فریضہ عائد کیا ہے، لیکن جو سورہ لقمان کی جو آیت سرنامہ میں ذکر کی ہے اس میں ارشاد ہے  وَ وَصَّیۡنَا الۡاِنۡسَانَ بِوَالِدَیۡہِ ۚ حَمَلَتۡہُ اُمُّہٗ وَہۡنًا عَلٰی وَہۡنٍ اس آیت میں پہلے والدین کا ذکر کیا ہے اس کے بعد ماں کے حمل کی کیفیت کو ذکر کیا ہے کہ ماں وہ ذات ہے کہ جس نے حمل کے وقت تکلیف پر تکلیف برداشت کی   حَمَلَتۡہُ اُمُّہٗ وَہۡنًا عَلٰی وَہۡنٍ میں ایک ظریف نکتہ موجود ہے کہ وھن علی وھن یعنی تکلیف پر تکلیف ، فرض کریں یہ ہمارا ہاتھ  کہ جو پہل سے پر ہو چکا ہو لیکن پھر بھی اس پر چیزیں لادی جائیں تو ماں وہ ذات ہے کہ اس کا پورا وجود تکلیف سے بھر گیا تھا مگر پھر تکلیف اٹھا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماں باپ کی زحمتوں کا صلہ کوئی نہیں دے سکتا بالخصوص ماں کی زحمتیں، اللہ اکبر اس حوالے سے کئیں واقعات ملتے ہیں جیسے ایک واقعہ یہ ہے کہ ایک شخص نے اپنی ماں کو اپنے کندھوں پر سوار کرکے حج کروایا پھر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا آیا میں نے اپنی ماں کا حق ادا کردیا تو فرمایا کہ ابھی تو نے اس کے دودھ کے ایک گھونٹ کا حق ادا نہیں کیا ماں کی حقیقت کا ادراک کرنا ممکن نہیں ہے اسی طرح ایک واقعہ ملتا ہے کہ ایک شخص نے اپنی ماں کو کاندھے پر سوار کرکے طواف کیا اور آخری چکر پر اتار کر پوچھا کہ اب تو میں نے تیرا حق ادا کردیا تو ساتھ سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گزر ہوا تو سن کر فرمایا ابھی تو نے حمل کے دوران اس کے ایک سانس کی تکلیف کا بھی حق ادا نہیں کیا والد کا ہم پر حق ہے لیکن اکثر بھول جاتے ہیں اور ان کی طرف اس وقت رجوع کرتے ہیں جب کوئی مشکل ہوتی ہے حالانکہ ہماری تمام چیزوں تک دستیابی ان کی وجہ سے ہے والدین کی زیارت کا ثواب یہ ہے کہ جو پیار بھری نگاہ سے ان کو دیکھے گا تو ایک حج مقبول کا ثواب حاصل ہوگا تو معصوم سے سوال ہوا کہ اگر کئی بار دیکھے تو کہا جتنی بار دیکھے خدا کے ہاں کسی چیز کی کمی نہیں ہے ہمارے نزدیک پیغمبر و آئمہ علیہم السلام کی زیارت کا خاص شوق پایا جاتا ہے حالانکہ فرامین کی رو سے پیغمبر و آئمہ علیہم السلام کی زیارت سے زیادہ والدین کی زیارت و ان کی خدمت مقدم ہے جیسا کہ اویس قرنی کی مثال ہمارے پاس موجود ہے کہ جس کے دل میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا سمندر ٹھاٹیں مار رہا تھا لیکن بحکم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ،  ماں کی خدمت کو زیارت نبی پر ترجیح دیا تو اس کو بھی صحابی کا مقام عطا ہوگیا آج اہل ایمان اور صالحین کا رتبہ کم نہیں شاید صحابہ سے زیادہ ہی ہو   کیونکہ دیکھ کر محبت کرنا تو عام ہے لیکن اصل محبت تو وہ ہے جو ان دیکھی کی جائے اسی وجہ سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ نے ایک دن فرمایا کہ کہاں ہیں میرے بھائی تو صحابہ نے پوچھا کہ کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ہیں تو فرمایا تم نے مجھے میرے کلام و کردار کو دیکھ کر مجھ سے محبت کی لیکن وہ فقط سفید کاغذوں پر لکھی سیاہ لائنوں پر ایمان لائیں گے لہٰذا ان کا مقام بڑھ کر ہے  والدین کی خدمت فریضہ ہے اور یہ اولیت رکھتا ہے زیارت معصومین سے اور والدین کی ناراضگی کے ساتھ ان کی زیارات پر جانا لاحاصل ہے آیت اللہ بہجت رح  کے بلند مرتبہ مقام پر پہنچنے میں ایک وجہ والدین کی شدید اطاعت ہے جیسا کہ مشہور ہے کہ ان کے والد نے انہیں نافلہ نمازوں  سے منع کیا تو ان کا حکم مان کر انہوں نافلہ نمازوں کو ترک کردیا اور کہا کہ بہت سے لوگ نافلہ پڑھ کر ان مقامات تک پہنچے ہیں لیکن میں والدین کی اطاعت کی وجہ سے ان نوافل کو ترک کرکے ان مقامات پر پہنچا ہوں ایک دن حضرت موسی علیہ السلام نے خدا سے عرض کی کہ جنت میں میرا ساتھی کون ہوگا وحی آئی کہ فلاں قصاب تمہارا ساتھی ہوگا تو موسی علیہ السلام حیران ہوئے کہ کوئی عالم میرا ساتھی نہیں ہوگا بلکہ وہ ہوگا کہ جس کا پیشہ بھی مکروہ ہے لہذا اس قصاب کے پیچھے گئے تو دیکھا کہ اس نے سارا دن گوشت بیچا پھر شام میں تھوڑا سا گوشت لےکر گھر گیا تو راستے میں حضرت موسی علیہ السلام بھی ساتھ ہولئے گھر گئے تو اس نے معذور  ماں کو پانی پلایا پھر گوشت کا سالن بنایا روٹی بنائی اور ماں کو کھانا کھلایا اور اس کی خدمت کی تو حضرت موسی علیہ السلام نے دیکھا کہ اس کی ماں نے اس کے کان میں کچھ کہا ہے تو بعد میں حضرت موسی علیہ السلام نے پوچھا کہ یہ عورت کون ہے تو اس نے کہا یہ میری ماں ہے صبح جاتے وقت اس کے سارے کام کرکے جاتا ہوں اور واپسی پر آکر سارے کام کرتا ہوں کیونکہ وہ بہت بوڑھی ہے تو پھر حضرت موسی علیہ السلام نے کہا کہ اس نے تیرے کان میں کیا تو اس نے کہا کہ وہ بہت بوڑھی ہوگئی ہے اس وجہ سے بہکی بہکی باتیں کرتی رہتی ہے تو کہا نہیں بتاو تو اس نے کہا کہ وہ ہمیشہ کہتی ہیں کہ جنت میں خدا تجھے موسی کا ساتھی قرار دے تو حضرت نے کہا میں موسی نبی  ہوں اور خدا نے اس کی دعا سن لی ہے والدین جب بوڑھے ہوجائیں تو ان کی ایک حسرت ہوتی ہے کہ اولاد ان کے ساتھ بیٹھے ان کے ساتھ باتیں کرے اور ہنسی مزاق کرے کیونکہ تنہائی ان کے لئے عذاب ہے اور ہدیہ بھیجنے کافی نہیں ہیں  لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ اکثر ہم والدین سے دور ہوجاتے ہیں  ان کی باتوں کو سننا گوارا نہیں کرتے جیسا کہ ایک عورت سے اولڈ ہوم میں پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ میرا بچہ اس شہر میں ہوتے ہوئے ایک سال سے میرے پاس نہیں آیا معصوم سے والدین سے گفتگو کا اجر پوچھا تو فرمایا کہ جو گھر می رہے اور اپنے بستر پر سوئے لیکن والدین کو ھنسایا کرے ان کے ساتھ خوش خلقی کرے تو اس کا اجر مجاہد فی سبیل اللہ والا ہوگا اسی طرح روایت میں ہے کہ جو والدین کی خدمت کرے تو اس کے لئے جنت کے دو دروازے کھولے جائیں گے ایک شخص نے کہا کہ مجھے اپنی دعاؤں کو قبول کروانے کا طریقہ آتا ہے وہ یہ کہ جب میں گھر جاتا ہوں تو رات سونے سے پہلے والدین کے پاؤں دباتا ہوں تاکہ وہ سکون سے سو جائیں پھر ان کے پاؤں کے تلوے سے منہ کو مس کرتا ہوں اور اس وقت دعا کرتا ہوں اور جو بھی دعا مانگتا ہوں وہ فورا قبول ہوجاتی ہے۔

لیکن یہ نکتہ ذہن میں رہے کہ والدین کی اطاعت کی بھی حد بندی ہے یعنی ان کی اطاعت کسی اور کی حق تلفی کا باعث نہ بنے تو اس وقت تک ان کی اطاعت کی جائے جب تک نافرمانی خدا نہ ہو  معصیت میں اور کسی کی حق تلفی کے دوران ان کی اطاعت واجب نہیں ہے والدین کی اطاعت سے کسی کی زندگی خراب نہ ہو والدین کی اطاعت سے بیوی کے حقوق پائمال نہ ہوں اسی طرح بیوی یا کسی اور کی وجہ سے والدین کے حقوق پائمال نہ ہوں صرف اصلاح کی کوشش کی جائے کی  والدین کی اطاعت کرتے ہوئے بیوی کو مارنا جائز نہیں ہے خصوصاََ منہ پر طمانچہ مارنا جائز نہیں ہے کیونکہ قیامت کے دن جہنم کے ستر خازن اس کے منہ پر طمانچہ ماریں گے ہمارے بہت سے اعمال کا اجر ہمیں نہیں مل پاتا انہی حق تلفی اور ایک دوسرے کے حق میں ظلم و زیادتیوں کی وجہ سے حتی ایک مختصر سا کینہ و عداوت انسان کی روحانی ترقی میں مانع ہے امام خمینی رح کے استاد جواد ملکی تبریزی بیان فرماتے ہیں کہ جب میں نجف گیا وہاں اپنے اساتذہ کی راہنمائی میں تعلیم و تربیت کے مراحل طے کرنے شروع کیے  میں نے ریاضت شروع کی تو کچھ عرصہ کے بعد دیکھا کہ میرے اندر روحانیت موجود نہیں ہے بلکہ میں بالکل پہلے جیسا ہوں کوئی معنوی تبدیلی میرے اندر نہیں آئی تو استاد سے پوچھا تو انہوں نے کہا شاید تمہارے ذمے حق الناس ہے تو کافی سوچا تو ذہن میں آیا کہ میرے ایک رشتہ دار ہیں جو نجف میں پڑھتے ہیں خاندانی اختلافات کی بناء پر ان سے بات چیت نہیں ہے تو ایک دن ایک مجلس میں دیکھا کہ وہ آئے ہیں  تو مجلس کے ختم ہونے کے بعد میں نے اس کے جوتے سیدھے کردیئے اور وہیں اس پرانی بات کو بھول کر ایک دوسرے کو گلے لگالیا تو اسی دن سے معنویت میری زندگی میں داخل ہوگئی۔

انہوں مے مزید کہا کہ والدین کے اس دنیا سے جانے کے بعد چار حق ان کی اولاد پر عائد ہوتے ہیں  1 ان کے لئے نماز پڑھنا مثلاً نماز جنازہ، نماز وحشت قبر اور قضا نمازیں وغیرہ 2 استغفار کریں ان کے لیے  3 والدین کے اچھے امور کو آگے بڑھانا اگر کوئی کار خیر کرتے ہیں اسے جاری رکھیں  4 ان کے دوستوں کا احترام کرنا

خدا وند عالم سے دعا ہے کہ جس مرحومہ کی مجلس ہے خداوند متعال ان کے درجات میں اضافہ فرمائے اور ان کو اعلی علیین میں جگہ عنایت فرمائے

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=43348