4

رئیس مذہب جعفریہ امام صادق علیہ السلام بحیثیت مجاہد میدان علمی

  • News cod : 47313
  • 17 می 2023 - 14:13
رئیس مذہب جعفریہ امام صادق علیہ السلام بحیثیت مجاہد میدان علمی
امام صادق علیہ السلام میں بیان ہوئے کسی اور امام کو اسقدر موقع نہ مل سکا کیونکہ پابندیاں اسقدر زیادہ تھیں کہ لوگوں کے ساتھ رابطہ کرنا ہی ممکن نہ تھا

رئیس مذہب جعفریہ امام صادق علیہ السلام بحیثیت مجاہد میدان علمی
تحریر: محمد وسیم خان محمدی
کسی شخصیت کی معرفت اور پہچان کیلئے اس کے سب سےنمایاں اور ممتاز بُعد اور پہلو کو دیکھا جاتا ہے اور اسی کی بنیاد پر یہ قضاوت کی جاتی ہے کہ فلاں شخص کس قدر اہمیت کا حامل ہے اور اسےکس قدر منزلت مقام سے نوازا جانا چاہئے۔ عرف عام میں یہی روش رائج ہے کسی شخص کی شخصیت کو پہچاننے کیلئے، ہوسکتا ہے ایک شخص کسی ایک ہی بُعد سے محکم ہو اور اسی پہلو میں اپنا لوہا منواچکا ہو جسکی وجہ سے معاشرے میں اس نے عزت پائی ہےاور اپنی دھاک بٹھائی ہے۔ اور دوسری یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی شخص کئی ابعاد سے کام کرچکا ہو اور بہت سارے فنون میں متبحر ہو اور مہارت حاصل کی ہو کہ جسے پھر اصلاح میں نابغہ روزگار یا ((Genius کہا جائے گا۔گرچہ معاشرے میں ایسے افراد کا ہونا نہایت مشکل ہے اور اگر ہوں تو غنیمت سے کم نہیں لیکن تاریخ بشر کے اوراق پلٹنے کی ضرورت ہے اور دیکھا جاسکتا ہے کہ نوع انسانی میں کچھ ایسے افراد موجود تھے کہ جو فوق العادۃ صلاحیتوں کے حامل تھے لیکن یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بعض افراد اگر نابغہ بنتے ہیں یا ذوالفنون کہلاتے ہیں تو کسی سابق کی اتباع یا اسکے طریق علمی کا سالک اور راہی بن کر اس مقام تک پہنچتے ہیں لیکن بعض افراد تاریخ بشر میں ایسے گزرے ہیں کہ جنکو کسی کی اتباع کی ضرورت نہیں پڑی اور نہ ہی کبھی کوئی انکا معلم اور استاد کہلایا بلکہ یہ وہ افراد تھے کہ جنکے علم کا منبع علم الٰہی تھا ۔ ایسے افراد تھے کہ جو ایک ایسی لڑی میں پروئے تھے ،ایک ایسے سلسلۂ نور سے متصل تھے کہ جو خدا سے متصل ہے ۔پس انکا علم، الغرض ہر صفت اللہ سے متصل ہے یہ مظاہر صفات الہیہ ہیں یقینا معصومین علیہم السلام کے علاوہ ہمیں ایسا کوئی نظر نہیں آتا جو ان امتیازات کا حامل ہو۔انہی میں سے ایک حلقہ نور ،ذات گرامی حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام بھی ہیں کہ جو رئیس مذہب جعفریہ ہیں۔یقینا ایک ایسی ذات والا صفات کہ جنکی تعریف چند الفاظ کے ملاپ اور چند جملوں کے اتصال سے ممکن نہیں لیکن بشر کی محدودیت کا تقاضا ہےکہ ان بلند ہستیوں کو بھی انہیں الفاظ اور جملات کے وسیلے متعارف کروایا جائے اورنہ فقط عالم اسلام بلکہ عالم انسانیت کو انکی معرفت کروائی جائے اور انکو پہچنوایا جائے۔

امام صادق علیہ السلام کا مختصر تعارف:
امام صادق علیہ السلام کی ولادت باسعادت ۱۷ ربیع الاول ۸۳ ہجری قمری کو مدینہ میں ہوئی۔ امام محمد باقر علیہ السلام کی رحلت کے بعد آپ نے منصب امامت کو سنبھالا اور اس ذمہ داری کو ۳۴ سال نبھایا ۔اس دوران بہت سی صعوبتوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن ہمیشہ راہ خدا میں استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہدایت کے چراغ کی مانند رہے اور نور ہدایت سے لوگوں کو منور کرتے رہے۔ آپ کی شہادت ۲۵ شوال سن ۱۴۸ہجری قمری میں منصور کے حکم کے تحت ہوئی ۔
عصر امام صادق ؑ پر مختصر نگاہ:
خلقت انسان کے بعد پروردگار نے انسان کو اس بات میں اختیار دے دیا کہ یا تو حق کی راہ پر چلے یا پھر نافرمانی اور ناحق راہ کو اختیار کرے ’’ إِنَّا هَدَيۡنَٰهُ ٱلسَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرٗا وَإِمَّا كَفُورًا” “ہم نے انسان کی راستے کی جانب راہنمائی کردی ہے اب چاہے شاکر رہے یا کفران نعمت کرے‘‘ ۔جہاں تاریخ میں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ حق کے پیروکاروں نے پرچم حق و حقانیت کے تلے استقامت کو اپنا شیوہ بنایا اور اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کیا وہیں دوسری جانب یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ باطل بھی اپنے حذب کے ساتھ پوری قوت و توانائی کے ساتھ حق کے مقابل میں آیا ۔ اسی بات کی جانب دعائے ندبہ میں اشارہ کیا گیا ہے کہ امتوں کیلئے ہادی کے بعد ہادی بھیجا گیا انکے لئے منذر اور عذاب الٰہی سے ڈرانے والے بھیجے گئےلیکن انہوں نے اپنے ہادیوں کو قتل کردیا ان سے روگردانی اختیار کی انکے ساتھ قطع رحمی کی۔حق وباطل کی اس جنگ کو رسول خدا ﷺ کے دور سے بارہویں امام تک دیکھا جاسکتا ہے۔ امام صادق علیہ السلام کے دور میں بھی یہ مخالفت باقی رہے گرچہ سیاسی مقاصداور مفادات کو مدنظر رکھ کر ایک عرصے تک اس مخالفت میں کمی آئی لیکن مقاصد حصول اور حکومت کی پائیداری کے فورا بعد یہ مخالفت پھر سے سر عام شروع ہوئی ۔ امام علیہ السلام نے دو حکومتوں کے ادوار میں زندگی گزاری (اموی اور عباسی)۔ ۱۱۴ ہجری سے لیکر ۱۳۲ ہجری تک آپ نے اموی حکومت کے دور میں زندگی گزاری کہ جس میں ہشام بن عبدالملک ،ولید دوم،یزید سوم،ابراہیم بن ولید،اور مروان دوم جیسے حکمران شامل ہیں۔ہشام بن عبدالملک کی حکومت ہی کے آواخر بنی امیہ کے تزلزل اور زوال کی شروعات تھے کہ جس میں بہت سارے قیام ہوئے جس میں زید بن علی،عبداللہ بن محمد باقر،یحیی بن زید،اور عبداللہ بن اعرج بن حسین کے قیام شامل ہیں یہی وہ دور تھا کہ جب بنی عباس کو موقع ملا کہ وہ بنی امیہ کے خلاف صف آرائی کریں اور اہلبیت کےطرفداروں کےسہارے اپنی حکومت کا قیام عمل میں لائیں۔سن ۱۳۲ ہجری میں بنی امیہ کی حکومت ختم ہوتی ہے اور بنی عباس کی ظالمانہ حکومت کا آغاز شروعات میں نہایت نیک نیت کے تظاہر اور دکھاوے کے ساتھ ہوتا ہے لیکن بعد میں انکے اصلی مقاصد اور اہداف ایاں ہوجاتے ہیں۔بنی عباس اس نعرے کے ساتھ کہ ہم حکومت کو اہلبیتؑ کو پلٹائیں گے ، اپنی کوششیں شروع کرتے ہیں اور اس نہضت میں بہت سے سادہ لوح شیعہ انکا ساتھ دیتے ہیں۔منصور دوانیقی جو کہ نہایت ظالم حاکم تھا امام صادق علیہ السلام کے دور میں حکومت کی نشست پر براجمان تھا ۔اور مسلسل امام صادق علیہ کو تحت نظر رکھا او ر انکے تمام امور پر کڑی نگرانی رکھتا رہا اور اسی دور میں امام علیہ السلام کو شہید کیا گیا ۔
امام صادق علیہ السلام میدان علمی کے مجاہد:
عموما یہ سوال کیا جاتاہے کہ کیوں امام صادق علیہ السلام نے اپنے اجداد کی مانند جنگ و جہاد کا راستہ نہیں اپنایا ؟
گرچہ یہ ایک تفصیلی بحث ہے لیکن اسکا اجمالی جواب بیان کیا جاسکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ امام صادق علیہ کی اسٹریٹیجی (Strategy) مقتضائے حال کے مطابق تھی ۔نہ صرف امام صادق علیہ السلام بلکہ ہر امام حالات کے مطابق اقدام کرتا ہے تاکہ مسلمانوں کو مطلوبہ مصالح و مقاصد پہنچائے جاسکے۔ جیسا کہ ذکر ہوچکا کہ امام محمد باقر علیہ السلام کے دور کے اواخر اور امام صادق علیہ السلام کی امامت کے اوئل میں اموی اور عباسی ایک دوسرے کے ساتھ حکومت کی جنگ میں مشغول تھے ۔ اور یہ ایک بہترین موقع تھا کہ جب حکومت طلب قوتیں آپس میں مصروف ہیں تو کئی سالوں سے عائد پابندیوں کا جبران کیا جائے۔ امام صادق علیہ السلام نے اپنے دور میں اپنی حکمت عملی کے تحت ایک مثلث کو محور بنا کر کام کیا ۔گرچہ ہم دیگر نکات بھی ذکر کریں گے لیکن جو بنیادی ترین نکات ہیں وہ یہی ہیں۔
۱۔امامت ۲۔ امت ۳۔علم
سب سے پہلے تو امام علیہ السلام نے اس بات کو مرکزی نقطہ قرار دیا کہ لوگوں کو امامت سے متصل کیا جائے کیونکہ کربلا کے بعد خطبات جناب سیدہ زینب سلام اللہ علیہا اور جناب سید الساجدین علیہ السلام نے یزیدیت کی بنیادوں کو ہلا ڈالا تھا اور بنی امیہ کی زوال وہیں سے شروع ہوچکی تھی یہی بات باعث بنی کہ یزید نے جتنا جلدی ہوسکا اسیروں کو رہا کردیا کیونکہ وہ حاکم ہوکر بھی حکمرانی نہیں کر پارہا تھا لیکن خدائے سخن علی بن ابی طالب علیہ السلام کی اولاد کے خطبات نے دلوں پر راج کرنا شروع کردیا تھا۔ یہی وجہ بنی کہ بنی امیہ نے اہلبیت علیہم السلام کے ساتھ لوگوں کے رابطے کو منقظع کردیا اور امام سجاد علیہ السلام کو نظر بند کردیا ۔ نظر بند کرنے اور ان کڑی نگرانیوں کی وجہ سے ایک خلاء ایجاد ہوئی کہ عوام کا امامت کے ساتھ رابطہ کمزور پڑگیا سوائے چند اصحاب خاص کے جو مسلسل اتصال کی کوشش کرتے رہتے۔یہ دوری باعث بنی کہ لوگ امامت کے مقام ومنزلت سے ناآشنا ہوجائیں ،جو کہ دشمن کا ہدف اصلی تھا ۔امام صادق علیہ السلام نے اپنے دور میں حکمرانوں کی جنگ کو ایک سنہری موقع پایا اور اپنی ذمہ داری انجام دینے لگے اور سب سے پہلا کام یہ کیا کہ جو دانشگاہ تاسیس کی تھی اس میں علوم کے ترویج کے ساتھ ساتھ امامت کی منزلت اور امام کے مقام سے بھی لوگوں کو آشنا کرنا شروع کیا۔ اور اسی کے ضمن امام علیہ السلام نے امام علی علیہ السلام کے اوپر ہونے والے سب و شتم کی بھی روک تھام کی کیونکہ اب لوگوں کو امام کی عظمت اور مقام معلوم ہوگیا تھا جس کی وجہ سے وہ اس عمل سے دوری اختیار کرگئے۔
دوسری نکتہ امت ،یعنی امت سازی ۔ امام صادق علیہ السلام نے اس دور میں فقہ کو رائج کیا یہی وجہ ہے کہ جتنے مسائل امام صادق علیہ السلام میں بیان ہوئے کسی اور امام کو اسقدر موقع نہ مل سکا کیونکہ پابندیاں اسقدر زیادہ تھیں کہ لوگوں کے ساتھ رابطہ کرنا ہی ممکن نہ تھا۔ اور یہی وجہ ہے کہ امام صادق علیہ السلام کو رئیس فقہ جعفریہ کہا جاتا ہے۔روایات میں ملتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام اصحاب کے مجمعے میں تشریف فرما تھے تو آپ ؑ نے ایک طشت اور ساتھ میں پانی منگوایا اور اسکے بعد وضو کیا، وضو کرنے کے بعد فرمایا’’ ھکذا وضوء رسول اللہ‘‘’’ رسول اللہ ﷺ کا وضو اسطرح سے ہوا کرتا تھا‘‘۔ اس عمل سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ امام ؑ کس انداز میں امت کی تربیت کررہے ہیں چونکہ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب فقہی اور کلامی اشکالات کی ایک شورش بپا تھی ۔ ایک جانب سے دہری اور دیگر افکار کے افراد کے اشکال کہ جو اس وقت کے مسلمانوں (کہ جو اپنے ائمہؑ سے کئی عرصے تک دور رہے ) کے عقائد کو شدید نقصان پہنچا رہے تھے اور دوسری جانب مسلمانوں کی عدم آمادگی ، تو ایسے حالات میں ضرورت پیش آئی کہ امام ؑ کے پاس جس حد تک موقع ہے اسکا استفادہ کرے اور امت کی تربیت کرے۔
تیسرا نکتہ اور اساسی نکتہ علم کا ہے کیونکہ فرمایا گیا کہ ’’ العلم سلطان‘‘ ’’علم بادشاہ و سلطان ہے‘‘۔ امام علیہ السلام نے بجائے اسکے کہ ایک مسلحانہ نہضت اور تحریک شروع کریں ، علم کو اپنا اسلحہ قرار دیا ۔کیونکہ امام ؑ اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ علم ہی ہے کہ جسکی حکومت دیرپا ہے اور دوسری جانب امام اس بات سے بھی واقف تھے کہ اگر وہ قیام کرے تو کم ہی افراد ہونگے جو انکا ساتھ دینگے اور بجائے اسکے کہ ایک حکومت اسلامی اور علوی اصولوں پر استوار حکومت قائم ہوسکے ،مسلمانوں کا خون بے سود بہایا جائے گا۔ اور جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ امامؑ کا دور ایسا دور تھا کہ جس میں اشکالات بہت زیادہ تھے ۔تو امام نے اسی حالت کے تقاضے کو پورا کرتے ہوئے ایسے افراد تربیت کئے ایسے شاگردوں کی پرورش کی کہ جو اگر دشمن پر تلوار چلاتے تو شاید اتنا نقصان نہ پہنچا پاتے، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ انہیں افراد نے جب مخزن علم سے کسب شدہ علم کے ہتھیار کو استعمال کیا ہے تو انکا یہ وار ریشہ کن رہا ہے۔ اور یہ بات مسلم ہے کہ ہر امام نے اپنے دور کے مالک اشتر اور عمار کی پرورش کی ہے،اگر کوئی شمشیر کے وار میں ماہر تھا تو کوئی ایسا بھی تھا کہ اپنی ظرافت اور علم سے دشمن کا قلع قمع کردیا کرتا تھا۔ جب ضرورت پیش آئی کہ فقہی اشکالات کا جواب دیا جائے تو ضرارہ بن اعین جیسی ہستی کی پرورش کی ،اور جب کسی نے وحدانیت خدا کی جانب ،منصب نبوت و امامت کی جانب انگشت درازی کرنا چاہی تو ہشام بن حکم جیسا مناظر پیش کردیا۔
پس گرچہ ہم نے اس مثلث کو تین اضلاع (امامت،امت،علم) میں پیش کیا لیکن امام علیہ السلام نے علم کو ہی معیار قرار دیا ۔ اور اس دور میں ۴ ہزار جمع غفیر بطور شاگر اپنے گرد جمع کیا کہ جو مختلف کے ماہر نکلے ۔کوئی فقہ میں مہارت حاصل کر گیا تو کوئی کلام میں اور کسی نے سائینسی علوم میں اپنی علمی پیاس بجھائی اور جابر بن حیان جیسا بابائے کیمیا بن کر ابھرا اور آسمان جہان کیمیا میں سورج کی مانند چمکا۔ہوسکتا ہے کہ کسی کے ذہن میں یہ سوال آئے کہ ائمہ علیہم السلام فقط فقہ ہی کو بیان کرتے تھے تو اسکے لئے ارض و سماء کی خلقت کے حوالے سے وارد شدہ احادیث کی جانب مراجعہ کیا جاسکتا ہے کہ کسطرح ان میں فزکس کے قوانین کو بیان کیا گیا ہےگرچہ انکی تفسیر کی ضرورت ہے۔
ان تین نکات کے علاوہ امام علیہ السلام کے دور میں جو نمایاں اقدامات ہیں ان میں سے ایک قرآن و حدیث کا احیاء بھی ہے کیونکہ نقل حدیث اور اسکی کتابت کے حوالے سے جو پابندیاں عائد ہوئی تھیں حدیث کے حوالے سےملت اسلامیہ کو ایک بڑا نقصان پہنچایا گیا ہے ۔ امام صادق علیہ السلام نے اپنے دور میں حدیث کے حوالے سے کام کیا کہ حتی فرماتے ہیں ۳۰ ہزار یا اس سے زیادہ احادیث امام صادق علیہ السلام سے نقل ہوئی ہیں۔
امام صادق علیہ السلام کا علمی مقام :
کہا جاتا ہے کہ اشیاء کو انکی ضد سے پہچانا جاتا ہے ،یعنی نوع انسانی میں اگر اس قاعدے کو جاری کیا جائے تو یہ کہیں گے کہ انسان کی پہچان اسکے دشمن ،مدمقابل،حریف یا کم سے کم فکر و نظر سے مخالفت رکھنے والی سے کی جاتی ہے۔ علم کے باب میں جس ہستی کے جد امجد باب علم ہوں اور وہ یہ دعوی کرے کہ مجھ سے پوچھو اس سے قبل کہ تم مجھے کھو دو یقینا ایسی ہی ہستی کے فرزند کو زیب دیتا ہے کہ وہ حضرت امیر ؑ کے ان جملوں کو دہرائے اور سلونی کا دعویٰ کرے۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں ’’ سَلُونِی قَبْلَ اَنْ تَفْقِدُونِی فَإِنِّهُ لایُحَدِّثُکُمْ اَحَدٌ بَعْدِی بِمِثْلِ حَدِیِثی’’ ’’یعنی پوچھو مجھ سے اس سے قبل کہ تم مجھے کھو دو ،کیونکہ میرے بعد کوئی نہیں ہے کہ جو تمہارے لئے میری طرح حدیث بیان کرے‘‘۔تشیع میں تو امام صادق علیہ السلام کے علمی مقام و منزلت پر کوئی شک نہیں ہے اور ہر ایک اس کا قائل ہے لیکن آیا اہلسنت نے بھی امام علیہ السلام کی اس علمی عظمت و مقام کا اعتراف کیا ہے یا نہیں تو اس کو مد نظر رکھتے ہوئے چند موارد کو اپنے قارئین کرام کیلئے پیش کرنا چاہتے ہیں۔
جاحظ جو تیسری صدی میں اہلسنت کے مشہور عالم گزرے ہیں کہتے ہیں کہ:
جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الَّذِی مَلأَ الدُّنْیا عِلْمُهُ وَ فِقْهُهُ
جعفر بن محمد ؑ وہ شخصیت ہے کہ جن کے علم اور فقہ نے پوری دنیا کو پُر کردیا ہے۔
اسی طرح ابن حجر ھیثمی فرماتے ہیں کہ:
نَقَلَ النّاسُ عَنْهُ مِنَ الْعُلُومِ ما سارَتْ بِهِ الرُّکْبانُ و انْتَشَرَ صِیْتُهُ فِی جَمِیعِ الْبُلْدانِ
لوگوں نے ان سے اسقدرعلوم کو نقل کیا کہ سارے عالم میں منتشر ہوگئے اور انکی شہرت پوری دنیا پر چھا گئی۔
اور اس سے بڑی بات کیا ہوسکتی ہے کہ جس شخص کو مسلمانوں کا ایک بڑا گروہ اپنا امام مانے اور وہی شخص امام صادق علیہ السلام کی عظمت کو اسطرح بیان کرے کہ ’’ لَوْلاَ السَّنَتان لَهَلَکَ النُّعمانُ’’ ’’ اگر وہ دوسال نہ ہوتے تو نعمان ہلاک ہوجاتا‘‘ یعنی دو سال جو امام ؑ کا شاگرد رہا ہوں وہیں میری بقاء کا باعث ہے۔
یہ اقوال حضرت امام صادق علیہ السلام کی فضیلت کو بڑھا نہیں سکتیں لیکن مقصود یہ ہے کہ ناآشنا لوگوں کو ان ہستیوں سے روشناس کرایا جائے کیونکہ جنکو اللہ عظمت دے انکو لوگوں کی تعریفوں کی احتیاج و ضرورت باقی نہیں رہتی ۔ المختصر اگر حضرت امام صادق علیہ السلام کی شخصیت کے بارے میں پوچھا جائے ، انکی صفات و کمالات کے بارے میں پوچھا جائے تو اسی شعر کے ذریعے سے جواب دیا جائے کہ ’’ یا سائلی عنه لما جئت تسئله الا هو الرجل العاری من العار لو جئته لرأیت الناس فی رجل و الدهر فی ساعة و الارض فی دار’’ ’’ اے پوچھنے والے کہ جو انکے بارے میں مجھ سے سوال کررہا ہے ،جان لو کہ وہ ایسی شخصیت ہے کہ جو ہر قسم کے نقص و عیب سے مبرا ہے ۔اگر اسے دیکھ لو تو دیکھو گے کہ تمام افراد کا وجود اس ایک فرد میں جمع ہے ،اور تمام زمانے ایک لمحے میں جمع ہیں، اور زمین اپنے پورے وجود کے ساتھ ایک گھر میں سمایا ہے‘‘۔ یقینا صفات حسنہ کو گنتے رہیں اور امام صادق علیہ السلام کے ساتھ متصل کرتے رہیں معلوم یہ ہوگا کہ ہر صفت حسنہ امام علیہ السلام کیلئے بنی ہے۔
دعا گو ہیں کہ پروردگار ہمیں حقیقی معنوں میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا پیروکار قرار دے۔ آمین۔
والسلام مع الاکرام

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=47313