22

گلگت بلتستان کی تہذیب و ثقافت،آنلائن سیشن

  • News cod : 12375
  • 04 مارس 2021 - 11:59
انہی خِطّوں میں سے ایک  خطہ پاکستان کے شمال میں واقع " گلگت بلتستان" ہے جو پورے پاکستان میں دینی اقدار کا  ایک حقیقی معنی میں حامل علاقہ سمجھا جاتا ہے۔

تحریری رپورٹ: منظوم ولایتی

دنیا کے ہر خطے میں بسنے والے لوگوں کے  معیاراتِ زندگی الگ الگ ہیں۔اِس کی بنیادی وجہ یقینی طور پر  مختلف قوموں کے اندازِ فکر کا جدا  ہونا ہے۔ ہر قوم جس دین و آئیں کا دم بھرتی ہے ، لامحالہ اُسی کے اثرات اُس قوم کی اجتماعی و انفرادی زندگی پر محیط ہوتے ہیں۔

دین اسلام بھی چونکہ ایک مکمل نظامِ حیات(Complete code of life) ہے،لہذا یہ دین دنیا کے جس خطے میں بھی پہنچا ہے ، وہاں وہ اپنے انمٹ نقوش و آثار مترتب کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ جس کے باعث اسلام کو بطور دین قبول کیے جانے والے ہر خطے میں ایک خاص ” اسلامی تہذیب و ثقافت” وجود میں آئی۔ جس کا اُس علاقے کے لوگوں نے نہ صرف گرمجوشی کے ساتھ استقبال کرتے بلکہ اُس پر نازاں بھی نظر آتے ہیں۔

انہی خِطّوں میں سے ایک  خطہ پاکستان کے شمال میں واقع ” گلگت بلتستان” ہے جو پورے پاکستان میں دینی اقدار کا  ایک حقیقی معنی میں حامل علاقہ سمجھا جاتا ہے۔

آج کی اس تحریر میں قارئین گرامی کے سامنے ” گلگت بلتستان کی تہذیب و ثقافت” کے موضوع پر منعقد ہونے والے ایک آن لائن سیشن کی رپورٹ مختصراٙٙ پیش کی جاتی ہے:

آج پاکستانی وقت کے مطابق شام 6:30 بجے  آن لائن سیشن کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ کلامِ الٰہی سے ہوا۔ جس کی سعادت سیشن میں اسلام آباد سے شریک، جناب برادر محمد حسن عسکری نے حاصل کی۔ جنہوں نے نہایت خوبصورت لحن کے ساتھ “سورہ مبارکہ والنصر” کی تلاوت فرمائی۔ جزاک اللہ خیرالجزاء۔

اس کے بعد  نجف اشرف عراق سے آج کے سیشن کے پہلے مہمان  شیخ مختار حسین توسّلی صاحب کو دعوت دی گئ۔ جنہوں نے اپنے موضوع ” اسلام سے پہلے گلگت بلتستان میں رائج اٙدْیان اور ثقافت” پر گفتگو کا یوں آغاز فرمایا:

“دنیا کے مختلف خطوں کی طرح تاریخ میں گلگت بلتستان میں بھی مختلف ادیان و مذاھب آتے رہے ہیں۔ایک زمانے میں دیومت رہا ہے، پھر بدھ مت کا عروج ہوا  اور پھر  آخر میں اسلام  آیا۔پس اس کا نتیحہ یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں تاریخ میں کوئی ایک مسلّم ثقافت نہیں رہی ہے۔بدھ مت کی اپنی مخصوص ثقافت تھی، اور اس کے اپنے رسوم ورواج تھے۔ بدھ مت کی بعض وہ تہواریں گلگت بلتستان میں ایک زمانے میں  رائج تھیں وہ اس  وقت بھی لداخ میں منائے جاتے ہیں۔ جہاں مرد و زن جمع ہوکر رقص و سرور کی محافل کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ تہوار اور اس قسم کی وہ تہواریں جو اسلامی اصولوں سے متصادم تھیں کو اسلام نے آکر گلگت بلتستان کے علاقے سے ختم کیا لیکن جو تہواریں اسلامی احکام  و اصولوں سے متصادم نہیں تھیں وہ آج بھی موجود ہیں۔ جس کی مثال بلتستان میں ” مے فنگ” کی مقامی تہوار ہے”۔

قبلہ توسّلی صاحب نے مزید فرمایا کہ اسی طرح کی بعض تہواریں گلگت اور ہنزہ نگر میں بھی بالترتیب ” شاپ” اور “بیوفالو” اور ” گرینی” کے نام سے رہی ہیں۔ ان میں نے اسلام نے بعض کو ختم کیا اود بعض رائج رہیں۔ اسلام میں بعض چیزیں جیسے ناچ گانا وغیرہ ممنوع ہے،  لیکن افسوس کے ساتھ  بعض آج لوگ ان ممنوع تہواروں کی ترویج وغیرہ کا مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کی حماقت کی دلیل کے سواء کچھ نہیں!!

اس کے آپ نے ثقافت کیا ہے؟ کے جواب میں فرمایا کہ ثقافت وہ آئینہ ہے جس میں کسی قوم کے رہن سہن، بود وباش اور تہذیب و تمدن کے مظاہر نظر آتے ہیں۔  اور یقینی طور پر یہ ساری چیزیں دین کی روشنی میں پروان چڑھتی ہیں۔

آخر میں آپ نے آج کے روشن فکر طبقے  کو مخاطٙب کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلام آنے سے پہلے مکہ کے لوگ مرد عورت سب عریاں ہوکر خانہ کعبہ کا  طواف کیا کرتے تھے۔ اسلام نے آکر ممنوع قرار دیا ۔ اب اگر آج کا کوئی شخص قبل از اسلام کی اس قسم کی چیزوں کا زندہ کرنے بات کرتا ہے تو کیا اسے حماقت سے تعبیر نہیں کیا جائے گا!!

اسی طرح سے اسلام سے پہلے مخلوط رقص و سرور وغیرہ کی محفلیں ہوتی تھیں، مگر اسلام کے حرام قرار دیے جانے کے بعد دوبارہ کوئی اس قسم کی محفلوں کا حامی ہوتو کیا یہ بھی  حماقت کے زمرے میں نہیں آئے گا۔

اس کے بعد قم المقدسہ ایران سے سیشن کے دوسرے مہمان شیخ سجاد شاکری صاحب نے اپنے موضوع “اسلام کی نظر میں ثقافت اور گلگت بلتستان میں اِس کے آثار”  کے حوالے سے اپنی گفتگو کے آغاز کرتے ہوئے فرمایا:  بنیادی طور پر تہذیب و ثقافت دو الگ الگ چیزیں ہیں۔درحقیقت فارسی میں تہذیب کا متبادل تمدُّن ہے۔ہمارے ہاں بعض اوقات ان دونوں اصطلاحوں کو باہم مخطوط کیاجاتا ہے جو کہ درست نہیں۔

اس کے شاکری صاحب نے فرمایا:  ثقافت کی حقیقت کے بارے میں  عمرانیات کے ماہرین(Sociologists)  کے درمیان تین اقوال رائج ہیں:

١)دین درحقیقت ثقافت کا محصول ہے۔
١)ثقافت اور دین جدا جدا چیزیں ہیں ہاں  باہم مربوط ضرور ہیں۔
٣) ثقافت در حقیقت دین کا محصول ہے۔( اول کا برعکس)

مغربی مفکرین بھی قائل ہیں کہ  وہ دین ہے جس سے مختلف ثقافتیں اور تہذیبیں وجود میں آتی ہیں۔
دین درحقیقت ثقافتوں کو پرورش دینے والا بنیادی ترین عنصر ہے ۔ اسلام بھی چونکہ ایک  دین ہے لہذا یہ اپنی مستقل تہذیب، تمدن کا علمبردار ہے۔بلکہ اسلام ایک مکمل تہذیب کا نام ہے، مسیحیت کی طرح فقط چند اخلاقیات کو دعویدار نہیں ہے۔

آپ نے مزید فرمایا کہ ثقافت در حقیقت روابط کا نام ہے ۔ اور انسان کے چار رابطے ہیں:
١) انسان کا عالمِ طبیعت سے رابطہ۔
٢) انسان کا ماوراء الطبیعہ سے رابطہ۔
٣) انسان کا اپنے آپ سے رابطہ۔
۴)۔ انسان کا دوسرے انسانوں سے رابطہ۔

ان رابطوں  سے جو چیز وجود میں آتی ہے وہ ” ثقافت” ہے۔
اسلام بطور دین ثقافت سازی اور تہذیب سازی کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔اور  کسی معاشرے کی ثقافت  کے اندر تبدیلی کی وجہ سے انسانوں میں بحث و مباحثے شروع ہوجاتے ہیں۔ چونکہ لوگ  اپنے آباء و اجداد کی ثقافت کے تغیّر کو ماننے کیلیے تیار نہیں ہوتے ہیں۔ بلکہ بعض اوقات درعمل پر بھی اتر آتے ہیں۔

آپ نے گلگت بلتستان خاص طور پر بلتستان کے حوالے سے فرمایا کہ مجھے بلتستان کے اندر ایک بندہ ایسا دکھائیں جسے اسلامی ثقافت اپنانے کیلیے تاریخ میں مجبور کیا گیا ہو۔
دنیا کے اندر تبدیلیوں کے لیے خون خرابے ہوتے ہیں ہمارے ہاں بدھ مت سے اسلامی تہذیب و تمدّن کے سامنے میں آنے کیلے خون کا ایک قطرہ تک نہیں بہا ہے۔ یہ چیز دلیل ہے کہ ہمارے آباء و اجداد نے اسلام کو اپنی کمالِ رضایت سے قبول کیا ہے( نہ کہ اسلام کو اُن پر مسلط کیا گیا ہے؛ راقم الحروف)۔

آج اگر بعض لوگ اٹھ کر یا قلم کے ذریعے ظاہری خود پر مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات اور اس کی تہذیب و ثقافت کے خلاف پروپیگنڈا کرتے ہیں، ان کو اس سلسلے میں سوچنا چاہیے۔

حالیہ دنوں نیویارک سے بلتی زبان کی معدومیت کے حوالے سے کالم لکھنے پر محمد حسین مستنصر صاحب کے جواب میں فرمایا کہ  بلتی زبان پر کسی نے پابندی نہیں لگائی ہے۔ صرف بلتی ہی نہیں دیگر زبانوں پر بھی تو اسلام کے اثرات پڑے ہیں وہ  تو اسلام کے خلاف نہیں لکھتے!!

آخر میں ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ اگر ایک جگہ کوئی عالم خرابی کرتا ہے تو وہ  خود اُس کا ذمہ دار ہے ، اس کی آڑ میں پورے اسلام کو تختہِ مشق بنانا یقیناٙٙ خیانت کے زمرے میں آتا ہے۔ لہذا کسی کی غلطی کو مکتب کی غلطی سمجھ کر باہم مخلوط نہ  کیا جائے بلکہ علماء اور مکتب کو جدا جدا پیرائے میں دیکھا جائے۔ کوئی عالِم غلط ہوسکتا ہے اس میں اسلام قصور وار نہیں ہے۔

اس کے بعد جامعة الکوثر اسلام پاکستان سے سیشن کے تیسرے مہمان برادر صابر حسین سراج نے اپنے موضوع
“یونیورسٹیوں میں جی بی کلچرل شوز کی حقیقت” کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھے چونکہ مختلف یونیورسٹیوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے لہذا یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ گلگت بلتستان کلچرل شوز کے نام سے ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں جو پروگرامز ہوتے ہیں، ان میں عموماٙٙ متدیّن طلبہ تو شرکت سے ہی احتراز کرتے ہیں۔
اس کی  بنیادی وجہ یہی ہے کہ جب بھی اعلان ہوتا ہے کہ ایسا کچھ ہونے جارہا ہے تو یونیورسٹیوں میں اس کا مطلب ہی گلگتی مخصوص ٹوپی پہن کر ناچنا سمجھا جاتا ہے۔ جو کہ ہماری ہوری قوم کیلیے ایک المیے (tragedy)  سے کم نہیں ہے!!

برادر صابر حسین سراج نے  افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ گلگت بلتسان کے لوگوں کی مہمان نوزی ، رواداری، خلوص اور امن پسندی جیسی اقدار کو دنیا کے سامنے پیش کیوں نہیں کیا جاتا ہے۔ صرف کلچرل شوز کے نام پہ ڈانس(Dance)  ہی کو کیوں دکھایا جاتا ہے۔

آپ  نے فرمایا کہ میں یونیورسٹیوں کی مختلف میٹنگوں میں بھی بارہا کہہ چکا ہوں کہ ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہورہا ہے آخر؟!! کتنے افسوس کی بات ہے کہ سکردو میں گناہ سے بچنے کیلیے طوائف خانے تک بات پہنچی ہوئی ہے!!

رھبرمعظم دام ظلہ کے ایک قول کو نقل کرتے ہوئے فرمایا کہ جس طرح  سے رھبرِ معظم نے فرمایا ہے کہ زمانہ “ثقافتی یلغار” کا زمانہ ہے ، ہمارے یہاں سکولوں تک یہی ہونے جارہا ہے۔ آج ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہمیں کس طرف لے جایا جارہا ہے۔حالات صاحبانِ  دانش و بینش کے سامنے ہیں۔  اور اس حوالے سے سوشل میڈیا کے ذریعے سے جو کچھ برائیاں پھیلائی جارہی ہیں وہ سب پر عیاں ہیں!!

جناب محمد حسین مستنصر کے حوالے س فرمایا کہ پچھلے دنوں اُن کا آرٹیکل پڑھ رہا تھا۔ جہاں تبدیلی کی بات کی ہے۔ تو عرض ہے کہ ثقافت کی تعریف میں دو چیزیں ہیں۔ ایک علم اور دوسرا عقیدہ۔ پس معلوم ہونا چاہیے کہ ثقافت میں انسان کا عقیدے بھی شامل ہے۔ پس جب عقیدہ تبدیل ہوگا تو ثقافتی اصولوں کا  بھی متغیر ہونا ایک یقینی امر ہے۔ ( پس اس تبدیلی پر واویلا کیسا!!!  راقم الحروف)

آخر میں ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ گلگت بلتستان کے اندر ہم  ابھی تک اپنی نوجوان نسل کو کماحقہ ثقافتی اور تہذیبی اصولوں سے آگاہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود باقی خطوں کی نسبت ہمارے یہاں نوجوانوں کی  فکری و عقیدتی پختگی پر بہتر کام ہوا ہے۔ اس سلسلے میں جو صاحبانِ علم سوشل میڈیا میں فعالیت دکھاتے ہیں ، انہیں بھی  چاہیے کہ وہ اس وسیلے(gadget ) اور پلیٹ فارم کے ذریعے سے علم و آگاہی  کا سلسلہ جاری رکھیں۔

آخر میں سیشن کے میزبان منظوم ولایتی کی جانب سے تینوں  معزّز مہمانوں اور محترم  شرکت کنندگان کا شکریہ ادا کیا گیا۔ اس طرح آج کا یہ آنلائن سیشن محمدؐ و آلِ محمدؑ پر ایک پُر خُلوص صٙلوات کے ساتھ اپنے اِختتام کو پہنچا۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=12375