مدرسہ باقر العلوم کوٹلہ جام ضلع بھکر
تحریر۔۔ندیم عباس شہانی
کوٹلہ جام جو کہ بھکر شہر سے شمال میں شہر سے 10کلو میٹر دور ۔ڈی ۔ائ خان روڈ پر دریائے سندھ کے کنارے ایک بڑا قصبہ ہے جہاں ایک قدیمی دینی مدرسہ بھی آباد ہے۔
حضرت علامہ حافظ سیف اللہ صاحب جعفری مرحوم رحمت اللہ علیہ نے بھکر میں دینی ادارہ بنانے کی تحریک پیش کی تو استاذ العلماء والفقہاء تقدس مآب علامہ سید محمد باقر شاہ صاحب نقوی الہندی نے اپنے شاگرد مولانا عبد الحسین خان آف نوانی کو حکم دیا کہ آپ کوٹلہ جام جائیں اور مدرسہ بنائیں کیونکہ کچھ افراد چاہتے تھے کی مدرسہ بھکر شہر میں ہو پنجگرائیں کے سادات میں سے سید اقبال حسین شاہ کی خواہش تھی کہ مدرسہ پنجگرائیں میں ہو مگر حضرت استذالعلماء کی نظر کیمیاء سرزمین کوٹلہ جام پر ٹھہری اور قبلہ صاحب کے شاگردوں میں اس مقدس کام کے لئے قرعہ فال مولانا عبد الحسین خان صاحب کے نام نکلا
کوٹلہ جام کے ایک زمیندار ملک نذر حسین کہاوڑ اور ایک بزرگ نے رقبہ وقف کر دیا اور مولانا عبد الحسین خان نے وسائل نہ ہونے کے باوجود تعمیر شروع کر دی خود اپنے ہاتھ سے گارا بناتے اور اپنے ہاتھ سے مقامی لوگوں کے تعاون سے خود ہی مٹی کی دیواریں بناتے تھے نہ کسی مستری سے مدد لی اور نہ مزدور سے جب تین چار کمرے تیار ہوگئے تو چھت اور دروازوں کے لئے لکڑی درکار تھی تو بندہ گلحیدر شاہ جھنجھ کے ایک زمیندار حاجی سید غلام باقر شاہ صاحب مرحوم نے لکڑی فراہم کی اور مولانا عبد الحسین خان خود اپنے ہاتھ سے اونٹ پر لاد کے لکڑیاں مدرسہ لے آتے تھے اور یوں مدرسہ کی عمارت مکمل کر لی گئ پھر صحن ہموار نہ تھا تو مولانا صاحب مقامی لوگوں کی مدد سے مٹی کی بھرائی کرتے تھے۔
جب مدرسہ مکمل ہو گیا تو 1957میں مفسر قرآن علامہ حسین بخش جاڑا صاحب قبلہ نے پہلا درس پڑھا کر مدرسہ کے تعلیمی سلسلہ کا آغاز کیا اور استاذ العلماء علامہ قبلہ سید محمد باقر رح نے بھکر میں واقع اپنی جائیداد سے سینکڑوں کنال رقبہ مدرسہ کے نام وقف کر دیا اور مدرسہ میں بھی تشریف لاتے اور کئ کئں دن گزارتے اور یہ پاکستان کے مدارس میں مدرسہ باقرالعلوم کوٹلہ جام کو اعزاز حاصل ہے کہ جو استاذالعماء کے حکم سے تعمیر ہوا اور استاذاالعلماء علامہ۔قبلہ سید محمد باقر شاہ صاحب نے مدرسہ کو اپنا ذاتی رقبہ وقف کیا جو کہ مدرسہ کی انفرادیت ہہے مولانا محمد پناہ مرحوم آف جھنگ اور مولانا عبد الحسین خان مرحوم اس مدرسہ کے پہلے مدرسین تھے پھر استاذالعماء قبلہ سید محمد باقر نے اپنے بہت پیارے شاگرد مولانا محمد رضا خان مرحوم آف نوانی کو مدرسہ بیں بطور مدرس بھیجا جو کچھ عرصہ پڑھاتے رہے۔
1962 میں تقدس مآب مولانا ملک ملازم حسین مرحوم آف خوشاب بطور پرنسپل تشریف لائے جو 1997 تک پرنسپل رہے سور مدرسہ کو تعلیم اور تقوی کے لحاظ سے اوج ثریا تک پہنچایا مدرسہ باقرالعلوم قیام پاکستان کے بعد تیسرا مدرسہ ہے جو تقسیم ملک کے بعد قائم ہوا۔
مدرسہ کی پرانی عمارت 2010میں ختم کر کے نوجودہ جدید عمارت بنائ گئ اس وقت بھکر اور ٹوبہ ٹیک سنگھ میں مدرسہ کی سینکڑوں کنال اراضی ہے اور کوٹلہ جام میں دو مکان جو حاجی محمد حسن نے وقف کئے ہی اور کچھ رقبہ بھی مدرسہ کو دے گئے ہیں جو مدرسہ کی ملکیت ہیں مدرسہ تقدس اور تعلیم۔میں پورے ملک میں مشہور تھا اللہ کرے پھر وہی رونقیں بحال ہو جائیں مدرسہ کا سالانہ جلسہ ابتدا ہی میں یعنی 1956 میں شروع ہو گیا تھا پہلے دو سال جلسہ مولانا عبد الحسین خان مرحوم کے گھر نوانی میں منعقد ہوا جو سب تک مارچ میں منعقد ہوتا ہے مدرسہ کے پہلے سربراہ استاذالعماء علامہ قبلہ محمد باقر صاحب تھے قبلہ کی وفات کے بعد استاذالعماء علامہ سید محمد یار شاہ صاحب قبلہ تھے اور اب آیتہ اللہ العظمی علامہ محمد حسین نجفی ڈھکو صاحب قبلہ سرپرست ہیں۔
حاجی الہی بخش ماچھی مدرسہ کے قدیمی خدمت گزار تھے اس اور انھوں نے مدرسہ کو کچھ رقبہ بھی دیا تھا انکی قبر بھی مدرسہ میں ہے اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے۔