8

جتنی بھی عبادات ہیں سب عمل صالح شمار ہوتے ہیں، علامہ غضنفر فائزی

  • News cod : 44215
  • 18 فوریه 2023 - 18:41
جتنی بھی عبادات ہیں سب عمل صالح شمار ہوتے ہیں، علامہ غضنفر فائزی
مدرسہ امام المنتظر قم میں استاد محترم غضنفر فائزی نے درس اخلاق دیتے ہو کہا کہ جتنی بھی عبادات ہیں سب عمل صالح شمار ہوتے ہیں لیکن ہر ایک کا مقام و محل ہے ایک کو چھوڑ کر دوسرے کو انجام دینا درست نہیں ہے یعنی نماز پڑھ لی تو روزہ نہیں رکھا تو کافی نہیں ہے بلکہ آیت مذکورہ میں ”الصالحات“ کا لفظ استعمال ہوا ہے کہ جس پر الف لام عموم کا فائدہ دے رہی ہے۔۔

وفاق ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، مدرسہ امام المنتظر قم میں استاد محترم غضنفر فائزی نے درس اخلاق دیتے ہو کہا کہ  پچھلے در س میں اول رمضان کی دعا کے حوالے سے گفتگو ہوئی آج دوسری دعا کے حوالے سے گفتگو ہوگی۔ سید ابن طاووس نے اقبال الاعمال میں ہر دن کی چار دعائیں ذکر کی ہیں حالانکہ ایک دعا رائج ہوگئی ہے جو مفاتیح میں ہے جو زاد المعاد علامہ مجلسی سے نقل ہوئی ہے زاد المعاد میں علامہ مجلسی نے رمضان کی نمازیں اور دعائیں خلاصہ کرکے بیان کی ہیں اور شیخ عباس قمی نے وہاں سے ان دعاؤں کو کاپی کیا ہے دوسری دعا تین کتابوں میں ایک جیسی ہے۔ اللهُمَّ قَرِّبْنِی فِیهِ إِلَى مَرْضَاتِکَ وَ جَنِّبْنِی فِیهِ مِنْ سَخَطِکَ وَ نَقِمَاتِکَ وَ وَفِّقْنِی فِیهِ لِقِرَاءَةِ آیَاتِکَ بِرَحْمَتِکَ یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ اے معبود !آج کے دن مجھے اپنی رضاؤں کے قریب کر دے آج کے دن مجھے اپنی ناراضی اور اپنی سزاؤں سے بچائے رکھ اور آج کے دن مجھے اپنی آیات پڑھنے کی توفیق دے اپنی رحمت سے اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔

انہوں نے کہاکہ اس کا ثواب کتاب البلد الامین اور کفعمی میں ذکر ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ جو شخص بھی اس دعا کو پڑھے گا اللہ تعالی اس کو جتنے قدم بھی اس نے زندگی میں اٹھائے ہوں گے ہر قدم کے بدلے ایک سال کی عبادت کامل لکھے گا کہ جس کے دنوں میں روزے اور راتوں میں قیام کیا ہو
اب انسان ہر روز جتنے بھی قدم اٹھائے اسی حساب سے ایک سال کی عبادت کامل لکھی جائے گی یہ اجر عظیم اس دعا کو پڑھنے کی وجہ سے ہے اور دعا کو پڑھنا ضروری ہے سننا کافی نہیں ہے ان دعاؤں میں بڑا عظیم پیغام ہے کہ اللہ سے ان چیزوں کی درخواست کرو۔ دوسرے دن کی دعا میں تین چیزوں کی درخواست ہے رب کی رضا کی عذاب و سختی سے بچنے کی اور قرآن کو پڑھنے کی۔ مرضات رضی یرضی رضا رضوان مرضاۃ یہ مصدر ہے قرآن کی آیت بھی ہے وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ اس کا معنی راضی ہونا اور خوش ہونا ہے یہ قرآن میں ۸۳ مرتبہ ۶۴ آیات میں استعمال ہوا ہے بعض آیات میں دو سے تین مرتبہ بھی آیا ہے۔ رضا کیا ہے قرآن مجید میں اسے وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللَّهِ أَكْبَرُ ہر چیز سے بالاتر قرار دیا گیا ہے جنت و دیگر نعمات رضا کا ادنی سا مظھر و نمونہ ہیں خدا کی عظمت رضوان کی وجہ سے ہے سب سے بڑی چیز اللہ کا راضی ہونا ہے یعنی انسان ایسا کام کرے کہ خدا کی رضا اسے حاصل ہوجائے۔

انہوں نے مزید کہاکہ قرآن مجید میں چار مقام پر رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ استعمال ہوا ہے تمام مومنین کے لئے پس یہ صحابہ کی ملکیت نہیں ہے کہ ان کے بعد اب کوئی بھی رضی اللہ نہیں بن سکتا بلکہ قرآن کا معیار کچھ اور ہے یعنی کچھ لوگ ایسے ہیں کہ اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی ہیں تو اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ رضا کیسے حاصل ہوگی۔

۱)قرآن مجید میں سورہ بینہ کی آیت نمبر ۷ میں ہے إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَٰئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ کہ جو لوگ ایمان لائے اور اعمال صالحہ انجام دیئے تو وہ لوگوں میں سب سے بہتر ہیں سب سے اچھے لوگ یہی ہیں اس کے بعد ان کی جزاء کوبیان کیا گیا ہے جَزَاؤُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۖ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ پروردگار کے یہاں ان کی جزاء وہ باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی وہ انہی میں ہمیشہ رہنے والے ہیں خدا ان سے راضی ہے اور وہ اس سے راضی ہیں پس جو ایمان لائے اور عمل صالح انجام دے تو خدا اس سے راضی ہوگا پھر آخر میں راضی ہونے کی علت بھی بیان فرمائی ذَٰلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّهُ اور یہ سب اس کے لئے ہے جس کے دل میں خوفِ خدا ہے بعض لوگ فقط ایمان لانے کو کافی سمجھتے ہیں اور عمل صالح انجام نہیں دیتے تو خدا ان سے راضی نہیں ہے۔ مولا علی علیہ السلام شب ہجرت ایمان بھی رکھتے تھے اور ساتھ ساتھ عمل صالح بھی انجام دیا اس رات بستر رسول پر سونا عمل صالح تھا نہ کہ قیام اللیل تو خدا کی رضا کو حاصل کرلیا۔ پس جتنی بھی عبادات ہیں سب عمل صالح شمار ہوتے ہیں لیکن ہر ایک کا مقام و محل ہے ایک کو چھوڑ کر دوسرے کو انجام دینا درست نہیں ہے یعنی نماز پڑھ لی تو روزہ نہیں رکھا تو کافی نہیں ہے بلکہ آیت مذکورہ میں ”الصالحات“ کا لفظ استعمال ہوا ہے کہ جس پر الف لام عموم کا فائدہ دے رہی ہے کہ تمام اعمال کو ان کے اوقات میں انجام دینا لازم ہے اسی طرح سورہ عصر میں بھی یہی کلمہ استعمال ہوا ہے وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ پس اس آیت میں ہے کہ جو بھی ایمان لائے اور عمل صالح انجام دے تو اس کو خیر البریہ کا لقب ملے گا اور دوسرا جنت عدن بھی ملے گا اور تیسرا خدا کی رضا سے ہمکنار ہوگا کہ جو ہر چیز سے بالاتر ہے اور حدیث کے مطابق ایسا انسان اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ کن فیکون کا مالک بن جاتا ہے پھر جو چاہتا ہے وہ ہوجاتا ہے۔

۲) دوسرا مورد سورہ مجادلہ کی آیت نمبر ۲۲ ہے لَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ ۚ أُولَٰئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْايمَانَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ ۖ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ۚ أُولَٰئِكَ حِزْبُ اللَّهِ ۚ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
آپ کبھی نہ دیکھیں گے کہ جو قوم اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھنے والی ہے وہ ان لوگوں سے دوستی کررہی ہے جو اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی کرنے والے ہیں چاہے وہ ان کے باپ دادا یا اولاد یا برادران یا عشیرہ اور قبیلہ والے ہی کیوں نہ ہوں اللہ نے صاحبانِ ایمان کے دلوں میں ایمان لکھ دیا ہے اور ان کی اپنی خاص روح کے ذریعہ تائید کی ہے اور وہ انہیں ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور وہ ان ہی میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے۔ خدا ان سے راضی ہوگا اور وہ خدا سے راضی ہوں گے یہی لوگ اللہ کا گروہ ہیں اور آگاہ ہوجاؤ کہ اللہ کا گروہ ہی نجات پانے والا ہے دین کی سیاست یہ نہیں کہ خدا کو بھی راضی کیا اور شیطان کو ناراض بھی ہونے دیا جائے
اس آیت میں یہ بیان کیا جارہا ہے کہ دشمنان خدا و رسول سے دشمنی کرنے پر خدا کی رضانصیب ہوگی۔

۳) تیسرا مورد سورہ توبہ کی آیت نمبر ۱۰۰ ہے وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ اور مہاجرین و انصار میں سے سبقت کرنے والے اور جن لوگوں نے نیکی میں ان کا اتباع کیا ہے ان سب سے خدا راضی ہوگیا ہے اور یہ سب خدا سے راضی ہیں اور خدا نے ان کے لئے وہ باغات مہیا کئے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اور یہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے

اس آیت میں تین گروہ کا تذکرہ ہے کہ جن سے خدا راضی ہے
مہاجرین سابقین
انصارین سابقین
اور وہ لوگ جو ان کے تابع ہیں۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=44215