5

پیغمبر اسلام نے دین اسلام کی مختصر عرصہ میں تبلیغ کی اور اسے عروج پر پہنچا دیا، مولانا اسماعیل

  • News cod : 44218
  • 18 فوریه 2023 - 18:51
پیغمبر اسلام نے دین اسلام کی مختصر عرصہ میں تبلیغ کی اور اسے عروج پر پہنچا دیا، مولانا اسماعیل
انہوں نے کہا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دین کی مختصر عرصہ میں تبلیغ کی اور اسے عروج پر پہنچا دیا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس معاشرے میں قدم رکھا تو وہاں بت پرستی جاہلیت اور گمراہی تھی لیکن رسول نے بت پرستی سے توحید اور جاہلیت سے علم اور گمراہی سے ہدایت کی طرف لے آئے۔

وفاق ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، مدرسہ امام المنتظر قم میں 25 رجب کو امام موسی کاظم علیہ السلام کی شہادت کے حوالے مجلس عزا کا اہتما کیا گیا جس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا اسماعیل نے کہا سورہ لیل میں ارشادخداوندی ہے کہ(إِنَّ عَلَيْنَا لَلْهُدَىٰ وَإِنَّ لَنَا لَلْآخِرَةَ وَالْأُولَىٰ) ہدایت بھی ہماری ذمہ داری ہے اور دنیا و آخرت کے بھی ہم مالک ہیں یعنی ہمارے قبضہ قدرت میں ہیں۔

انہوں نے کہاکہ خالق نے انبیاء ، رسول ، شریعت ، صحیفے اور کتابیں نازل کیں سب کا مقصد ایک تھا کہ انسان کو راہ راست پر لایا جائے حضرت آدم علیہ السلام جنت سے زمین پر آئے، حضرت نوح علیہ السلام طوفان میں مبتلا ہوئے، حضرت موسی علیہ السلام کو دریائے نیل میں جانا پڑا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکہ میں لہولہان کیا گیا یہ سب خدا کو منظور ہے لیکن خدا کو یہ منظور نہیں ہے کہ میرا بندہ بغیر ہادی کے ہو اس لئے ہر دور میں ایک نمائندہ بھیجا اور اس دور کے حساب سے سب کو صلاحتیں بھی عطا کیں رسول خاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب آئے تو اپنے ساتھ دین اسلام لے کر آئے کہ جس کا تعارف قرآن میں یوں ہے إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ پھر فرمایا وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ اور جو اسلام کے علاوہ کوئی بھی دین تلاش کرے گا تو وہ دین اس سے قبول نہ کیا جائے گا اور وہ قیامت کے دن خسارہ والوں میں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دین کی مختصر عرصہ میں تبلیغ کی اور اسے عروج پر پہنچا دیا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس معاشرے میں قدم رکھا تو وہاں بت پرستی جاہلیت اور گمراہی تھی لیکن رسول نے بت پرستی سے توحید اور جاہلیت سے علم اور گمراہی سے ہدایت کی طر ف لے آئے

انہوں نے مزید کہا کہ سلسلہ نبوت ختم ہوا تو اب ضرورت تھی ایک نظام کی جو اس قانون کی حفاظت کرے تو نظام ولایت کا سلسلہ شروع ہوا کہ جس میں اول مولا علی علیہ السلام ہیں کہ جس کا تعارف اس طرح کروایا کہ جس نے انبیاء کا جمال و کمال دیکھنا ہو وہ علی علیہ السلام کو دیکھ لے اور اس سلسلے کی آخری کڑی امام زمانہ(عج) ہیں کہ جن کا تعارف اس طرح کروایا یملا بہ الارض عدلا و وقسطا کما ملئت ظلما و جورا کہ وہ زمین کو اس طرح عدل وانصاف سے بھر دیں گے کہ جس طرح ظلم وجور سے بھری ہوگی

خطیب مجلس نے کہا کہ امام موسی کاظم علیہ السلام اس سلسلہ امامت کی ساتویں کڑی ہیں امام علیہ السلام کے اندر علم و تقوی ،زہد و عبادت اس قدر موجود تھی کہ کوئی دوسرا ان صفات میں امام کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا اسی طرح امام کی سخاوت زبان زد عام تھی جو بھی امام کے دروازے پر آجاتا تھا اسے پھر دوسرے دوزاے پر جانے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔

انہوں نے کہا کہ معروف خطیب محمد تقی فلسفی اپنی ایک تقریر میں پل صراط کی باریکی کے حوالے سے ذکر کرتے ہیں کہ اس سے مراد دین کی باریکی ہے جیسا کہ امام علیہ السلام کا ایک صحابی تھا صفوان جمال کہ جو اونٹ کرایہ پر دیتا تھا تو ایک دن اس نے ہارون خلیفہ وقت کو اپنے اونٹ کرایہ پر دیئے تو امام کو خبر ہوئی تو اس سے پوچھا کہ کیا تجھے یہ پسند ہے کہ ہارون صحیح سلامت واپس آئے اور تجھے تیرے اونٹوں کا کرایہ دے تو اس نے عرض کیا جی ایسے ہی ہے تو فرمایا کہ اگر کوئی کسی ظالم کی زندگی کےبارے میں اتنا بھی سوچے تو وہ بھی اس کے ظلم میں برابر کا شریک ہے پس یہ صحابی امام کی خدمت میں رہتا تھا لیکن دین کی باریکیوں سے بے خبر تھا تو ہمارا کیا حال ہونا چاہیے مولا علی نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں وَ اللهِ! لَاَنْ اَبِیْتَ عَلٰی حَسَكِ السَّعْدَانِ مُسَهَّدًا، وَ اُجَرَّ فِی الْاَغْلَالِ مُصَفَّدًا، اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ اَنْ اَلْقَی اللهَ وَ رَسُوْلَهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ ظَالِمًا لِّبَعْضِ الْعِبَادِ، وَ غَاصِبًا لِّشَیْءٍ مِّنَ الْحُطَامِ خدا کی قسم! مجھے سعدان کے کانٹوں پر جاگتے ہوئے رات گزارنا اور طوق و زنجیر میں مقید ہو کر گھسیٹا جانا اس سے کہیں زیادہ پسند ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے اس حالت میں ملاقات کروں کہ میں نے کسی بندے پر ظلم کیا ہو، یامال دنیا میں سے کوئی چیز غصب کی ہو علامہ غلام مہدی کا واقعہ ہے کہ انہوں نے مدرسہ میں بھیسیں پالی ہوئی تھی تاکہ ان کا دودھ طالب علموں کے استعمال میں ہو تو ایک دن گھاس ختم ہوگئی تو ایک طالب علم نے کہا کہ کسی مومن کے گھر سے لے آتے ہیں تو کہا کہ فلاں مومن کے گھر سے لے آؤ کیونکہ وہ دینی امور میں کافی احتیاط کرتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ امام علیہ السلام کا ایک صحابی علی بن یقطین تھا کہ جسے مولا نے ہارون کا وزیر بننے کی اجازت دی لیکن ساتھ فرمایا کہ جو بھی شیعہ آئے تو اس کی مدد کرنا تو پھر وزیر بن سکتے ہو تو ایک دن ایک شخص کوفہ سے اس کے بعد آیا تو اس کے غلام نے کہا کہ فی الحال وقت نہیں ہے تو دوسرے دن جب یہی صحابی امام کی خدمت میں حاضر ہوا تو مولا نے ملنا گوارا نہیں کیا تو پوچھا تو فرمایا کہ کل تم سے کوئی مومن ملنے آیا تھا لیکن تم نے ٹائم نہیں دیا تو جاؤ پہلے اس کی مشکل کو حل کرو تو علی بن یقطین کوفہ گئے اور اس کی مشکل کو حل کیا اور اسے کہا کہ اپنا پاؤں میرے منہ پر رکھ دو تاکہ یہ نشانی کے طور پر مولا کو دیکھا سکوں تو جب واپس آئے تو مولا بڑے اہتمام سے ان سے ملے اور اپنے پاس بیٹھایا۔

امام علیہ السلام جب زندان میں تھے تو ہارون نے الزام تراشی کے لئے ایک فاحشہ عورت کو بھیجا لیکن کچھ دیر کے بعد جب دیکھا تو وہ عورت بھی سجدے میں ہے بس یہیں سے ہمیں اعجاز امامت سمجھ میں آتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو جب زلیخا نے اپنے چنگل میں پھنسایا تو حضرت یوسف علیہ السلام وہاں سے بھاک نکلنے میں کامیاب ہوگئے لیکن زلیخا کو راہ ہدایت کی طرف نہ لا سکے لیکن امام اسے کہتے ہیں کہ جو خود کو بھی بچائے اور دوسروں کو بھی راہ ہدایت پرلگائے۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=44218