24

مکتب تشیع کی رو سے شہادت ثالثہ (قسط 1)

  • News cod : 20100
  • 28 جولای 2021 - 11:35
مکتب تشیع کی رو سے شہادت ثالثہ (قسط 1)
موجودہ دور میں غالیوں کے فتنہ شہادت ثالثہ کے پیش نظر علامہ آفتاب حسین جوادی نے آیات و روایات اور علماء اعلام کی کلام میں تحقیق و تدبیر کے بعد ایک شاہکار کتاب بنام"شہادت ثالثہ در تشہد کے متعلق شرعی فیصلہ "تحریر فرما کر امام زمانہ (عج )کے سپاہی ہونے کا حق ادا کیا۔ہم نے اس کتاب سے اقتباس کرتے ہوئے ایک مقالہ ان کے نام سے شایع کرنے کی توفیق حاصل کررہے ہیں پروردگار سے ان کی ازدیاد توفیقات کی دعا ہے آمین

مکتب تشیع کی رو سے شہادت ثالثہ 
تحریر: آفتاب حسین جوادی
پیش لفظ
محقق دوراں علامہ آفتاب حسین جوادی عہد حاضر کے تحقیق و تصنیف کے میدان میں بلند پایہ شیعہ اسکالر ہیں جو دین مبین کے دفاع میں سینہ سپر اور انحرافات و بدعات کی یلغار کے مدمقابل مضبوط چٹان کی مانند اپنا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔
موجودہ دور میں غالیوں کے فتنہ شہادت ثالثہ کے پیش نظر انہوں نے آیات و روایات اور علماء اعلام کی کلام میں تحقیق و تدبیر کے بعد ایک شاہکار کتاب بنام”شہادت ثالثہ در تشہد کے متعلق شرعی فیصلہ “تحریر فرما کر امام زمانہ (عج )کے سپاہی ہونے کا حق ادا کیا۔ہم نے اس کتاب سے اقتباس کرتے ہوئے ایک مقالہ ان کے نام سے شایع کرنے کی توفیق حاصل کررہے ہیں پروردگار سے قبلہ کی ازدیاد توفیقات کی دعا ہے آمین (1)۔

اذان میں شہادت ثالثہ کا جواز
بلاشبہ شرعی نقطہ نظر سے اذان اور اقامت سنت مؤکدہ ہیں۔ ان میں شہادت ثالثہ کے بلا قصد جزئیت پڑھنے کے جواز پر تمام مراجع عظام اور علماءِ اعلام کا اتفاق ہے اور اکثر مراجع کرام اذان و اقامت میں شہادت ثالثہ پڑھنے کو شیعہ کا شعار اور طرہ امتیاز قرار دیتے ہیں ۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ذکر علی ولی اللہ پڑھنا قدیم ایام سے شیعہ کا شعار اور نفار و ایمان کےد رمیان حد فاصل کی حیثیت رہا ہے جو غیبت کے کسی دور سے نامعلوم وجوہات کی بناء پر اذان و اقامت میں بھی جاری ہو ا اور بلا قصدیت جزئیت کے ایسا اضافہ مراجع عظام کی اجازت سے سیرہ و شعار تشیع کہلایا۔ اس سلسلہ میں بعض فقہاء کرام کی تصریحات مندرجہ زیل ہیں:
آیت اللہ العظمی السید ابوالقاسم الموسوی الخوئی ( متوفی ۱۴۱۳ ھ ) شہادت ثالثہ کے اذان و اقامت میں پڑھنے سے متعلق “مستند عروة الوثقی “میں فرماتے ہیں:
لا ریب فی ان الشھادة لعلی ؑ بالولایة و ان لم تکن جزء من الاذان والاقامة الا انھا مستحبة بلا اشکال ۔ ۔ ۔ و قد جرت سیرة العلماء علی الشھادة بالولایة منذ عھد بعید من دون نکیر من احدھم حتی اصبح ذلک شعارا للشیعة و ممیزا لھم من غیر ھم
ترجمہ:بلا شبہ شہادت ولایت علی ؑ اگرچہ اذان و اقامت کی جزء نہیں لیکن بلا اشکال مستحب ہے اور طولانی عرصے سے علماء شیعہ کی یہی سیرت چلی آ رہی ہے اور کسی عالم نے اذان و اقامت میں ولایت علی ؑ کا انکارنہیں کیا، حتی کہ آج یہ شہادت ثالثہ اذان شیعہ کا شعار بن چکی ہے جس سے شیعہ دوسرے اسلامی فرقوں سے ممتاز ہوتے ہیں۔
آیت اللہ العظمی خوئی قدس سرہ کی مندرجہ بالا عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ اذان و اقامت میں شہادت ثالثہ کی بجاآوری پر ہر دور میں شیعہ مجتہدین و علماء کا اتفاق و اجماع رہا ہے۔
آپ مزید فرماتے ہیں :
و قد اصبحت فی ھذه الاعصار من اجلی انحاء الشعار و ابرز رموز التشیع و شعائر مذھب الفرقة الناجیة فھی اذن امر مرغوب فیه شرعا و راجح قطعا فی الاذان و غیرہ( ) (2)
ان زمانوں میں تو یہ مذہب شیعہ کا روشن ترین شعار، واضح رمز اور فرقہ ناجیہ کی شناخت بن چکی ہے لہذا شرعا اذان میں شہادت ثالثہ ایک مرغوب و پسندیدہ امر ہے اور اذان و اقامت میں قطعی طور پر مستحسن اور راجح ہے ۔
آیت اللہ العظمی سید محسن الحکیم طباطبائی اعلی اللہ مقامہ ( متوفی ۱۳۹۰ ھ) ” العروة الوثقی ” کی قابل توجہ اور مشہور شرح ” متمسک” میں (واما الشھادة لعلی ؑ بالولایة وامرة المومنین فلیست جزا منھما) کی تشریح میں فرماتے ہیں :
بل ذلک فی ھذه الاعصار معدود من شعائر الایمان و رمز الی التشیع فیکون من ھذه الجھة راجحا شرعا بل قد یکون واجبا لکن لا بعنوان الجزئیة۔(3)
ترجمہ:بلکہ اس دور میں اذان کے اندر شہادت ولایت علی ؑ ،علامات وشعائر ایمان میں سےہے اور مذہب شیعہ کی رمز ہے۔ اس اعتبار سے یہ شہادت شرعا راجح ہو گی بلکہ ایک لحاظ سے واجب بھی ہو جائے گی لیکن نہ بعنوان جزئیت ۔
استاد الفقہاء آیة اللہ میرزا محمد باقر الزنجانی النجفی ؒ شہادت ثالثہ اور اذان کے سلسلہ میں رقمطراز ہیں:
اخذ الامامیة خلفا عن سلف فجھروا بتلک الشھادة عقیب الشھادتین فی الاذان علی المتاذن و فی المساجد و اوقات الصلوت حتی صار ذلک شعارا لھم۔(4)
شیعہ امامیہ نے شہادت ثالثہ کو نسل در نسل اپنے اکابرین سے حاصل کیا اور نماز کے اوقات میں، مسجدوں کے اندر اور گلدستہ اذان پر شہادتین کے بعد اس شہادت ثالثہ کا اعلان کیا حتی کہ یہ شیعہ کا شعار بن گیا ہے۔
نماز کے تشہد میں شہادت ثالثہ
خداوند متعال نے فرمایا
وما اتاکم الرسول فخذوه و ما نھا کم عنه فانتھوا واتقو الله ان الله شدید العقاب۔(5)
جو کچھ رسول تمہیں دے لے لو اور جس چیز سے منع فرمائیں اس سے رک جاؤ اور اللہ کا خوف کرو ۔ اللہ یقینا شدید عذاب دینے والا ہے۔
اس آیت مبارکہ کا مقتضی و مفہوم یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ جو بھی امر دیں اس کی اطاعت و فرمانبرداری بجا لائیں اور جس کام سے روکیں اس کے قریب مت جائیں اس لیے کہ اطاعت رسول ﷺ کے بغیر شریعت پر عمل کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالی نے شرعی احکامات جو بھی صادر فرمائے ہیں وہ نبی کریم ﷺ کے ذریعے ہی ہمیں دیئے ہیں چنانچہ نماز سے متعلق سرکار دو عالم جہاں حضرت محمد ﷺ نے فرمایا:
(صلوا کما رایتمونی اصلی)
تم نماز اس طرح پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔
اسلام میں نماز توقیفی عبادت ہے جس کی مخصوص شکل و صورت اور تمام حدودو شرائط خداوند عالم نے متعین کر دیئے ہیں ۔ اس میں اپنی طرف سے کمی کرنے والا یا زیادتی کرنے والا شریعت اسلامیہ کی نگاہ میں نمازی نہیں ہے۔
خدا وند متعال نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے
یا یھا الذین آمنوا اطیعوا الله و اطیعوا الرسول و اولی الامر منکم۔ (6)
اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول ﷺ کی اور اولی الامر کی۔
اس آیت مبارکہ میں خدا اور سول خدا اور اولی الامر کی اطاعت واجب ہے کہ جب تشہد میں شہادت ثالثہ نہ خدا نے حکم دیا ہے نہ رسول نے اور نہ ہی صاحبان امر نے پڑھی اورنہ ہی پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ اس میں ہمیں ان کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے چنانچہ نماز تشہد میں دو شہادتوں کی احادیث ائمہ اہل بیت علیہم السلام سے بکثرت وارد ہوئی ہیں جن میں سے صرف چند ایک صحیح حدیثیں بطور نمونہ سطور ذیل میں درج کی جا رہی ہیں۔
جناب زرارہ سے روایت ہے :
قال ابو جعفر ؑ و یجزیک فی التشھد الشھادتین و ھذہ افضل لانھا العبادة ثم تسلم(7)
حضرت امام محمد باقر ؑ نے فرمایا: تشہد میں تجھے دو شہادتیں پڑھنی ہیں کسی چیز کو بڑھا نہیں سکتے کیونکہ یہ عبادت ہے اور پھر سلام پھیر دیں۔
حضرت امام جعفر صادق ؑ نے فرمایا:
التشھد فی کتاب علی شفع(8)
حضرت علی ؑ کی کتاب میں تشہد دو شہادتوں پر ہے ۔
جناب سورة بن کلیب سے مروی ہے کہ :
سالت ابا جعفر عن ادنی ما یجزی من التشھد فقال الشھادتان(9)
میں نے حضرت امام ابو جعفر محمد باقر ؑسے سوال کیا کہ کم سے کم تشہد کس قدر ہے ؟ آ پ نے فرمایا دو شہادتیں ہیں۔
جناب عبدالملک بن عمرہ الاحوال سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت اما م جعفر صادق ؑ نے فرمایا:
الحمد لله اشھد ان لا اله الا الله وحده لاشریک کله و اشھد ان محمدا عبده و رسوله اللھم صل علی محمد و آل محمد و تقبل شفاعته و ارفع درجته.
جناب ابو بصیر نے کہا کہ حضرت امام جعفر صادق ؑ نے فرمایا کہ جس وقت تم دوسری رکعت میں بیٹھو تو یہ پڑھو :
بسم الله و بالله و محمد لله و خیر الاسماء الحسنی لله اشھد ان لا اله الا الله وحده لاشریک له و اشھد ان محمد عبده و رسوله ارسله بالحق بشیرا و نذیرا بین یدی الساعة اشھد انک نعم الرب و ان محمد نعم الرسول اللھم صلی علی محمد و آل محمد و تقبل شفاعته و ارفع درجته
پھر دو یا تین مرتبہ اللہ تعالی کی حمد کہو اور کھڑے ہو جاو پھر فرمایا:
جس وقت چوتھی رکعت پڑھ کر بیٹھو تو پڑھو :
بسم الله و بالله و محمد لله و خیر الاسماء الحسنی لله اشھد ان لا اله الا الله وحده لاشریک کله و اشھد ان محمد عبده و رسوله ارسله بالحق بشیرا و نذیرا بین یدی الساعة(10)
مندرجہ بالا اس تشہد کو جلیل القدر فقہاء کرام نے اپنی بلند پایہ تالیفات میں ارقام فرمایا ہے اور اسے انتہائی معتبر اور موثق قرار دیا ہے۔
۱۔ سید الفقہاء شیخ محمد بن جمال الدین العاملی شہید اول ؒ(متوفی ۷۸۲ )نے اپنی معروف فقہی کتاب ” ذکری الشیعة فی احکام الشریعة ” میں تشہد کے مسائل بیان کرتے ہوئے “افضلہ ما رواہ ابوبصیر عن ابی عبداللہ ؑ ۔ ۔ ۔ ” سے آغاز کر کے اس تشہد کو افضل قرار دیا ہے۔(11)
۲۔ فقیہ محدث شیخ یوسف، بحرانیؒ( متوفی ۱۱۸۶ ھ) نے الحدائق الناضرة، میں ” افضل التشھد ما رواہ الشیخ فی الموثق عن ابی نصیر عن ابی عبد اللہ ؑ ۔ ۔ ۔ الخ ” تحریر کر کے اسے افضل تشہد فرمایا ہے۔(12)
۳۔ عالم متبحر فاضل ہندی ؒ (متوفی ۱۱۳۵ ھ )نے اپنی استدلالی فقہی تصنیف کشف اللئام عن قواعد الاحکام، میں اسی حدیث کو مورد استنباط قرار دیا ہے۔(13)
۴۔ شیخ زین الدین الدمشقی شہید ثانی ؒ (متوفی ۹۶۶ ھ )نے روض الجنان شرح ارشاد الاذھان میں تشہد کے ضمن میں ” والزیادة فی الدعاء ” کے تحت اسی تشہد کو راجح و مختار قرار دیا ہے۔(14)
۵۔ علامہ حلی ؒ (متوفی ۷۲۶ ھ) جیسے عظیم المرتبت عالم نے ” تذکرة الفقہاء ” میں مسئلہ ۲۹۶ یستحب الزیادة فی التشھد میں اس کو ممتاز کیا ہے۔(15)
۶۔ شیخ فقیہ ابو جعفر ابن ادریس حلی ؒ (متوفی ۵۹۸ ھ )نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف کتاب السرائر میں اسی حدیث مبارکہ کو ترجیح دی ہے۔(16)
۷۔ آیة اللہ سید محمد جوا د عاملیؒ( متوفی ۱۲۲۶ ھ ) مفتاح الکرامہ شرح قواعد العلامہ میں لکھتے ہیں :
ان الافضل فی التشھد ما فی خبر ابی بصیر ۔ ۔ ۔ خبر ابی بصیر فی التھذیب بخط الشیخ رحمة الله ۔ ۔ ۔ (17)
۹۔ امام الفقہاء السید علی طباطبائی ؒ(متوفی ۱۲۳۱) نے شرح الکبیر معروف بہ ریاض المسائل جلد اول باب التشھد میں مستحبات کے بیان میں اس حدیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔
۱۰۔ استاد المجتہدین آیت اللہ العظمی میرزا حبیب اللہ ملکی تبریزی ؒ نے تبصرہ للعلامہ حلی ؒ کی نہایت مدلل شرح تصنیف فرمائی ہے اس میں انہوں نے تشہد کے موضوع میں شہادت ثالثہ کی طرف اشارہ تک نہیں کیا۔ حضرت ابو بصیر سے مروی تشہد کے بارے میں فرماتے ہیں :
وروایة ابی بصیر المشتملة علی الدعاء الطویل وھو الاکمل الافضل من الکل۔(18)
ہم اس بات میں انہیں حوالوں پر اکتفا کرتےہیں ورنہ ہر دور میں فقہاء نے اسی تشہد کو ذکر کیا ہے اور شہادة ثالثہ کا ذکر تک نہیں کیا۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے بروایت ابو بصیر موثق و معتبر مروی طویل تشہد جس میں شہادت ثالثہ کا ذکر تک موجود نہیں ہے ،اسے تمام بزرگ فقہاء و مجتہدین اور نائبین امام نے ترجیح دیتے ہوئے اسے افضل و اکمل قرار دیا ہے۔اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ آیا کوئی با شعور انسان یہ یقین کر سکتا ہے کہ یہ سب ذی استعداد بزرگ و متبرک ہستیاں جو مذہب اہل بیت ؑ کے مرکز و مدار اور قطب ہیں، مقصر اور منکر ولایت علی ؑ تھے ؟؟ نعوذ بالله من ذالک۔
“فقہ الرضا “کی ناقابل قبول روایت
مندرجہ بالا معتمد علیہ کتب میں حضرت ابی بصیر سے مروی ہے کہ اس صحیح السند اور موثق تشہد میں شہادت ثالثہ کا ذکر موجود نہیں ہے البتہ فقہ المجلسی یا فقہ الرضا نامی کتاب کی ایک غیر معتبر روایت میں شہادت ثالثہ کا اضافہ پایا جاتاہے جسے تمام مشاہیر اور علماء اعلام نے اصول حدیث کی ر و سے ناقابل اعتبار قرار دیا ہے ۔ اس قسم کی روایت کو معرض عنہا کہا جاتا ہے یہ روایت بھی ان ہی غیر مستند روایات میں سے ہے ۔
ورنہ ان بنیادی فقہی کتب میں اس کا تذکرہ بھی ضرور ہوتا ۔ اس تشہد کی صحت پر تمام مجتہدین کا اتفاق اور اسے تلقی بالقبول کا مقام حاصل ہے ۔ جس میں شہادت ثالثہ کاذکر نہیں ہے ۔ خود چھٹے امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس امر کی وضاحت فرما دی ہے کہ :
خذو بالمجمع علیه فان المجمع علیه لا ریب فیه (19)
جو حدیث بھی مورد اتفاق ہو وہ لے لو چونکہ کسی بھی متفق علیہ چیز میں شک و شبہ نہیں رہتا۔
لہذا فقہ المجلسی اور فقہ الرضا کی ضعیف اور مقطوع السند روایت کو اچھال کر قوم میں انتشار اور خلفشار پھیلا کر پیش نماز حضرات کو بالخصوص اور شیعہ عوام کو بالعموم پریشان کرنا اور تمام مراجع عظام کے خلاف ناشایستہ زبان استعمال کر کے ایمان سوز طرز کلام انتہائی جسارت اور سنگین جرم ہے ۔ (جاری ہے)
—————–
حوالہ جات

1. ایڈیٹر
2: آیت الله العظمی خوئی ،مستند عروة الوثقی، جلد ۲، صفحه ۲۸۸ ،طبع جدید، ایران
3: آیت الله العظمی سید محسن الحکیم ،لمتمسک شرح العروة الوثقی، ج۴، ص ۱۴، طبع نجف اشرف۔
4: آیة الله میرزا محمد باقر الزنجانی ،سر الایمان الشھادة الثالثة فی الاذان، صفحه ۵۲، مطبعة الغری الحدیثه ،نجف، ۱۹۵۵ ء۔
5۔ سوره حشر آیه، ۷
6۔ سوره نساء، آیت ۵۹
7: تهذیب الاحکام، ج۲، ص ۱۰۰، طبع ایران
8: تهذیب الاحکام، ج۲، ص ۱۰۰
9: تهذیب الاحکام، ج۱، ص ۱۰۱
10: تهذیب الاحکام، ج۲، ص ۹۹، طبع ایران، الوافی للفیض کاشانی، ج۸، ص ۷۷۰، طبع جدید اصفهان
11: ذکری الشیعة فی احکام الشریعة ” جلد ۳، صفحه ۴۱۹، مطبوعه جدید ایران
12: الحدائق الناضرة، جلد ۸، ص ۴۵۰، طبع دارالاضواء، بیروت
13: کشف اللئام عن قواعد الاحکام، ص ۲۳۲، طبع قدیم ایران
14: روض الجنان شرح ارشاد الاذھان ج۲، ص ۷۳۸
15: تذکرة الفقهاء ،ج۳، ص ۲۳۶
16: کتاب السرائر ج۱، ص ۲۳۱
17: مفتاح الکرامه شرح قواعد العلامه ج۲، ص ۴۶۶
18: تذکرة الادله شرح التبصرة، ج۱، ص ۲۴۳، طبع تهران
19: اصول کافی،ج1،ص17

 

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=20100