30

عروسِ لالہ! مناسب نہیں ہے، مجھ سے حجاب

  • News cod : 5147
  • 09 دسامبر 2020 - 11:23
عروسِ لالہ! مناسب نہیں ہے، مجھ سے حجاب
حوزہ ٹائمز | کیا اس سے بڑا خسارہ ہو سکتا ہے؟؟! کہ جو انسان اس کائنات کے چہرے کی زیبائی ہے، اور جس کا وجود سارے جہان کو حسن عطا کرتا ہے، وہ جمالِ مطلق کو چھوڑ کر دنیا کے زندان میں قیدی ہو جائے، اور فانی لذتوں کا اسیر بنے،

حکیم الامت کے محضر میں

عروسِ لالہ! مناسب نہیں ہے، مجھ سے حجاب
کہ میں نسیمِ سحر کے سوا —- کچھ اور نہیں

لالہ : گلِ لالہ یا لالہ (Tulip)، ایک سدا بہار پھول دار پودا ہے، ان کی سو کے قریب انواع ہیں، علامہ صاحب نے اس پھول کا تذکرہ اپنے کلام میں متعدد بار کیا ہے،

عروس: عربی زبان میں دلہن کو کہتے ہیں، عروسِ لالہ یعنی پھولوں کی دلہن۔

جیسے کسی بھی گھر کی خوبصورتی کا اہم عنصر، وہاں کا باغیچہ ہوا کرتا ہے، اور خود باغیچے اور گلشن کی زیبائی اور رعنائی، اس میں موجود رنگ برنگے پھولوں سے ہوتی ہے، بالکل ویسے ہی، اس وسیع و عریض کائنات کا حسن وجمال، اور کون و مکان کی محفل کی سجاوٹ، اور اس کی زیبائش اور آرائش کا سہرا، اس کائنات کی سب سے خوبصورت اور بے مثل و مثال مخلوق انسان کے سر پہ سجا ہے، انسان دستِ قدرت کا وہ شاہکار ہے، جس کی خلقت پر خود قدرت ناز کرتی ہے، لہذا یہ کہنا بیجا نہ ہوگا، کہ اس جہانِ رنگ و بو میں جہاں ہر ایک مخلوق میں جا بجا قدرت نے اپنی معجز نما تخلیق کے حسین رنگ بھرے ہیں، وہاں وہ تمام تر رنگ بدرجہ اتم وجودِ انسان میں پنہاں ہیں۔

حضرت یوسف (علیہ السلام) کا حُسن و جمال کسی سے مخفی نہیں، آپ کی بے پناہ خوبصورتی کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے، کہ کتابِ حکیم کے مطابق جب مصر کی عورتوں کی نگاہ آپ پر پڑی، تو انہوں نے پھل کاٹنے کے بجائے اپنے ہاتھ کاٹ دیے، البتہ یہ بات ذہن نشین رہے، کہ تاریخِ بشریت میں یہ بے مثال حُسن صرف حضرت یوسف کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ ہر انسان بے انتہاء خوبصورت، زیبا اور حسین ہے، کیونکہ ہر انسان دستِ قدرت کی تخلیق ہے، فرق صرف یہ ہے، کہ حضرت یوسف کا حُسن ایک خاص مصلحت کی وجہ سے ظاہری طور پر سامنے آیا، جبکہ وہی خوبصورتی باقی انسانوں کے باطن میں پوشیدہ ہے، جو اگلے جہان میں بے حجاب ہوگی، اور اُس خوبصورتی کو دیکھ کر حورانِ جنت بھی انگشت بدنداں ہونگی۔

خلیفة الله کی اسی باطنی خوبصورتی کو بیان کرتے ہوئے علامہ صاحب گلِ لالہ کے ذریعے فطرت سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں، کہ اے پھولوں کی دلہن! فطرت کو جا کر یہ پیغام سنانا، کہ وہ انسان سے اپنی خوبصورتی اور زیبائی نہ چھپائے، کیونکہ اس کائنات کا حسن و جمال انسان کے وجود سے، رعنا تر اور زیبا تر ہے، کیونکہ اگر اس کائنات کو مثلا گلِ لالہ سے تشبیہ دی جائے، تو انسان کی مثال اُس نسیمِ سحر کی مانند ہے، جو گلِ لالہ اور چمن کے باقی پھولوں کو ترو تازگی بخشتی ہے، اور اس کی مہک سے فضا کو معطر کرتی ہے، لہذا اگر کوئی چیز اس کائنات کے حسن و جمال میں اضافہ کرتی ہے، اس کی مزید جاذبیت، دلآویزی اور سحر آفرینی کا باعث بنتی ہے، اور کائنات کے چہرے کو تر و تازہ رکھتی ہے، تو وہ انسان ہے، اور کوئی نہیں۔

اب سوال یہ ہے، کہ کیا اس سے بڑا خسارہ ہو سکتا ہے؟؟! کہ جو انسان اس کائنات کے چہرے کی زیبائی ہے، اور جس کا وجود سارے جہان کو حسن عطا کرتا ہے، وہ جمالِ مطلق کو چھوڑ کر دنیا کے زندان میں قیدی ہو جائے، اور فانی لذتوں کا اسیر بنے، اور زائل ہونے والی خوبصورتی کے دام میں پھنس جائے، یہی وہ مقام ہے جسے قرآن نے خسر الدنیا و الآخرة سے تعبیر کیا ہے۔

تحریر: محمد اشفاق

 

نوٹ: حوزہ ٹائمز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ ٹائمز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=5147