9

اسی خطا سے عتابِ ملوک ہے مجھ پر

  • News cod : 6011
  • 21 دسامبر 2020 - 11:44
اسی خطا سے عتابِ ملوک ہے مجھ پر
حوزہ ٹائمز | جس عبرت ناک انجام سے قارون دوچار ہوا، یہی انجام تقریبا سارے ظالموں، مستکبروں، جابروں اور مال و دولت کے نشے میں غرق افراد کا ہوا

حکیم الامت کے محضر میں
اسی خطا سے عتابِ ملوک ہے مجھ پر
کہ جانتا ہوں —- مآلِ سکندری کیا ہے

عتابِ ملوک: بادشاہوں کی سرزنش اور ملامت،

مآلِ سکندری: بادشاہت اور بادشاہوں کا انجام۔

کتابِ حکیم نے متعدد مقامات پر عجب شان سے جناب موسی (علیہ السلام) کی مبارزت کا تذکرہ کیا ہے، آپ کا مقابلہ اس زمانے میں معاشرے کی تین بڑی طاقتوں سے ہوا،

1- فرعون جو کہ طاقت، سرکشی اور غرور وتکبر کا مظہر تھا،

2- سامری جو کہ منفاقت، مکر و فریب، جھوٹ اور دھوکہ دہی کا سرچشمہ تھا،

3 – قارون جو کہ دنیاوی مال و دولت، اور ثروت میں یکتا اور لاثانی تھا، مبارزت کے ان تینوں میدانوں میں کلیم اللہ نے، انتہائی حکمت و تدبر، مستحکم منصوبہ بندی اور شجاعت کے ساتھ مقابلہ کیا، اور اللہ نے آپ کو ان تینوں میدانوں میں کامیابی اور کامرانی سے سرفراز کیا، ان تینوں قسم کی مبارزت میں صاحبانِ عقل و فہم، اور ایمان والوں کے لئے متعدد عبرتیں اور نشانیاں ہیں۔

قارون کا قصہ اور انجام واقعاً ایک عبرت ناک اور درس و وعظ سے بھرا ہوا، انسانی ضمیر کو جھنجھوڑنے والا قصہ ہے، یہ جنابِ موسی (علیہ السلام) کا رشتہ دار تھا، اور بعض تفسیروں کے مطابق یہ آپ کے چچا کا بیٹا تھا، جبکہ بعض اور کے نزدیک خالہ زاد بھائی تھا، یہ تورات کا عالم تھا، اور فرعون کے خلاف کلیم اللہ کی تحریک کی ابتداء میں حضرت موسی اور مومنین کے ساتھ تھا، لیکن درھم و دینار کی چکا چوند اس کا ایمان لے اڑی، دولت کے غرور و تکبر نے اسے فرعون کا ہم رکاب بنا کر زمانے کے نبی اور حجتِ خدا کا دشمن بنادیا، لیکن دولت کی کثرت، درہم و دینار کی چمک دمک اور دنیاوی طاقت، اسے ایک ایسے انجام سے دوچار کر گئی، کہ رہتی دنیا تک یہ بد بخت نشانِ عبرت بن کر رہ گیا۔

اسی واقعہ کو بیان کرتے ہوئے کتابِ حکیم کی آواز آئی:

{ پھر ہم نے اسے اور اس کے گھر بار کو زمین میں دھنسا دیا، اور خدا کے علاوہ نہ کوئی گروہ اسے بچانے والا تھا، اور نہ ہی وہ بچنے والوں میں سے تھا۔ سورہ القصص:81}، جس عبرت ناک انجام سے قارون دوچار ہوا، یہی انجام تقریبا سارے ظالموں، مستکبروں، جابروں اور مال و دولت کے نشے میں غرق افراد کا ہوا، علامہ صاحب اسی سنتِ الہی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں، کہ سارے بادشاہ، حکمران اور زمانے کے قارون مجھ سے ناراض ہیں، اور مجھے ملامت اور سرزنش کے تیروں کا نشانہ بناتے ہیں، اور اس عتاب کی وجہ یہ ہے، کہ میں ان سب سے بے نیاز ہوں۔

اور میری بے نیازی کی وجہ یہ ہے، کہ میں ان کے انجام سے واقف ہوں، ان کا درناک انجام چیخیں مارتا ہوا، ابھی سے میری آنکھوں کے سامنے بے نقاب ہے، مجھے معلوم ہے، کہ یہ سب کے سب اپنے غرور، تکبر، مال و دولت، ظلم و جور اور سرکشی کے سمندر میں غرق ہونے والے ہیں، مجھے خبر ہے، کہ ان کے استکبار کی آگ ان کے وجود کو جلا کر راکھ کر دے گی، اگر اس دنیا میں کوئی ہے جو ان کے انجام سے بے خبر ہے، تو وہ یہ خود ہیں، کیونکہ دنیاوی جاہ و جلال نے ان کی عقلوں کو اندھا کردیا ہے۔ اور زائل ہونے والی شان و شوکت نے انہیں ہر چیز سے غافل کردیا ہے، لہذا خدا کے صالح بندے انہیں دیکھ کر یہ خواہش نہیں کرتے، کہ وہ بھی انہی کی طرح ہو جائیں، کیونکہ حُبِ خدا نے ان کے دلوں کو کائنات کا کعبہ بنایا ہوا ہے، اور وہ بے نیازی کی دولت سے مال مالا اپنے رب کی طرف مسلسل حالتِ ہجرت میں ہیں۔

تحریر: محمد اشفاق

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=6011