18

امام زمانہ (عج) سے رابطے کے آداب، حصہ اول

  • News cod : 2133
  • 22 سپتامبر 2020 - 23:06
امام زمانہ (عج) سے رابطے کے آداب، حصہ اول
حوزہ ٹائمز|ہر سچے مسلمان کے دل میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کے بعد ائمہ اہلبیت علیہم السلام کی محبت موجود ہے۔ یہ محبت ہر مؤمن کی فطرت میں شامل ہے۔ اہل بیت اطہار ؑ سے محبت کی اہمیت کا اندازہ اس بات ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قران کریم میں اسے اجر رسالت قرار دیا ہے۔

امام زمانہ (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ) سے رابطے کے آداب

تحریر: محمد شریف نفیس

(حصہ اول)

ہر سچے مسلمان کے دل میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کے بعد ائمہ اہلبیت علیہم السلام کی محبت موجود ہے۔ یہ محبت ہر مؤمن کی فطرت میں شامل ہے۔ اہل بیت اطہار ؑ سے محبت کی اہمیت کا اندازہ اس بات ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قران کریم میں اسے اجر رسالت قرار دیا ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا: “قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْہِ أَجْراً إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبیٰ”(سورہ شوریٰ:۲۳) “کہدیجئے: میں اس (تبلیغ رسالت) پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا سوائے قریب ترین رشتہ داروں کی محبت کے”۔ اسی طرح ہر مؤمن کا اہلبیت اطہار ؑ کے ساتھ دل کا تعلق اور رابطہ بھی ہے۔ لیکن یہ رابطہ فقط ایک جذباتی اور عاطفی رشتے کی وجہ سے نہیں بلکہ یہ رابطہ عقیدتی اور عملی ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ بھی ہم سے اہلبیت اطہارؑ کے ساتھ ایک جذباتی رابطہ رکھنے سے زیادہ ایک فکری، عقیدتی اور عملی رابطہ چاہتا ہے۔ ہمیں عملی طور پر اہلبیت اطہار ؑ کے پیروکار کہلوانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: “قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ” (سورہ آل عمران:۳۱) “کہدیجئے: اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا “۔

اسی طرح ہمارے اپنے وقت کے امام کے ساتھ بھی ہمارا رشتہ فقط عقیدے کی حد تک نہیں ہونا چاہیے بلکہ امام زمانہؑ اس وقت کے ایک انسان کامل اور ہادی برحق ہیں۔ وہ ہمارے درمیان موجود ہیں۔ ہمارے ہر دکھ درد میں ساتھ ہوتےہیں۔ وہ ہمیں دیکھتے اور پہچانتے بھی ہیں لیکن ہم انہیں دیکھتے تو ہیں لیکن پہچان نہیں سکتے۔ امام زمانہؑ صرف ہمارے ہی نہیں ، بلکہ تمام جن و انس کے امام ہیں۔ بلکہ اس پوری کائنات کے بھی امام ہیں۔ اگر امام برحق کا وجود مقدس نہ ہوتا تو یہ زمین اپنے بسنے والوں کے ساتھ تباہ ہوچکی ہوتی۔ لہٰذا ایک انسان کامل اور ہادی برحق کے ساتھ اپنی زندگی کے شب و روز اور اپنے زمانے کے مجموعی حالات کے مطابق ارتباط برقرار ہونا چاہیے۔امام زمانہ ؑ ہدایت کا چراغ ہیں اُن سے ہدایت لینی چاہیے اور ان کے ہدف کی تکمیل کے لئے ہرممکن جدو جہد کی کوشش کرنی چاہیے۔

خود امام زمانہؑ نے شیخ مفید ؒ کو مخاطب کر کے ایک خط لکھا اور تمام مؤمنین کے لیے پیغام دیتے ہوئے ارشاد فرمایا”انا غیر مھملین لمراعاتکم۔ ولا ناسین لذکرکم ولولا ذٰلک لنزل بکم اللاواء، واصطلمکم الاعداء ، فاتقوا اللہ جل جلالہ، وظاھرونا علیٰ انتشالکم من فتنۃ قد افاقت علیکم”ہم تمہارے حالات سے بے خبر نہیں، تمہیں اپنی دعاؤں میں بھی نہیں بھولتے۔ اگر ہم تمہاری طرف متوجہ نہ ہوتے تو تم پر شدید بلائیں نازل ہوتیں اور تمہارے دشمن تمہیں کاٹ کر کھا جاتے۔ پس اللہ سے ڈرتے رہو اور ہمارے ساتھ رہو تاکہ تمہیں فتنوں سے نجات دلائیں۔

بعض روایات میں یہ بھی نقل ہواہے کہ ہمارے سارے اعمال امام زمانہ ؑ کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں۔ ہمارے اچھے اعمال دیکھ کر امامؑ خوش ہوتے ہیں اور بُرے اعمال دیکھ کر دکھی ہوتے ہیں۔لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اپنے نفوس کو پاک کریں اور کردار ٹھیک کریں۔ تاکہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے ساتھ امام زمانہؑ کا قلب مطہر بھی ہم سے راضی و خوشنود ہو۔ ہمیں اپنے آپ کو روحانی طور پر مضبوط کرنا ہوگا۔ ہر لحاظ سے امام زمانہؑ کی نصرت کے لئے خود کو آمادہ اور امامؑ کی اس عالمی تحریک کو دنیا بھر میں پھیلانے کے لئے ضروری قوت تیار کرنی ہوگی۔ پھر امام زمانہؑ کے ظہور کے لئے دعا کریں ۔

امام زمانہؑ سے ارتباط قائم رکھنے اور ان سے راز و نیاز کرنے کے کچھ آداب ہیں۔ ہمارے ائمہ معصومین علیہم السلام کی روایات میں بہت سے آداب کا ذکر ہوا ہے۔ ذیل میں ان میں سے کچھ اہم آداب کا ذکر کیا جاتا ہے:

۱۔ امامؑ کی بیعت میں رہنا:

ہمیں چاہیے کہ اپنے امامؑ کی بیعت میں رہیں۔ یعنی اپنے اوپر امامؑ کا ہر حکم لازم قرار دیں۔ ہر روز امامؑ کے ساتھ تجدید عہد کریں۔ چنانچہ دعائے عہد میں ملتا ہے :”اللھم انی اُجدِدُ لہ فی صبیحۃ یومی ھذا وما عشتُ من ایامی عھدا و عقدا وبیعتۃ لہ فی عنقی لا احول عنھا ولا ازول ابدا “( خداوندا! آج کے دن کی صبح کو اور میری حیات کے تمام ایام میں، میں ان کے لئے اپنے اس عہد اور بندھن اور پیوند اور بیعت کی تجدید کرتا ہوں جو میری گردن پر ہے، اور (عہد کرتا ہوں کہ) کبھی اس عہد و بیعت سے کبھی پلٹوں گا نہیں اور کبھی اس سے دستبردار نہیں ہوں گا)

۲۔ امامؑ کے دیدار کا شوق رکھنا:

امام جعفر صادق ع سے منقول ہے کہ آپؑ امام زمانہؑ کے دیدار کا شوق کرتے ہوئے فرماتے تھے: “لو ادرکتُہ لخدمتہ ایام حیاتی” (اگر میں ان کے زمانے کو درک کرلوں تو اپنی ساری زندگی ان کی خدمت کرتے ہوئے گزار دوں)۔ ہمارے ائمہ معصومینؑ نے ہمیں یہی سکھایا ہے کہ امام زمانہؑ کے دیدار کے لئے ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں۔ چنانچہ دعائے عہد میں ارشاد ہوا ہے: “اللھم ارنی الطلعۃ الرشیدۃ والغرۃ الحمیدۃ، واکحُل ناظری بنظرۃ منی الیہ…” (اے خدا! مجھے دکھا دے وہ سنجیدہ اور ہدایت دینے والا چہرہ، وہ پسندیدہ پیشانی، اور ان کے دیدار کو میری آنکھوں کا سرمہ قرار دے)۔ اسی طرح دعائے ندبہ میں بھی: ” وارہ سیدہ یا شدید القویٰ” اور ” ھل الیک یابن احمد سبیل فتُلقیٰ” جیسے جملے نقل ہوئے ہیں۔ ان کے علاوہ مختلف دعاؤں میں امام زمانہؑ کے دیدار کے لئے دعا کے جملے ملتے ہیں۔(دیکھئے: جنۃ الماویٰ،ص۵۱، تنقیح الاصول ج۳،ص۱۳۱)

۳۔ امام زمانہؑ کی ولایت پر ثابت قدم رہنا:

امام محمد باقر ؑ سے منقول ہےکہ آپؑ نے فرمایا: “یاتی علیٰ الناس زمان یغیب عنھم امامھم، طوبیٰ للثابتین علیٰ امرنا فی ذلک الزمان۔انّ ادنیٰ ما یکون لھم الثواب ان ینادی بھم الباری جل جلالہ فیقول: عبیدی وامائی آمنتم بسری وصدقتم بغیبی فاَبشروا بحسن الثواب منی، ای عبیدی و امائی حقا منکم اتقبل وعنکم اعفو ولکم اغفر، وبکم اسقی عبادی الغیث و ادفع عنھم البلاء، لولاکم لانزلت علیھم عذابی” (بحار الانوار،ج۵۲،ص۱۴۵) “لوگوں پر ایک وقت ایسا آئے گا جب ان کا امام غیبت میں ہوگا۔ اس زمانے میں ہماری ولایت پر ثابت قدم رہنے والوں کو مبارک ہو۔ ان کو کم سے کم جو ثواب دیا جائے گا وہ یہی کہ اللہ تعالیٰ ان سے کہے گا: میرے بندو، میری کنیزو! تم نے میرے اسرار پر ایمان لایا اور غیبت کی تصدیق کی۔ لہٰذا میری طرف سے تمہیں حسن ثواب کی بشارت ہو۔ اے میرے بندو، میری کنیزو! تمہارا حق ہے کہ میں تمہارے اعمال قبول کروں، تمہاری لغزشوں کو معاف کروں اور تمہاری مغفرت کروں۔ تمہاری ہی وجہ سے میں اپنے بندوں کو سیراب کرتا ہوں اور ان سے بلائیں دور کرتا ہوں۔ اگر تم نہ ہوتے تو ان پر عذاب نازل کرتا۔

۴۔ امام کی جدائی میں غمگین رہنا:

ایک مؤمن کو چاہیے کہ اپنے امام سے دوری پر مغموم رہے۔ امام ؑ کی فرقت میں گریہ و زاری کرے۔ چنانچہ اصول کافی میں امام صادقؑ سے منقول ہے: “ہماری مظلومیت پر مغموم ہونا اور دکھ کی سانس لینا تسبیح ہے”۔ ایک اور مقام پر آپؑ ہی سے منقول ہے: “اللہ تعالیٰ تمہارے زمانے کے امام کو سالوں تک غیبت میں رکھے گا۔ اس طرح تمہیں آزمائے گا۔ یہاں تک کہ لوگ کہیں گے کہ امامؑ وفات پاگئے ہیں۔ (اگر زندہ ہیں تو) کس جگہ پر ہیں، کہاں چلے گئے ہیں! مؤمنین کی آنکھوں میں امامؑ کے لئے آنسو ہوں گے”۔

۵۔ امامؑ کے لئے دعا کرنا۔

امام زمانہؑ کے ایک عاشق پر فرض ہےاور امام زمانہ ؑ کا اس پر یہ حق بھی ہے کہ امام ؑ کے لئے دعا کرے۔ بلکہ جب بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دست دعا بلند کرے تو سب سے پہلے امامؑ کے لئے دعا کرے۔ خصوصا دعائے فرج (اللھم کن لولیک…) کا ہمیشہ ورد کرے۔ امام حسن عسکریؑ سے ایک دعا وارد ہوئی ہے: ” اللھم اعذہ من شر کل طاغ و باغ، ومن شر جمیع خلقک واحفظہ من بینیدیہ ومن خلفہ وعن یمینہ وعن شمالہ اوحرسہ وامنعہ ان یصل الیہ بسوء واحفظ فیہ رسولک وآل رسولک واظھر بہ العدل وایدہ بالنصر” ( بحار الانوار ج۹۴، ص۷۸)” خداوندا ! اسے ہر سرکش ظالم و جابر کے شر سے محفوظ رکھ، اسے اپنی ساری مخلوق کے شر سے محفوظ رکھ۔ اس کی ہر طرف سے حفاظت فرما۔ اس سے ہر قسم کی بلاؤوں کو دور فرما۔ اس کے ذریعے آپ کے رسولؐ اور آل رسولؑ کی حفاظت فرما۔ اس کے ذریعے عدل و انصاف کا بول بالا فرما اور اپنی جانب سے اس کی نصرت و تائید فرما۔

اسی طرح امام زمانہؑ کے ظہور میں تعجیل کے لئے دعا کریں۔ معصومینؑ کی روایات میں اس کی بڑی تاکید ہوئی ہے۔ خود امام زمانہؑ اپنے ایک خط میں ارشاد فرماتے ہیں: “واکثروا الدعاء بتعجیل الفرج فاِن ذلک فرجکم” (الاحتجاج،ج۲،ص۳۸۴) میرے امور میں گشائش کے لئے زیادہ سے زیادہ دعا کرو کیونکہ اسی میں تمہارے امور کی گشائش ہے۔”

(جاری ہے۔۔۔)

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=2133